Image 1 Image 2 Image 3 Image 4
Pyara Islam
Showing posts with label عشق حقیقی. Show all posts
Showing posts with label عشق حقیقی. Show all posts

میرے مدرسے سے جب بچے اٹھ کر جاتے ہیں

 

میرے مدرسے سے جب بچے اٹھ کر جاتے ہیں، تو ایسے لگتا ہے جیسے میں کسی اور ہی دنیا سے واپس آ رہا ہوں۔ کیسی خوشی اور خوبصورتی کی دنیا ہوتی ہے بچوں کے قرآن پاک پڑھنے کی۔ میرے استاد محترم حضرت سید غفران علی شاہ صاحب کوئی پچھلے پچاس سال سے پڑھا رہے ہیں، اور صبح و شام پڑھا رہے ہیں، کیسی  فیلنگز ہوں گی ان کی۔ میں جب انہیں دور سے دیکھتا ہوں، تو ان کے پورے وجود کے گرد ایک نورانی ہالہ نظر آتا ہے۔  

قرآن پاک پڑھانے کی فیلنگز ایسی خوبصورت ہوں گی، اس کا مجھے کچھ اتنا زیادہ اندازہ نہیں تھا۔ یہ تو سب سے ہی اعلیٰ ہیں۔ قرآن پاک پڑھنا، حفظ کرنا، سب بہت اچھا تھا ، لیکن قرآن پاک پڑھانا تو کمال ہی ہو گیا ہے۔ میں سوچ رہا ہوں ابھی مدرسہ پوری طرح ایسٹبلش نہیں ہوا، پوری طرح ایسٹیبلش ہو جائے گا، باقاعدہ پچیس تیس بچے بیٹھے ہوں گے تو پتہ نہیں کیا عالم ہو گا۔ میں تو تصور کر کے ہی پھولا نہیں سماتا۔ اللہ تعالیٰ نے کیسی مہربانی کی ہے مجھ پر۔ ذالک فضل اللہ، یوتیہ من یشاء۔ ورنہ من آنم کہ من دانم۔ 

میں یہ سب آپ لوگوں سے اس لئے شئیر کر رہا ہوں، کہ ایک تو میرا یقین ہے، کہ اچھی باتیں شئیر کرنی چاہئیں، اور دوسرا یہ کہ اگر آپ میں سے بھی کسی کا دل چاہ رہا ہو تو شروع کر لے، بہت اچھا ایکسپیرئنس ہے۔ بس اللہ تعالیٰ یہ کیف و سرور عطا فرماتا رہے ، اس جیسی بات نہیں ہے اور کوئی۔ 

یہ دنیا قرآن پاک پڑھنے پڑھانے میں کتنی خوبصورت ہے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کو تدریس قرآن پاک کی خوش قسمتی عطا فرمائے، آمین۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ


آج میرے مدرسے کا پہلا دن تھا


 آج میرے مدرسے کا پہلا دن تھا۔ میرے بیوی بچوں نے کہا کہ آپ ساری عمر سوچتے ہی رہے ہیں، بس اب شروع کر دیں۔ اپنے گھر کے نچلے پورشن میں شروع کر دیں۔ ابھی اسی طرح شروع کر دیں۔ ہم قرآن پاک، اور نورانی قاعدے، اور یسرنا القرآن وغیرہ کا بندوبست کر لیں گے کبھی۔ کوئی چٹائی اور دری بھی آ جائے گی، کوئی فلیکس بھی لگا لیں گے مدرسے کے نام کی، بس ابھی آپ شروع کر دیں۔ 

میری بیوی ایک ہمسائی کو کہہ آئی کہ آپ اپنے بچوں کو قرآن ناظرہ پڑھنے کے لئے بھیجیں۔ وہ بہت خوش ہوئی۔ اس نے فورا حامی بھر لی۔ بلکہ اس نے تو یہ بھی کہا، کہ شاہ جی سے کہیں کچھ بڑی بوڑھیوں کے لئے بھی وقت نکالیں، ہمیں بھی ضرورت ہے دہرائی کی، اور اچھی باتیں سیکھنے کی۔ 

میں حیران تھا کہ اتنا میڈیا اور اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود جو زندہ انسان سے، اپنے سامنے بیٹھے ہوئے انسان سے سننے کی بات ہے، وہ کچھ اور ہی چیز ہے۔ میں نے آپ کو بتایا تھا، کہ ایک بار ایک کمپنی کے مالک نے ایک مولوی صاحب سے درخواست کی کہ وہ صبح نو بجے اسے کچھ سبق دے جایا کریں، اس نے بچپن میں قرآن پاک نہیں پڑھا ہوا۔ وہ حیران رہ گیا جو اس کی کمپنی کے آدھے سے زیادہ لوگ اسی طرح کے نکلے۔ انہوں نے بھی بچپن میں نہیں پڑھا تھا۔ اور کچھ نے پڑھ کر کبھی دہرایا نہیں تھا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بہرحال اگر اللہ تعالیٰ یہ خوشی زندگی بھر کے لئے دے دے تو کیا ہی بات ہو جائے، بچے جب اونچی آواز میں قرآن پاک پڑھ رہے تھے، دہرا رہے تھے، تو جیسے میری روح ساتویں آسمان پر تھی۔ میری خوشی کی کوئی انتہا نہیں تھی۔ مجھے تو ویسے ہی مدرسے کے بچوں کی آواز سنائی دینے لگتی ہے بعض دفعہ۔ یہ تو واقعی میں سنائی دے رہی تھی۔ بہت ہی خوبصورت طریقہ تھا بچوں کے پڑھنے کا۔ میرے تو دل میں اتر گیا۔ 

میں تو کہوں گا آپ بھی کسی نہ کسی کو قرآن پاک پڑھانا شروع کر دیں اپنے ارد گرد، یا کسی سے پڑھنا شروع کر دیں۔ دونوں ہی تجربے بے مثال ہیں۔ 

میں نے بچوں کو کہا ہے کہ میں آپ سے انگلش بھی بولوں گا اور عربی بھی۔ آپ قرآن پاک کے دو تین لفظوں کا مطلب بھی یاد کر لیا کریں گے ہر روز۔ 

اور میں نے انہیں کہا کہ اپنے آپ کو ہر حالت اور ہر حال میں ایک اچھا مسلمان سمجھنا ہے۔ 

میں نے ایک ایک لفظ پر ان کی تعریف کی، کہ وہ بہت اچھا پڑھتے ہیں، ان کا حافظہ بہت اچھا ہے، انہیں یاد بہت جلدی ہوتا ہے۔ وہ بہت جلد سارا قرآن پاک پڑھ لیں گے۔  

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن پاک پڑھنے اور پڑھانے کی خوش نصیبی عطا فرمائے، آمین۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ


پچھلے دنوں میں گیجٹس اور وجٹس کے

 

پچھلے دنوں میں گیجٹس اور وجٹس کے کوڈ لکھ رہا تھا، تو ایک بات پر بڑا حیران ہوتا تھا، کہ ایک کوڈ ایک بلاگ پر بہت اچھا چلتا تھا، لیکن دوسرے بلاگ پر فیل ہو جاتا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہوتی تھی، کہ اس بلاگ پر استعمال کیے ہوئے دوسرے کوڈ اس سے کمپیٹیبل نہیں ہوتے تھے۔ 

پھر ایک اور بات بڑی عجیب ہوتی تھی، کہ ایک کوڈرائٹر کو کوئی پرمپٹ دیتا تھا، اور پہلی بار وہ کوڈ لکھتا تو بالکل عجیب سا، جو چل ہی نہ پاتا میرے سسٹم پر۔ لیکن انہی پرمپٹس پر دوسری بار لکھنے کو کہتا، تیسری، چوتھی، پانچویں بار لکھنے کو کہتا تو بہت عمدہ کوڈ سامنے آتا۔ جو میرے سسٹم پر بہترین چل رہا ہوتا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہمیں اب اتنا عقلمند ہو جانا چاہئے، اور یہ سمجھ لینا چاہئے کہ انسانوں میں بھی کمپیٹیبلٹی ہوتی ہے۔ ایک انسان ایک جگہ پر اچھا پرفارم نہیں کرتا، لیکن دوسری جگہ پر اچھا پرفارم کرتا ہے۔ ورکرز، ایمپلائیز، کوورکرز، باس، ان سب کا بھی یہی مسئلہ ہوتا ہے۔ ایک کمپنی سے ایک ورکر کو نکال دیا جاتا ہے، لیکن دوسری کمپنی میں وہی ورکر حیران کر دیتا ہے اپنے کام سے۔ ہمیں اپنے ارد گرد رہنے والے لوگوں کو مارجنز دینے چاہئیں۔ ہمیں رعائتیں اور کنسیشنز دینے چاہئیں۔ ہمیں یہ مان لینا چاہئے کہ بہت سے لوگ صرف ہماری صحبت، ہمارے ساتھ، ہماری کمپنی کی وجہ سے غلط پرفارم کر رہے ہیں، غلط چل رہے  ہیں۔ اگر وہ کسی اور جگہ کسی اور کے ساتھ ہوتے تو بہت اچھا پرفارم کرتے۔ بعض دفعہ میاں بیوی محسوس کرتے، کہ اگر یہی لائف پارٹنر کسی دوسرے کی زندگی میں ہوتا تو کتنا قابل رشک ہوتا، کتنا خوبصورت چلتا۔ 

اللہ تعالیٰ نے ہماری کمپوزیشن میں ایک چیز رکھی ہے، جو یہ طے کرتی ہے، کہ ہماری زندگی میں کون سے لوگ اور چیزیں آئیں گی۔ کیسے راستے اور کیسی ٹریفک آئے گی۔ 

آپ کبھی غور کریں، کہ کروڑوں اربوں لوگوں میں سے آپ کی زندگی میں وہی چند سو لوگ آئے ہیں۔ ایک ہی طرح کے تقریبا۔ آپ دیکھتے اور سنتے تو ہزاروں لوگوں کو ہیں، لیکن آپ کی زندگی میں وہی چند سو لوگ ہوتے ہیں۔ ایون آنلائن ورلڈ میں بھی۔ ہزاروں ویبسائٹس ہیں، کروڑوں یوزرز ہیں۔ بہت سے ایسے ہیں، جو کبھی آپ کے سامنے آ جائیں تو آپ حیران ہو جائیں، کہ یہ اب تک کہاں تھے۔ لیکن آنلائن ورلڈ میں بھی محض چند لوگ، چند گروپس، چند ویبسائٹس ہوتی ہیں، جو آپ کے سامنے آتی ہیں۔ ہزاروں گروپس ہیں جو سامنے آ جائیں تو آپ خوشی کے مارے اچھل پڑیں، لیکن وہ آپ سے اوجھل ہیں، وہ آپ کے لئے نہیں ہیں۔ اسے انٹرنیٹ کی دنیا کہتے ہیں۔ چیزیں اور انسان کس نوعیت کی بنا پر کونیکٹ ہوتے ہیں، ہمیں ابھی یہ چیز ڈسکور کرنی ہے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہماری زندگیوں کو کمپیٹیبل لوگوں اور چیزوں سے مزین فرمائے، آمین۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ


کاش کوئی مقروضوں کی نفسیات کا بھی

 

”کاش کوئی مقروضوں کی نفسیات کا بھی ذکر کرے، کہ وہ ایسا کیوں کرتے ہیں، وہ قرض لے کر ناران کاغان کیوں جاتے ہیں، وہ عقیقے سالگرہیں کرتے ہیں، لیکن پیسے کیوں نہیں لوٹاتے۔ میں اکثر کہتا ہوں، پیسوں کی تنگی کی اذیت جو سفید پوش برداشت کرتے ہیں، وہ شائد ہی کوئی کرتا ہو۔ ہم سمجھتے ہیں قرض لینے کا حق صرف اسے ہے، جس کے گھر میں تین دن کا فاقہ ہو، جس کے پاس ایک جوڑا کپڑے اور دو برتن ہوں، جو کرائے کے مکان میں رہتا ہو، نہ فریج ہو، نہ واشنگ مشین، نہ موٹر سائیکل، وغیرہ۔ ہم سمجھتے ہیں قرض صرف ایسے ہی شخص کو دینا چاہئے، جو اگلے لمحے مرنے والا ہو۔ میں کہتا ہوں کوئی اپنے بیوی بچوں کے چہروں پر خوشی دیکھنے کے لئے بھی قرض لے کر سالگرہ کر لیتا ہے، عقیقہ کر لیتا ہے، ناران کاغان ہو آتا ہے۔ وہ ایک نارمل زندگی گزار رہا ہوتا ہے۔ جاب ہوتی ہے، گھر ہوتا ہے، فیملی ہوتی ہے۔ بس کچھ عرصے سے تنخواہ نہیں بڑھی ہوتی، چالیس چالیس دن بعد تیس تیس دن کی تنخواہ مل رہی ہوتی ہے۔ وہ سمجھتا ہے، شائد کچھ عرصے تک سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ اسے یہ پتہ ہی نہیں ہوتا، کہ جن لوگوں کے سامنے وہ ہنس ہنس کر اپنی عزت نفس بچانے کی کوشش کر رہا ہے، اور جو لوگ اس سے پیسوں کا تقاضہ کر رہے ہیں، وہ سمجھ رہے ہیں، وہ بے حس ہے، بے شرم ہے، جو مقروض ہونے کے باوجود مسکرا رہا ہے، اترا رہا ہے۔ انہیں یہ پتہ نہیں ہوتا، کہ وہ ایک ایسے دوراہے پر کھڑا ہے، جہاں وہ اپنی عزت نفس بچا لے، اور بیوی بچوں کو چھوڑ کر بھاگ جائے۔ کوئی یہ یقین کرنے کو تیار نہیں ہوتا، کہ اس کی محبت اور وفاداری، یا بیوی کی ہٹ دھرمی اور ضد، یا اس کی نرم دلی، اور بیوی بچوں کی خود غرضی، اسے یہ سب جینے پر مجبور کر رہی ہے۔ میرے خیال میں چند چور اچکوں کے علاوہ، کوئی کسی سے مانگنا نہیں چاہتا۔ بندہ جواری نہ ہو، شرابی نہ ہو، اور کوئی نہ کوئی کام دھندہ بھی کر رہا ہو، لیکن پھر بھی مانگ رہا ہو، تو سمجھ لیں اس کی بیوی اس کے بس میں نہیں ہے۔ 

ایسی پوسٹ پڑھ کر ہر وہ شخص اپنے بیوی بچوں پر سختی کر سکتا ہے، انہیں چھوڑ سکتا ہے، انہیں مار پیٹ سکتا ہے، اپنے باس سے لڑ سکتا ہے، نوکری چھوڑ سکتا ہے، چوری چکاری کر سکتا ہے، جو یہ سب کچھ اپنی خوشی کے لئے نہیں، اپنے بیوی بچوں کی خوشی کے لئے کر رہا ہے“۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں عام طور پر کومنٹ نہیں کرتا لیکن یہ اوپر والا کومنٹ میں نے ایک پوسٹ پر کیا ہے، جس کا مفہوم تھا، کہ لوگ اپنا قرض نہیں لوٹاتے، لیکن سیر سپاٹے اور ہلے گلے پر نکل جاتے ہیں ۔ 

چند ایک کو چھوڑ کر، اکثر مقروض بے بس ہوتے ہیں۔ ان میں چیزوں کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ حالات ان کی مرضی کے مطابق نہیں ہوتے۔ ہر آنے والا دن ان کی سختی میں اضافہ کرتا جاتا ہے۔ ان کے خرچے ہر صورت میں ان کی آمدنی سے زیادہ ہوتے جاتے ہیں، چاہے ان کی آمدنی دو کروڑ ہو جائے۔ ان کے رشتہ دار، ان کی ضرورتیں، ان کی آفتیں، ان کی مرضی کے مطابق نہیں ہوتیں۔ ان کے بیوی بچے ان کے کہنے میں نہیں ہوتے۔ 

انسان نرم دل ہو، اور اسے اپنی عزت نفس سے زیادہ اپنے بچوں کی خوشی عزیز ہو، تو وہ قرض ضرور لے گا۔ وہ اپنی بیوی کے چہرے پر کچھ لمحوں کی خوشی دیکھنے کے لئے چوری چھپے قرض کا تحفہ ضرور لائے گا۔ اس کا خیال ہوتا ہے، کہ حالات بس ایک دو مہینے، دو چار مہینے، ایک دو سال کے لئے ہی خراب ہوتے ہیں، پھر ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ وہ سمجھتا ہے کبھی اسے ضرورت سے زیادہ پیسے ملیں گے، تو وہ سب قرض لوٹا دے گا۔ لیکن ایسا کبھی نہیں ہوتا۔ بیس پچیس تیس سال گزر جاتے ہیں۔ سخت دل، ظالم، ضدی، انا پرست قسم کے لوگ شائد ٹھیک رہتے ہیں۔ لیکن نرم دل۔ نرم دلی انسان کو بہت بری طرح مرواتی ہے۔ ایمانداری، وفاداری، سچ، نرم دلی وغیرہ کے امتحان ختم ہونے میں ہی نہیں آتے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے، میں نے ساری زندگی ان دو ہاتھوں کا مطالعہ کیا ہے۔ میں کہتا ہوں اس موضوع پر کوئی غیبی ڈاکٹرائن لکھنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ذہن میں جو لینے والے کا امیج بٹھایا ہوا ہے، وہ بدلنے کی ضرورت ہے۔ لینے والے اور ضرورتمند کی نفسیات سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔ 

میں یہ نہیں کہتا کہ دینے والے نہیں ہیں، بہت ہیں، ہماری توقع سے بھی زیادہ ہیں، اور بہت اچھے ہیں، بہت نیک دل ہیں، لیکن بیچارے کسی ایسے امیج میں پھنسے ہوئے ہیں، کہ اس سے نکل نہیں پا رہے۔ ان کا خیال ہے کہ ایسے ایسے لوگوں کو دینا چاہئے۔ یہ جو ان کو مستحقین کی شکل دکھا دی گئی ہے، کہ وہ ایسے ہوتے ہیں، اس شکل کو بدلنے کی ضرورت ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہماری نیتوں اور ارادوں کو نیک بنائے، آمین۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ

 




زندگی کی خوبصورتی یہی ہے

 

زندگی کی خوبصورتی یہی ہے کہ بندہ کسی صاحب نظر، کسی ولی کے پاس بیٹھنے لگے۔ زندگی کی خوشی بھی یہی ہے۔ اس سے بڑھ کر نہ کوئی خوشی ہے نہ خوبصورتی۔ میں نے جو وقت والد صاحبؒ کے ساتھ گزارا، اور جو وقت ڈاکٹر صاحبؒ کے ساتھ گزارا، اور جو ڈاکٹر صاحبؒ کے کہنے پر دوسرے اللہ والوں کی زیارت میں گزارا، بس وہی وقت زندگی محسوس ہوتا ہے۔ باقی تو بس ایسے ہی ہے۔ اگر زندگی ان اللہ والوں سے خالی ہوتی تو کتنی ویران ہوتی۔ باقی تو کچھ نہیں ہے۔ آج بھی اسی تصور میں گھومنا پھرنا اچھا لگتا ہے۔

یونہی حسن کو چھوڑنے بس سٹاپ تک گیا تو دل کیا ڈاکٹر صاحبؒ کی قبر پر ہو آؤں۔ کافی قریب بھی پہنچ گیا، لیکن پھر واپس آ گیا۔ 

ڈاکٹر صاحبؒ کی صحبت میں جو محسوس ہوتا تھا، وہ اگرچہ اب نہیں رہا، لیکن اس دل میں کہیں یاد تو ہے نا اس کی۔ کبھی ڈاکٹر صاحبؒ کی صحبت کا نور، کبھی ان کے قرب کی خوشبو تو بسی ہی تھی نا اس دل میں۔ 

کبھی کبھی سوچتا ہوں بہت کچھ کھویا ہے میں نے۔ وہ خوشبو جو انیس سو اٹھاسی انانوے میں محسوس ہوا کرتی تھی ڈاکٹر صاحبؒ سے، اگر میں زندگی کے دوسرے تجربات میں نہ پڑتا، اسی خوشبو پر اکتفا کرتا، تو میرے اپنے وجود کا کیا عالم ہوتا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہمارے دل و دماغ کو صحبت اولیاء نصیب فرمائے، آمین۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ


مجھے اور کوئی مذہب نظر نہیں آتا

 

مجھے اور کوئی مذہب نظر نہیں آتا جس نے جسم کی صفائی ستھرائی، یا نفاست اور شائستگی پر اتنی توجہ دی ہو جتنی اسلام نے دی ہے۔ 

ایمان حضور پاک ﷺ  کے نور کی ایک کرن ہے، جو توجہ دینے سے ترقی کرتا ہے۔ بندہ اپنے آپ حضور پاک ﷺ  کی جسمانی سنتوں کو اپنانے لگتا ہے، ان کے حلیہ مبارک میں ڈھلنا شروع ہو جاتا ہے۔ 

اگر آپ کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے، کہ آپ پاک صاف رہیں، آپ کے جسم پر کوئی نجاست نہ ہو، آپ غسل سے ہوں، آپ کے کپڑے پاک صاف ہوں، کوئی میل تک نہ ہو ان پر، اور آپ وضو سے ہوں، اور آپ نے داڑھی شرعی ترشوائی ہو، بال برابر کٹوائے ہوں، اور ناخن تراشے ہوں، اور دانت باقاعدہ صاف کیے ہوں، اور آپ کی خواہش ہو آپ سفید لباس پہنیں، اور خوشبو لگائیں، اور سرمہ لگائیں، اور سر پر ٹوپی یا عمامہ پہنیں، تو آپ اسلامی روحانیت میں داخل ہو چکے ہیں۔ 

اور اگر آپ یہ سب کر بھی لیں تو ہو سکتا ہے کسی مقام پر بھی براجمان ہوں۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے ایمان پر توجہ دینے کی خوش قسمتی عطا فرمائے، آمین۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ


بس بندے کو


 بس بندے کو 

پاکی پلیدی سے، 

حلال حرام سے، 

جائز ناجائز سے، 

سچ جھوٹ سے، 

منزہ مکروہ سے، 

حیا فحاشی سے، 

ممیز کرنی آ جائے، یعنی ان سب کو علیحدہ علیحدہ کرنا آ جائے، ان میں فرق کرنا آ جائے، ان کی پہچان آ جائے، 

اور بندے کے دل و دماغ میں اول الذکر کی خواہش اور موخر الذکر سے گریز پیدا ہو جائے، تو بندہ سمجھ لے وہ روحانیت میں داخل ہو چکا ہے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہمارے دل و دماغ کو روحانیت کی خواہش اور پہچان عطا فرمائے، آمین۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ


بات روحانی لوگوں کی کر رہا ہوں

 

بات روحانی لوگوں کی کر رہا ہوں۔ 

تین ذہنی حالتیں بندے کے لئے بڑی نقصان دہ ثابت ہوتی ہیں۔ 

ایک چلتے پھرتے کھانا پینا۔ مونگ پھلی، گنڈیریاں، پان تمباکو وغیرہ۔ برگر، جوس، وغیرہ بھی۔ 

دوسری قمیص اتار کر باہر آنا۔ گھر سے باہر آنا تو نقصان دہ ہے ہی ہے، کچھ لوگوں کے لئے گھر میں رہ کر بھی قمیص اتارنا نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ چاہے تہبند، یا شلوار، یا لانگ شارٹ وغیرہ پہنا ہی ہو۔ 

تیسری بات بے بات ہنسنا، مذاق کرنا، ہاتھ پر ہاتھ مارنا، لطیفے سنانا، غیر سنجیدہ حالت میں رہنا۔ متبسم رہنا اور بات ہے۔ غیر سنجیدہ یا عامیانہ پن نہیں ہونا چاہئے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ ذہنی حالتیں بندے کو غیر مستقل مزاج یا استقامت سے محروم بنا دیتی ہیں۔ بندہ اللہ تعالیٰ سے دور اور شیطان کے قریب ہو جاتا ہے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہمیں ہر طرح کی بدبختی سے محفوظ فرمائے، آمین۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ


صراط مستقیم یعنی استقامت والا راستہ

 

صراط مستقیم، یعنی استقامت والا راستہ، یعنی جس پر کھڑے ہونے کی ضرورت ہے وہ راستہ۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جب راستے کا ذکر ہوتا ہے تو سفر کا تصور لازمی ہے۔ جب سفر کا تصور آتا ہے، تو ایک مقام سے دوسرے مقام کا تصور لازمی ہے۔ مقامات کی شکل و صورت، اور حالت کا تصور لازمی ہے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ کے راستے پر سفر، جسمانی بھی ہے، دماغی بھی، اور روحانی بھی۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

منفی ذہنیت سے مثبت ذہنیت کی طرف سفر

گندگی سے پاکیزگی کی طرف سفر 

بری جگہوں سے اچھی جگہوں کی طرف سفر 

تکلیف سے خوشی کی طرف سفر

مشکلوں سے آسانیوں کی طرف سفر

اندھیروں سے اجالوں کی طرف سفر

شکوک و شبہات سے یقین کی طرف سفر

غفلت سے ہوشیاری کی طرف سفر

نفرت سے محبت کی طرف سفر

خطرے سے حفاظت کی طرف سفر

دنیا سے آخرت کی طرف سفر

اختیار سے بے اختیاری کی طرف سفر

اللہ تعالیٰ کے لئے غیر متوجہ زندگی سے اللہ تعالیٰ کے لئے متوجہ زندگی کی طرف سفر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہمارے دل و دماغ کو صراط مستقیم پر سفر کا احساس عنایت فرمائے، آمین۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ


صحیح البخاری ، کتاب الرقاق


صحیح البخاری

کِتَاب الرِّقَاقِ

کتاب: دل کو نرم کرنے والی باتوں کے بیان میں 

اڑتیس: بَابُ التَّوَاضُعِ

اڑتیس: عاجزی کرنے کے بیان میں۔

حدیث نمبر چھ ہزار پانچ سو دو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(حدیث  قدسی) حدثنی محمد بن عثمان بن کرامۃ، حدثنا خالد بن مخلد، حدثنا سلیمان بن بلال، حدثنی شریک بن عبد اللہ بن ابی نمر، عن عطاء، عن ابی ہریرۃ، قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم إن اللہ قال: ”من عادی لی ولیا فقد آذنتہ بالحرب، وما تقرب إلی عبدی بشیء احب إلی مما افترضت علیہ، وما یزال عبدی یتقرب إلی بالنوافل حتی احبہ، فإذا احببتہ کنت سمعہ الذی یسمع بہ، وبصرہ الذی یبصر بہ، ویدہ التی یبطش بہا، ورجلہ التی یمشی بہا، وإن سالنی لاعطینہ، ولئن استعاذنی لاعیذنہ، وما ترددت عن شیء انا فاعلہ ترددی عن نفس المؤمن یکرہ الموت، وانا اکرہ مسائتہ“۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(ترجمہ)

مجھ سے محمد بن عثمان نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد بن مخلد نے، کہا ہم سے سلیمان بن بلال نے، ان سے شریک بن عبداللہ بن ابی نمر نے، ان سے عطاء نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس نے میرے کسی ولی سے دشمنی کی اسے میری طرف سے اعلان جنگ ہے اور میرا بندہ جن جن عبادتوں سے میرا قرب حاصل کرتا ہے اور کوئی عبادت مجھ کو اس سے زیادہ پسند نہیں ہے جو میں نے اس پر فرض کی ہے (یعنی فرائض مجھ کو بہت پسند ہیں جیسے نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ) اور میرا بندہ فرض ادا کرنے کے بعد نفل عبادتیں کر کے مجھ سے اتنا نزدیک ہو جاتا ہے کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں۔ پھر جب میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اسے دیتا ہوں اگر وہ کسی دشمن یا شیطان سے میری پناہ مانگتا ہے تو میں اسے محفوظ رکھتا ہوں اور میں جو کام کرنا چاہتا ہوں اس میں مجھے اتنا تردد نہیں ہوتا جتنا کہ مجھے اپنے مومن بندے کی جان نکالنے میں ہوتا ہے۔ وہ تو موت کو بوجہ تکلیف جسمانی کے پسند نہیں کرتا اور مجھ کو بھی اسے تکلیف دینا برا لگتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس حدیث پاک سے مجھے جو معلوم ہوا:

۱۔ اللہ کا ولی ہوتا ہے۔

۲۔ اللہ تعالیٰ اپنے ولی کے دشمن کو اپنا دشمن شمار کرتا ہے۔ بین السطور ہم کہہ سکتے ہیں، کہ اپنے ولی کے دوست کو اپنا دوست شمار کرتا ہے۔ 

۳۔ اللہ تعالیٰ کا قرب کوئی شے ہے، اور حاصل بھی ہوتا ہے۔

۴۔ فرائض کی ادائیگی نوافل کی رغبت پیدا کرتی ہے۔

۵۔ اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کی محبت کوئی وجود ہے، کوئی شے ہے۔ 

۶۔ جب اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے تو بندہ بدل جاتا ہے۔ اس کے کان، آنکھ، ہاتھ، پاؤں، بس وہی کرتے ہیں، جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہوتا ہے۔ 

یعنی تبدیلی ناگزیر ہے۔ 

۷۔ اللہ کا بندہ اللہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف کچھ نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ کے بندے کی مرضی ختم ہو جاتی ہے۔ یعنی بندے کی اپنی مرضی ختم ہو سکتی ہے۔ 

۸۔ اللہ تعالیٰ کی قربت، نفس کی ترغیب ختم کر دیتی ہے۔ 

۹۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی دعا قبول فرماتا ہے۔ اس کا بندہ جو مانگتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے دیتا ہے۔ یعنی اللہ کے ولی کی دعا قبول ہوتی ہے۔ 

۰۱۔ اللہ کا بندہ اگر کسی دشمن یا شیطان سے پناہ مانگتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اسے اپنی پناہ عطا فرماتا ہے۔ اللہ کا ولی شیطان سے محفوظ ہوتا ہے۔ 

۱۱۔ اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندے، اپنے ولی کی جان نکالنے میں تردد فرماتا ہے۔ اسے اچھا نہیں لگتا وہ اسے مارے۔ وہ اسے موت کی تکلیف نہیں دینا چاہتا۔

۲۱۔ جب اللہ کے بندے، اللہ کے ولی کی مرضی ہی ختم ہو گئی، اسے شیطان سے پناہ بھی مل گئی، تو باقی کیا رہ گیا۔ اب اللہ کا ولی جو کر رہا ہے وہ اللہ کی مرضی سے ہی کر رہا ہے۔ وہ ایسا کوئی کام کر ہی نہیں رہا جو اللہ کی مرضی کے خلاف ہو۔  

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ یہ معاملہ کسی نہ کسی کے ساتھ ضرور فرماتا ہے۔ ایسے لوگ کتنے ہیں، اس بات کا تو علم نہیں، لیکن یہ کہ ایسے لوگ موجود ہیں، یہ حقیقت ہے۔ کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی اللہ کا بندہ موجود ہو گا، اور عام لوگ اس کے پاس جاتے ہوں گے۔ اس کی قربت میں بیٹھتے ہوں گے۔ اس سے دعا کی درخواست کرتے ہوں گے، اور وہ دعا کرتا ہو گا، اور اللہ تعالیٰ اپنے اس ولی کی دعا قبول فرماتا ہو گا۔ ظاہر ہے اللہ کا ولی وہی دعا کرتا ہو گا، جو اللہ چاہتا ہو گا کہ قبول فرما لے۔ اللہ تعالیٰ اپنے ولی کو اپنی پناہ میں رکھتا ہے۔ 

اگر اللہ تعالیٰ کسی کو اپنا ولی بناتا ہو گا، تو اپنے عام لوگوں کی خدمت کے لئے ہی بناتا ہو گا، کہ عام لوگ اس کے پاس بیٹھ کر تزکیہ کریں۔ اگر کوئی دنیا کی کسی ضرورت کے تحت اللہ کے ولی کے پاس آتا ہے، تو کچھ نہ کچھ تزکیہ تو ہو ہی جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے وہی تزکیہ بڑھ کر ایمان بن جاتا ہو، اور ایک دن وہ اللہ کے راستے پر آ جاتا ہو۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیا اللہ تعالیٰ کا ولی مرنے کے بعد مٹی ہو جاتا ہے، کیا وہ بندہ وہ ولی جسے اللہ تعالیٰ نے شیطان سے پناہ دے رکھی ہو، جس کی دعائیں قبول فرماتا ہو، جس کے اعضاء و جوارح اللہ تعالیٰ کی مرضی سے کام کرتے ہوں، کیا موت آنے سے اس کی یہ نعمتیں چھن جاتی ہیں،  اس کا یہ مقام منقطع ہو جاتا ہے۔ کیا اللہ تعالیٰ اپنے ولی سے اس کی موت کے بعد بھی وہ کام نہیں لیتا، جو اس کی زندگی میں لیتا ہے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہمارے دل و دماغ کو صحیح صحیح سمجھ عطا فرمائے، آمین۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ




مجھے اٹینڈنٹ بن کر اپنے بھائی کے ساتھ

 

مجھے اٹینڈٖنٹ بن کر اپنے بھائی کے ساتھ ہسپتال رہنا تھا، اور حسن نے اپنی ڈیوٹی پر جانا تھا ہسپتال۔ میری بیوی نے اسے میرے ساتھ جوڑا کہ میں اسے اس کے ہسپتال چھوڑ کر آگے اپنے بھائی کے پاس چلا جاؤں۔ ہم دونوں گھڑی شاہو سے دھرم پورہ جا رہے تھے، اور شائد دونوں کسی موضوع کا سوچ رہے تھے، کہ بات بھی ہو جائے، اور راستہ بھی کٹ جائے۔ 

ؔ”اور پھر بھیا کوئی بات ہی سناؤ یار“ میں نے سٹارٹ لیا۔ 

”بس وہی سپرچؤل اویکننگ کا سوچ رہا ہوں، کہ یہ کیا ہوتی ہے“ حسن نے کچھ دن پہلے کا سوال دہرایا۔ 

”یار میں آپ کو ایک بات بتاتا ہوں۔ توجہ سے سننا“۔

”جی۔“

حسن نے میرے پیچھے بیٹھے بیٹھے کان میرے کاندھے کے قریب کر لئے۔ 

”بھائی، اپنے ارد گرد کی عورتوں کا احترام کرو، زیادہ سے زیادہ۔ انہیں غلط نظر سے نہ دیکھو، اور ان سے آئی کونٹیکٹ نہ کرو۔ اگر کوئی سوچ آئے تو اپنے دماغ کو جھٹک دو۔ ان کے بارے میں کوئی تصور نہ پیدا ہونے دو۔ آپ میری بات سمجھ رہے ہو؟“ میں نے حسن کو متوجہ کیا۔

”سمجھ رہا ہوں“۔

”اپنی نظر اور اپنی سوچ صاف رکھو، چاہے کچھ بھی ہو جائے“ میں نے اپنی بات جاری رکھی۔ 

”بھائی سپرچؤل اویکننگ کے اور بھی راستے ہوں گے، لیکن یہ بہت خوبصورت راستہ ہے۔  آپ کا رویہ نرم رہے گا، آپ کا لہجہ شائستہ رہے گا، اور آپ غصے پر قابو پا لو گے۔ آپ کی زندگی میں اچھی چیزیں آنے لگیں گی۔ آپ کا کردار خوبصورت ہو جائے گا، اور آپ کے دل و دماغ میں سکون ہی سکون ہو گا۔ آپ کو کسی سے حسد، نفرت لالچ، انتقام وغیرہ کے جذبات محسوس نہیں ہو گے۔ 

بھائی ایک اعلیٰ اور بلند کردار کی جتنی بھی خصوصیات ہیں، آپ کے اندر در آئیں گی، آپ اسوہئ حسنہ کے قریب ہو جاؤ گے۔ آپ کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت اور قرب پیدا ہو گا۔ اور اللہ تعالیٰ آپ پر پوزیٹو انڈرسٹینڈنگ کے دروازے کھولے گا“۔

ٹریفک کے شور، اور ڈرائیونگ کی احتیاط میں میں کچھ جملے بار بار دہرا رہا تھا۔ میں بار بار پوچھ رہا تھا، آپ میری بات سن رہے ہو، آپ میری بات سمجھ رہے ہو۔ حسن ’سن رہا ہوں‘، ’سمجھ رہا ہوں‘ جیسے چھوٹے چھوٹے جواب دے رہا تھا، اور ہم انتہائی سلو سپیڈ پر پہلا اور دوسرا پل کراس کر چکے تھے۔ 

”بھائی اگر کوئی ایسا نہیں کرتا، تو نفرت، حسد، انتقام، لالچ کے راستے پر چل پڑتا ہے۔ اور اکثر اوقات واپسی ممکن نہیں رہتی۔ زندگی میں نیگیٹوٹی آ جاتی ہے، اور مایوسی، ڈپریشن، اینگزائٹی جیسی مصیبتیں بھی نازل ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ سکون ختم ہو جاتا ہے۔  اور انسان کسی عبادت میں انہماک محسوس نہیں کرتا۔ اکتاہٹ اور منتشر خیالی مستقل ساتھ رہنے لگتے ہیں“۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بھائی خواتین کا احترام، چاہے گھر ہو یا باہر، مسلم ہوں یا غیرمسلم، ایک بہت بڑی حقیقت ہے۔ میرے خیال میں تو کوئی ایکسکیوز کام نہیں آتا۔ اگر آپ کو نیکی، اور آخرت، اور اللہ تعالیٰ کی محبت کے راستے پر چلنا ہے، تو یہ ناگزیر ہے۔ لازمی ہے۔ کمپلسری۔ ورنہ بھائی، انہ کان فاحشۃ و مقتا و ساء سبیلا، یہ بہت ہی بے حیائی والا، اللہ تعالیٰ کے غضب کو آواز دینے والا، برا راستہ ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حسن کا سٹاپ آ چکا تھا، اور میں اپنی بات بھی مکمل کر چکا تھا کسی حد تک۔ میں نے حسن کو اتارا اور اپنے راستے پر ہو لیا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہمارے دل و دماغ کو نیکی کی رغبت نصیب فرمائے، آمین۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ


جب بندے کے پاس نماز کے علاوہ

 

جب بندے کے پاس نماز کے علاوہ کچھ نہ بچا ہو۔ کوئی ورد، کوئی وظیفہ، کوئی حفظ، کوئی تلاوت، کچھ نہ بچا ہو۔ بس نماز ہو۔ سادہ سی نماز، الحمد اور قل ہو اللہ والی۔ دس پندرہ منٹ، پندرہ بیس منٹ والی۔ کبھی سب کچھ ہو، اور کبھی کچھ نہ بچا ہو۔ وہ ایک ایک ڈیڑھ ڈیڑھ گھنٹے والی نماز، حفظ اور تلاوتوں والی نماز بس یاد بن کر رہ گئی ہو۔ وہ دیکھے سب کچھ واپس ہو گیا ہے۔ بس نماز ہے ایک اس کے پاس۔ 

”بس اب اسی پر گزارہ کرو“ کوئی اسے اندر سے آواز دیتا ہو۔ 

”بس صبح ایک پارہ فجر کی تلاوت، اور پانچ نمازیں۔ سادہ سادہ سی نمازیں“۔

اسے یہ سب کچھ ناکافی محسوس ہوتا ہو۔ 

اسے لگے وہ عنایات کے بعد محروم کر دیا گیا ہے۔ 

وہ کچھ دن اسی حالت پر رہے۔ اور پھر اسے محسوس ہو وہ ایک بہت بڑے کمرے میں اکیلا بیٹھا ہے۔ بس ایک بستر ہے، اور ایک کرسی میز۔ دور دور کھڑکیاں اور روشندان ہیں۔ ایک بڑا سا دروازہ ہے۔ سارا دن ہوا سے اڑتے پردے ہیں، اور چمکدار فرش۔ 

وہ نماز میں کھڑا ہوتا ہو، اور اسے خیال آتا ہو، بس اب یہی سب کچھ ہے۔ بس اب اسی نماز سے امید لگاؤ۔ بھول جاؤ لمبی لمبی تلاوتوں والی نماز کو۔ 

اسے یہ یاد کر کے دکھ ہو کہ وہ حفظ بھول رہا ہے۔ 

اسے محسوس ہو وہ وقت گزر چکا ہے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بندہ پچھتائے، اور پھر ایک دن مجبور ہو کر دوبارہ وہی ایک ڈیڑھ گھنٹے والی نماز پڑھے، لمبی لمبی تلاوت والی۔ لیکن نماز کے بعد اس کے دل پر بوجھ سا بڑھ جائے۔ اسے لگے وہ سادہ سی نماز والی تازگی نہیں ملی۔ وہ جو حفظ دہرانے کا ارادہ کیا تھا، وہ بوجھ بن گیا ہے۔ 

تب اسے محسوس ہو وہ آگے آ چکا ہے۔ وہ اس سب سے گزر آیا ہے۔ 

و وضعنا عنک وزرک الذی انقض ظہرک۔ 

وہ کسی نئی حالت میں داخل ہو چکا ہے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بعض دفعہ بندے کی بہت سی عبادتیں، کسی ایک عبادت میں کونسولیڈیٹ کر دی جاتی ہیں۔ بس اب یہ سادہ سی نماز ہی سب کچھ تھی۔ بس اب اسی کا ہو کر رہنا ہے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کو نمازوں کی محبت عطا فرمائے، آمین۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ



جب بندہ اللہ سے راضی ہو جائے


 جب بندہ اللہ سے راضی ہو جائے، تو اس کی کوئی خواہش نہیں رہتی، کوئی ترجیح نہیں رہتی۔ وہ ہر حال میں راضی ہوتا ہے۔ وہ کہیں آنا جانا نہیں چاہتا۔ نہ ایک جگہ سے دوسری جگہ، نہ ایک حالت سے دوسری حالت۔ اس کے لئے سب برابر ہو جاتا ہے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کہیں کوئی ایک لمحہ آتا ہے، ایک جھونکے کے جیسا لمحہ، اور بندے کو لگتا ہے وہ کوئی اور ہے۔ 

میں نماز میں کھڑا ہوں اور سوچتا ہوں، میں اپنی بہترین حالت میں ہوں۔ نماز میں ہونے سے بہتر اور کون سی حالت ہو گی بھلا۔ مجھے خیال آتا ہے، میں اس ہستی کے سامنے کھڑا ہوں، جو اس ساری کائنات کا مالک اور رازق ہے۔ میں سوچتا ہوں یہ کائنات کتنی بڑی ہے، ہمارے تخیل سے بھی بڑی۔ 

میں سوچتا ہوں میں اس رب کے سامنے کھڑا ہوں، اس حی و قیوم کے سامنے کھڑا ہوں۔ اس زندگی میں اس حالت سے بہتر اور کون سی حالت ہو گی بھلا۔ 

میں سجدے سے قیام میں کھڑا ہوتا ہوں، اور قیام سے سجدے میں چلے جاتا ہوں۔ مجھے محسوس ہوتا ہے قیام بھی کوئی کم خوبصورت حالت نہیں ہے۔ مجھے لگتا ہے سجدے سے قیام میں کھڑے ہونے کا لمحہ بہت خوبصورت لمحہ ہے۔ 

مجھے لگتا ہے نماز بندے کی تمام نیکیوں کا مجموعہ ہے۔ بندے نے جو جو بھی نیک کام کیے ہوتے ہیں، وہ نماز میں شامل ہو جاتے ہیں۔ بندے کے تمام نیک کام مل کر نماز بن جاتے ہیں۔ 

میں سوچتا ہوں میں بہترین حالت میں ہوں۔ اس سے بہتر اور کیا ہو سکتا ہے بھلا۔ جب بندہ اللہ سے راضی ہو جائے ، تو کیسی خواہش اور کیسی ترجیح ۔ کیسا مقام اور کیسا مرتبہ ۔ کیسی کوشش ۔  

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہمارے دل و دماغ کو نماز کی محبت عطا فرمائے، آمین۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ


حسن کو کوئی بونس ملا تھا


حسن کو کوئی بونس ملا تھا، اور اس نے نیت کر رکھی تھی کہ بونس کے پیسوں میں سے غنیۃ الطالبین لائے گا۔ غنیۃ الطالبین حسن کے دادا جان کی فیورٹ کتاب تھی، اور وہ حضور غوث الاعظمؓ کا ذکر کرتے ہوئے، غنیۃ الطالبین کا تذکرہ ضرور کیا کرتے تھے۔ 

ہم حضور غوث الاعظمؓ کی اولاد میں سے ہیں۔ شائد ہم ان کے بارے میں اس طرح فیل نہیں کرتے جس طرح دوسرے لوگ فیل کرتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بہرحال ہم اردو بازار پہنچے، فرید بک سٹال پر پہنچے، اور غنیۃ الطالبین کی ڈیمانڈ کر دی۔ مجھے تو دور سے دیکھ کر ہی محسوس ہو گیا، کہ یہ ہماری کتاب ہے۔ میں نے حسن کو پہلے دیکھنے دی، اس نے ”ٹھیک ہے“ کہا، تو میں بھی دیکھنے لگا۔ ایک ہی جلد میں تھی۔ بہت اچھی جلد تھی، بلیو کلر کی۔ بڑا خوشگوار سا رنگ تھا۔ ہاتھ کی کتابت تھی۔ اردو عربی، بہت خوبصورت لکھی ہوئی تھی۔ 

میں اب ان کتابوں سے نکل چکا ہوں، لیکن میرا دل بہت کیا اسے پڑھنے کو۔ حسن کی عمر میں میں بھی بہت پڑھا کرتا تھا۔ مجھے زیادہ تر تو والد صاحبؒ کی کتابوں میں ہی مل جاتی تھیں۔ کبھی کبھی میں خرید بھی لاتا تھا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

”انسان کو کسی نیک انسان کی کمپنی مل جائے، کسی بزرگ کا ساتھ مل جائے، بہت بڑی خوش قسمتی ہے اس کی“ میں نے دکان سے باہر آ کر کہا۔ ”یہ کتابیں بھی کسی بزرگ سے کم نہیں ہوتیں“ میں کہنا چاہتا تھا، لیکن مجھے یاد آیا میں نے دعا کو سو درود شریف کی کتاب گفٹ کرنے کا وعدہ کر رکھا ہے۔ 

میں نے دو تین سال پہلے دعا کو کہا تھا، کہ میں اسے عالم فقری صاحبؒ کا مرتب کردہ سو درود شریف کا مجموعہ گفٹ کروں گا۔ بہرحال، پتہ نہیں کیسے، یہ گفٹ التوا کا شکار ہوتا گیا، اور آج اچانک سے یاد آ گیا۔ خوش قسمتی سے پیسے بھی تھے۔

ہمیں آگے پیچھے ڈھونڈ کر، آخر کار شبیر برادرز کی دکان نظر آ گئی۔ وہاں سے عالم فقری صاحبؒ کے صاحبزادے کی دکان مل گئی، اور ہم سو درود شریف کا مجموعہ خرید کا شاداں و فرحان باہر نکل آئے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کل شائد ہمارا کتابوں کا دن تھا۔ حسن کہتا ہے، سارا نے سلویا پلاتھ کی کتاب منگوائی ہے کوئی۔ ہمیں لکیلی ریڈنگز کا سٹال نظر آ گیا۔ ہم نے سلویا پلاتھ کی کتابیں پتہ کیں، اور ”ایریل“ لے لی۔ میں نے تیس پینتیس سال پہلے سلویا پلاتھ پڑھی تھی۔ اس کی بائیوگرافی، اور دوسری کتابیں بھی پڑھی تھیں۔ اچھی لگی تھی۔ ایملی ڈکنسن اور سلویا پلاتھ۔ بعد میں اردو بازار کے دنوں میں میں نے کریٹیکل سٹڈی بھی لکھی تھی سلویا پلاتھ پر۔ مجھے یہ سب کچھ یاد کر کے بہت اچھا لگا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں نے اپنے لئے شاہ حسینؒ کی کافیوں والی کتاب ڈھونڈنے کی کوشش کی، لیکن نہ مل سکی۔ پنجابی ادبی بورڈ کی چھپی ہوئی۔ میں اونلائن پڑھ لیتا ہوں، لیکن میرا دل کرتا ہے، پیپر فارم میں بھی ہو میرے پاس۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خیر ہم اردو بازار سے انارکلی اور انارکلی سے نیلا گنبد نکل آئے۔ حسن نے ٹراؤزر ٹی شرٹ بھی لینی تھی۔ اور میرا خیال تھا مجھے ریڑھی سے سفید شرٹ مل جائے تو اچھا ہے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

واپسی پر مال سے گزرتے ہوئے، میں اور حسن ایک طویل ڈسکشن میں چلے گئے۔ مزارات پر حاضری ہمارا موضوع تھا۔ 

”ہم کیسے کہہ دیں، کوئی انسان جو زندگی بھر عبادت کرتا رہا، قرآن پڑھتا رہا، نماز پڑھتا رہا، نیک اعمال کرتا رہا، ہم کیسے کہہ دیں، کہ ان سب کا اس کے ایموشنل سسٹم پر، اس کے جذبات اور خیالات پر اثر نہیں ہوا ہو گا۔ ہم کیسے کہہ دیں، کہ مرنے کے بعد اس زمین پر اثر نہیں ہوا ہو گا، جہاں وہ دفن ہے۔ 

”بات یہ ہے کہ حضور ﷺ  کی آل اطہار کا وجود کس لئے تھا، کس لئے ہے۔ اگر اس وقت نہیں پتہ لگتا تھا، تو آج تو پتہ لگ سکتا ہے۔ یہ غوث اعظمؓ، یہ داتا صاحبؒ، یہ بی بی پاکدامنؒ، یہ حضور ﷺ  کی آل پاک کے مزارات ہی تو ہیں۔ دنیا کے نوے فیصد سے زیادہ مزارات تو حضور ﷺ  کی آل پاک کے ہیں۔ حضور ﷺ  کی نسل پاک کے ہیں۔ اور دس فیصد شائد ان سے محبت رکھنے والوں کے۔ ان کو ماننے والوں، ان کے مریدوں کے۔ 

”یار ہم مزارات کو یکسر نظر انداز نہیں کر سکتے۔ اگر کوئی خلاف شرع کام ہوتے ہیں، تو انہیں پوائنٹ آؤٹ کیا جائے، لوگوں کو تعلیم دی جائے۔ یہ کہنا کہ وہاں جانے ہی نہیں چاہئے، ان کی کتابیں ہی نہیں پڑھنی چاہئیں، اور انتہائی صورت میں ان بزرگوں کو تنقید کا نشانہ بنانے لگنا، مجھے یہ رویے سمجھ نہیں آتے۔ 

”عجیب و غریب رویے ہیں حضور ﷺ  کی آل کی طرف۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہم باتیں کرتے کرتے، ڈیوس روڈ سے بوڑھ والے چوک کی طرف آ گئے۔ میں نے ریڑھی سے سفید شرٹ لینی تھی۔ راستے میں ہمیں بی بی پاکدامنؒ کے مزار کی طرف جاتی سڑک بہت اٹریکٹو محسوس ہوئی۔ 

”بھائی ابھی شرٹ لے کر آتے ہیں ادھر۔ یار کیسی پررونق سڑک ہے“۔

ہم پررونق اس جگہ کو کہتے ہیں، جہاں ہمیں روحانیت اور پاکیزگی محسوس ہو۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

واپسی پر ہم بی بی پاکدامنؒ کے مزار کی طرف مڑ گئے۔ واقعی کمال سڑک تھی۔ ایسے لگ رہا تھا، جیسے کسی اور ہی دنیا سے گزر رہے ہوں۔ بہت ہی خوبصورت فضا تھی۔ بہت ہی خوبصورت۔ دل خوش ہو گیا۔ داتا صاحبؒ کے عرس پر ایسی ہی فضا محسوس ہوتی ہے مجھے۔ اور حج کے دوران سارے مدینہ پاک کی فضا اس فضا سے کئی گنا زیادہ، لیکن ایسی ہی محسوس ہوتی تھی۔ وہی نور ہے دنیا بھر کے مزارات سے پھوٹتا ہوا۔ اسی سرچشمے کی چھوٹی چھوٹی ندیاں۔ 

”یار کسی دن سپیشل آتے اس جگہ۔ یار کمال ہی ہو گیا ہے۔ کیسی فیلنگز ہیں۔ بھائی کوئی پروگرام بناؤ یار ادھر آنے کا۔ کوئی کتاب لینے، کسی اور بہانے۔ یار وہ آپ نے صحیفہ سجادیہ لینا تھا ایک بار۔ بھائی یہاں سے مل جائے گی وہ کتاب۔ کسی دن لینے آتے ہیں۔ اندر مزار پر حاضری بھی دے لیں گے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہم نے خالی ہاتھ آنا مناسب نہ سمجھا اور سو روپے کی شیرینی لے لی۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

”بھائی زندگی گزر گئی ہے مختلف تجربات میں۔ ایک بات بتاتا ہوں آپ کو آج۔ یہ جو اپوزٹ سیکس کی محبت ہے نا، اس کا کوئی نعم البدل ہو سکتا ہے۔ تلاوت اور نماز میں کچھ فیلنگز مل جاتی ہیں۔ لیکن بھائی سیکس کا کوئی آلٹرنیٹو، کوئی بدل نہیں۔ اور سیکس عقل سے عاری ہوتا ہے۔ وہ کسی مذہب، نسل، عمر، ایجوکیشن کو نہیں مانتا۔ بلکہ وہ کچھ مانتا ہی نہیں ہے۔ سیکس کو اگر کوئی چیز کنٹرول کر سکتی ہے، تو وہ کسی اللہ والے، کسی مرد صالح، کسی بزرگ کی صحبت ہے۔ اور اگر وہ میسر نہ آئے تو کسی مزار کی حاضری۔ 

”بھائی اس کے علاوہ مجھے اور کوئی سولوشن نظر نہیں آیا اس پرورشن کا۔ نماز روزہ ٹھیک ہیں، لیکن بگڑے ہوئے کیسز میں، مرد صالح کی صحبت ہی اصل علاج ہے۔ بعض دفعہ بندہ اتنا بگڑ چکا ہوتا ہے، سیکشؤلی اتنا گمراہ ہو چکا ہوتا ہے، اتنا وے وارڈ، اتنا پرورٹڈ، کہ مرد صالح کی صحبت بھی کچھ نہیں کرتی۔ مزار پر حاضری بھی بے سود ثابت ہوتی ہے۔ لیکن ایسا بہت رئیر ہے۔ لاکھوں کروڑوں میں کوئی ایک کیس ایسا ہوتا ہے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں بہت بول چکا تھا، لیکن مجھے محسوس ہوتا تھا، جیسے اس موضوع پر جتنا بولنا چاہئے، میں نے اتنا نہیں بولا ابھی۔ بہرحال ہمارا گھر قریب تھا، اور ہم اپنی گفتگو سمیٹ کر، گھریلو موضوعات پر واپس آنے لگے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہمارے دل و دماغ کو صراط مستقیم کی پہچان اور آگاہی نصیب فرمائے، آمین۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ

   


 

جو کام بھی اللہ تعالیٰ کے تعلق


 جو کام بھی اللہ تعالیٰ کے تعلق سے خالی ہوں گے، وہ کیونکر اچھے ہو سکتے ہیں۔ 

بندے کا مقصد ہے، بندے کی کوشش ہے، اس کے ارادے ہیں، پلاننگز ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو شامل کیے بغیر، شامل رکھے بغیر، کس طرح بارآور ثابت ہو سکتی ہیں یہ چیزیں۔ 

بندے کے اندر غیرت ہے، انا ہے، عزت نفس ہے، خود داری ہے، مروت ہے۔ ان سب احساسات اور جذبات میں اگر اللہ کا ذکر شامل ہو، اس کا تعلق شامل ہو تو کمال ہی ہو جاتا ہے۔ بندے کی غیرت، انا، عزت نفس، خودداری، مروت وغیرہ دین سے جڑ جائیں، اللہ تعالیٰ کے تعلق سے جڑ جائیں تو اور کیا چاہئے۔ بس زندگی کامیاب ہو گئی۔ 

لیکن اگر یہ سب اللہ تعالیٰ سے خالی ہوں، تو پھر مصیبت ہی مصیبت ہیں۔  اگر یہ سب کچھ لوگوں سے، اپنے جیسے دوسرے انسانوں سے جڑ جائے، تو بندہ تصور کر سکتا ہے، یہ زندگی کسی جہنم سے کم نہیں ہو گی۔ 

بندہ اللہ سے دور ہوتا جائے گا، دور سے دور ہوتا جائے گا۔ 

اگر آپ  دیکھیں تو دنیا میں پھنسا ہوا ہر انسان بنیادی طور پر ایسے ہی کسی احساس یا جذبے میں پھنسا ہوتا ہے۔ غیرت، انا، عزت نفس، خودداری، مروت، یہ ختم کر دیتی ہیں اللہ تعالیٰ سے تعلق کو، اگر یہ انسانوں سے وابستہ ہو جائیں۔ آپ انہیں بچانے کے لئے کیا کچھ نہیں کرتے۔ لیکن اگر یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ سے جڑ جائے، اس کے دین سے جڑ جائے، تو زندگی کی خوبصورتی اس سے زیادہ ہو نہیں سکتی کوئی۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہمیں ہر ہر لمحہ اپنی ذات سے وابستگی نصیب فرمائے، آمین۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ


قرآن پاک میں ہمارے کچھ رویوں کا

 

قرآن پاک میں ہمارے کچھ رویوں کا ذکر ہے، کہ اگر ہم وہ رویے اپنائیں گے، تو اللہ تعالیٰ بھی ہماری طرف اسی رویے سے توجہ فرمائے گا۔

اگر ہم اسے یاد رکھیں گے تو وہ بھی ہمیں یاد رکھے گا۔ 

اگر کوئی اس سے مکر کرے گا، تو وہ بھی اس سے مکر کرے گا۔

اگر کوئی اس کا استہزاء اڑائے گا، تو وہ بھی اس کا استہزاء  اڑائے گا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں صرف یہ پوائنٹ آؤٹ کر رہا ہوں، کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے، لمحہ بہ لمحہ ساتھ ہے۔ لیکن اس نے اپنا قرب ہمارے رویوں میں چھپا دیا ہے۔ ہم جیسا رویہ اس کی طرف اپنائیں گے، وہ ویسا ہی رویہ بن کر ملے گا۔ 

اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم اس سے محبت کریں، اور وہ بھی ہم سے محبت کرے۔ 

ہم اس کا دید لحاظ کریں، اور وہ بھی ہمارا دید لحاظ کرے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

دنیا کی ہر چیز آپ سے توجہ مانگتی ہے۔ اور کیسی خوبصورت بات ہے، کہ وہ ہمارا خالق و مالک ہو کر بھی ہم سے توجہ ہی چاہتا ہے۔ سب کچھ اسی کا پیدا کردہ ہے، لیکن اس نے توجہ پیدا کر کے ہمیں توجہ کا مالک بنا دیا ہے۔ وہ کہتا ہے، مجھے توجہ دو۔ جیسی توجہ دو گے میں اس سے بہتر توجہ دوں گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہمارے دل و دماغ کو اچھے رویے نصیب فرمائے، آمین۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ


مجھے نہیں پتہ وہ کون سا دور ہو گا


 مجھے نہیں پتہ وہ کون سا دور ہو گا، جب دنیا میں مرد اور عورت کی محبت ختم ہو جائے گی۔ دنیا کی ہر لینگوئج، ہر کلچر، ہر قوم میں کچھ لوگ محبت کرنے والے ہوئے ہیں۔ لیلیٰ مجنوں کی طرح کے۔ یہ ختم نہیں ہو سکتے۔ جتنی مرضی فلمیں آ جائیں، ڈوائسز آ جائیں، ایڈوانسمنٹس ہو جائیں۔ میں نہیں سمجھتا کبھی کوئی ایسا وقت بھی آئے گا، جب کوئی مرد، کوئی عورت محبت نہیں کریں گے۔ جب انسان کے دل سے محبت کی پہچان ختم ہو جائے گی۔ جب انسان دوسرے انسان کی محبت نہیں چاہے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے والے بھی اسی طرح ہیں۔  جب تک اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کو ماننے والے موجود ہیں، اس سے محبت کرنے والے بھی موجود ہیں۔ یہ مزار اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے والوں کے مزار ہیں۔ مزار ختم کر دیں، لوگوں کو روک دیں، لیکن اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے والے ان جگہوں پر پہنچ جائیں گے۔ ان جگہوں کی خوشبو انہیں کھینچ ہی لائے گی۔ مجھے نہیں پتہ لوگ کیوں جاتے ہیں، میں تو کسی مزار پر جاتا ہوں، تو محبت محسوس کرنے جاتا ہوں۔ 

جس طرح ایک دوسرے سے محبت کرنے والے مرد عورت، دوسرے عاشقوں کے قصے پڑھ کر تازگی اور توانائی محسوس کرتے ہیں، اپنی محبت کو بڑھتا محسوس کرتے ہیں، اسی طرح میرے جیسے ان مزاروں پر جا کر، اللہ تعالیٰ سے محبت کی پہچان محسوس کرتے ہیں، پختگی اور بقا محسوس کرتے ہیں۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور پھر ایک اور بات ہے، کہ زیادہ تر مزارات میرے ہی خاندان کے ہیں، میرے ہی بزرگوں کے ہیں۔ میرے باپ دادا، میرے بڑے۔ یا ان کے ماننے والے۔ زیادہ تر مزارات حضور ﷺ  کی آل پاک کے ہی ہیں۔ سیدوں کے ہی ہیں۔ ان سے محبت اور عقیدت رکھنے والوں کے ہی ہیں۔ 

شائد دوسرے اس چیز کو محسوس کرنے سے قاصر ہیں۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہمارے دل و دماغ کو مزارات پر حاضری کی سمجھ اور تمییز عطا فرمائے، آمین۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ

جب بندہ فیصلہ کر لے

 

جب بندہ فیصلہ کر لے، کہ آخرت ہی اصل ٹھکانہ ہے، اللہ تعالیٰ کا قرب ہی اصل مقصد ہے، تو دنیا اور دنیا کی ہر چیز بے معنی ہو جاتی ہے۔ اس کا ہونا تکلیف دہ، اور نہ ہونا خوشی کا باعث بن جاتا ہے۔ 

بندہ دوسروں سے صلے کی توقع نہیں کرتا۔ ان کے رویوں سے نالاں نہیں رہتا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بندہ کسی کی ذرہ برابر توجہ کے لئے مرا جاتا ہے۔ اپنے آپ کو دوسرے انسانوں کی نفرت، حسد، انتقام کے حوالے کر دیتا ہے، کہ شائد ان سے لڑ کر، انہیں نیچا دکھا کر، وہ اپنے پیارے سے توجہ حاصل کر لے۔ شائد اسے اپنے پیارے سے محبت کے دو بول سننے کو مل جائیں۔ بندہ دن رات محنت کرتا ہے، اپنے اس پیارے انسان کو ہر طرح سے خوش کرنے کی کوشش کرتا ہے، کہ شائد وہ اسے تھوڑی سی توجہ دے دے۔ شائد وہ اسے تھوڑی سی محبت دے دے۔ لیکن اسے کچھ نہیں ملتا۔

اگر بندہ سوچے کہ جتنی توجہ میں اس انسان کی چاہتا ہوں، اگر اتنی توجہ میں اللہ تعالیٰ کی چاہنے لگوں، اگر اتنا میں اللہ تعالیٰ کی توجہ کا طالب ہو جاؤں، تو کیا وہ مجھے توجہ نہیں دے گا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بندہ کہتا ہے، میں نے فلاں کے لئے اتنا کچھ کیا، اتنی محنت کی، اتنی تکلیفیں اٹھائیں، لیکن اس نے بدلے میں کچھ نہ دیا۔ کوئی محبت، کوئی شکریہ، کوئی توجہ نہیں دی۔ بندہ اندر ہی اندر کڑھتا رہتا ہے، جلتا رہتا ہے۔ 

لیکن اگر وہ اپنا منہ اللہ تعالیٰ کی طرف کر لے، اور اسی کا ہو جائے، اور سوچے کہ میں اتنی محنت اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے کرتا تو کیا تھا۔ کیا اللہ تعالیٰ مجھے اسی طرح محروم رکھتا۔  

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگر دیکھا جائے تو دنیا کا ہر انسان کسی ایسے کام میں پھنسا ہوا ہے، جو اسے کچھ نہیں دے رہا، جو اس سے سب کچھ چھین رہا ہے، لیکن نہیں دے رہا۔ اگر انسان سوچے، کہ اس کام میں اتنی ذلت اور خواری کی بجائے، میں اللہ تعالیٰ کے راستے میں، اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کی کوشش کرتا، تو کیا مجھے یہ سب نہ ملتا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نائنٹی سیون کی بات ہے، میں نے کاؤنٹ کیا میں انگریزی لٹریچر کے کوئی ڈیڑھ دو لاکھ سے زیادہ صفحے پڑھ چکا ہوں۔ مجھے خیال آیا، اگر میں نے اتنا قرآن پاک پڑھا ہوتا تو کیا مجھے اتنی بھی عقل نہ آتی، جتنی انگریزی کے ڈیڑھ دو لاکھ صفحے پڑھ کر آئی ہے۔ 

بس اس دن کے بعد سے میرا دل انگریزی سے اچاٹ ہونے لگا، اور میں قرآن پاک پڑھنے، عربی سیکھنے اور حفظ کرنے کی طرف لگ گیا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگر دیکھا جائے تو دنیا کی محرومیاں اور تکلیفیں، نعمتیں اور خوشیاں بن جاتی ہیں، اگر بندہ اپنا رخ اللہ تعالیٰ کی طرف پھیر لے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہمارے دل و دماغ کو اپنی طرف متوجہ ہونے کی خوش قسمتی عطا فرمائے، آمین۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ


سولہ سترہ سال کی عمر بڑی اہم ہوتی ہے

 

سولہ سترہ سال کی عمر بڑی اہم ہوتی ہے۔ بندے کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت جوش مارتی ہے، اور وہ اسے ڈھونڈنے، پانے، اور اس کے قریب کی ہونے کی خواہشات محسوس کرتا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں سوچتا ہے، وہ کون ہے، کیسا ہے، کہاں رہتا ہے، کیا وہ دعا سنتا ہے، کیا وہ کچھ مانگنے پر عطا کرتا ہے، کیا وہ ساتھ ساتھ رہتا ہے، کیا وہ مدد کے لئے آتا ہے، ایسے اور اس قسم کے اور بہت سے سوالات سر اٹھاتے ہیں، اور بندہ انہیں آزما کر دیکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ 

بعض دفعہ اسی عمر میں مجازی محبت کا غلبہ محسوس ہوتا ہے، اور بندہ اس سب کچھ کو بھول کر کسی اپنے جیسے انسان کی محبت میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ پھر اس طرح ہوتا ہے، کہ دونوں محبوب ایک دوسرے میں مدغم ہو جاتے ہیں، اور بندے کو محسوس نہیں ہوتا کہ وہ مجازی محبوب کو خدا جیسا، اور خدا کو مجازی محبوب جیسا سمجھنا شروع کر چکا ہے۔ 

بعض دفعہ اس کشمکش میں بندہ مجازی محبت سے نکل آتا ہے، اور اللہ تعالیٰ کی تلاش شروع کر دیتا ہے۔ 

یہ ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ بندے کو یہ بات سمجھنے میں ایک مدت لگ جاتی ہے، کہ تلاش کی خواہش، اسے پانے کا تصور بہت بڑی بڑی رکاوٹیں ہیں۔ 

بعض دفعہ بندہ بہت جلد سمجھ جاتا ہے، کہ دراصل اسے قرب کی خواہش ہے، دراصل وہ اللہ تعالیٰ کی دوری اور نزدیکی کے تصور میں مبتلا ہے۔ 

بعض دفعہ بندہ اس حالت میں نمازوں اور تلاوتوں کی طرف راغب ہوتا ہے، اور اسے محسوس ہوتا ہے، کہ اسے اپنا مقصود مل گیا ہے۔ 

بعض دفعہ بندے پر مجازی محبت کا غلبہ کچھ زیادہ ہو جاتا ہے، اور وہ اللہ تعالیٰ کے قرب کو نمازوں اور تلاوتوں کی بجائے، دنیا کے مختلف نیک کاموں میں تلاش کرنے لگتا ہے۔

بہرحال نمازوں اور تلاوتوں کے مقصود تک پہنچنے والا ایک بہت بڑی آزمائش میں گھر جاتا ہے۔ وہ اپنی آج کی حالت کا اپنے گزرے ہوئے کل کی حالت سے موازنہ کرنے لگتا ہے، اور آنے والے کل میں کسی بے مثال کامیابی کی امید لگا لیتا ہے۔ وہ آنے والے کل میں کسی ایسی حالت کا تصور کرنے لگتا ہے، جسے نہ آج تک اس نے پایا، نہ محسوس کیا۔ 

اپنی حالتوں کے موازنے سے نکل کر، وہ بعض دفعہ کسی گزرے ہوئے، یا ہم عصر بندے کے موازنے میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ وہ دیکھتا ہے ماضی میں اللہ تعالیٰ کے بندے کتنی کتنی جدوجہد کر چکے ہیں، کتنا کتنا نام کما چکے ہیں، اللہ تعالیٰ نے کیسی کیسی نعمتوں سے نواز ہوا ہے انہیں، وہ خود بھلا کیا ہے۔ ماضی کے بزرگ کتنے نیک تھے، اور وہ خود کتنا گنہگار ہے۔ بس یہ موازنے اسے کہیں کا نہیں چھوڑتے۔ وہ ماضی کے بزرگوں کی نقل کرنے نکلتا ہے، لیکن ناکام ہوتا ہے۔ وہ اپنے مزاج اور اپنی ہمت سے بڑا بوجھ اٹھا لیتا ہے، اور گر پڑتا ہے۔ اسے محسوس ہوتا ہے، وہ کچھ بھی نہیں کر رہا۔ نہ اسے ماضی کے بزرگوں جیسے خواب آتے ہیں، نہ ان جیسا محسوس ہوتا ہے۔ وہ کتنے قریب تھے، ان کی کتنی دعائیں قبول ہوتی تھیں، ان کی باتیں کتنی معرفت آموز ہوتی تھیں، وہ تو ویسے مقامات سے محروم ہے۔ 

بس پھر موازنے اور مقابلے اسے لے اڑتے ہیں۔ لیکن اس سے پہلے کہ وہ بھول جائے، گر جائے، کھو جائے، اللہ تعالیٰ اسے علم عطا کرتا ہے، اور بندہ اپنے آپ کو پہچانتا ہے۔ اسے پتہ لگ جاتا ہے کہ وہ کیا ہے۔ اسے پتہ لگ جاتا ہے، کہ وہ اللہ تعالیٰ سے کیسی پہچان رکھتا ہے۔ بس اسے اپنے دل، اپنے اعمال، اور تعلق کی سمجھ آ جاتی ہے۔ اسے اپنے حصے پر قناعت نصیب ہو جاتی ہے۔ 

وہ اپنے آپ کو صراط مستقیم یعنی استقامت والے راستے پر محسوس کرتا ہے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہمارے دل و دماغ کو صراط مستقیم پر چلنے کی خوش قسمتی عطا فرمائے، آمین۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ

 


کچھ لوگ اس لئے نماز اور تلاوت کے قریب


 کچھ لوگ اس لئے نماز اور تلاوت کے قریب نہیں جاتے، کہ ان کے خیال میں وہ بہت گنہگار ہیں، اور یہ کام تو نیک لوگوں کے ہیں۔ 

کچھ لوگ اللہ تعالیٰ سے خوف کھا کر بھی اس کے سامنے جانے سے کتراتے ہیں۔

کچھ لوگ دعاؤں اور عبادتوں کے قبول نہ ہونے کے مسائل، غسل اور وضو نہ ہونے کے مسائل، اور نماز نہ ہونے کے مسائل میں اتنا الجھ جاتے ہیں، کہ ان کا دل ہی نہیں کرتا ان سب کے قریب جانے کو۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ بھی تعلق کی ایک قسم ہے۔ ان کا تعلق کچھ اسی طرح کا بن جاتا ہے اللہ تعالیٰ سے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میری نمازوں اور تلاوتوں کی خوشی اور خوبصورتی کے راستے میں وہ مسائل بہت بڑی رکاوٹ ثابت ہوئے، جو میں نے نمازوں، تلاوتوں، غسل، وضو، دعاؤں کے قبول نہ ہونے کے بارے میں پڑھے ہوئے تھے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بس آپ کو وضو اور غسل کے مسائل سکھائے ہوں کسی نے، اور آپ کو پاکی کا بنیادی تصور معلوم ہو۔ 

نماز آتی ہو۔ 

اللہ تعالیٰ کی ذات اقدس کا تصور واضح ہو، کہ وہ حی و قیوم ہے، اور دیکھی اور اندیکھی ہر چیز اسی نے تخلیق کی ہے۔ وہ خیالات، احساسات اور تصورات کا بھی خالق ہے۔ وہ علیم و خبیر ہے، سمیع و بصیر ہے۔ وہ احد و صمد ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بعض دفعہ تو مجھے لگتا ہے نماز اور تلاوت سے خوشی حاصل کرنی ہو، تو کم سے کم معلومات ہوں ان دو کے بارے میں۔ اتنی ہی جتنی کبھی بچپن میں سیکھی سنی تھیں۔

کن باتوں سے غسل نہیں ہوتا، وضو نہیں ہوتا، نماز نہیں ہوتی، تلاوت نہیں ہوتی، عبادات قبول نہیں ہوتیں، ان مسائل کی تفصیل سے بچیں۔ ان کی تفصیل دلوں میں شکوک و شبہات پیدا کرتی ہے، منفی اور تنقیدی رویے پیدا کرتی ہے، اور دماغ اللہ تعالیٰ سے روگردانی کرنے لگتے ہیں۔  

اللہ تعالیٰ کی صفات کے بارے میں جتنا غور و فکر کر سکتے ہیں کریں۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جہاں دل کو اچھا لگے وہاں نماز ادا کریں۔ 

جو جگہ بھی خوبصورت محسوس ہو وہاں نماز ادا کریں۔

نماز آپ کے اللہ تعالیٰ سے تعلق کا نام ہے، اس کو آسان سے آسان بنائیں، محبت بھرا بنائیں۔  

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہمارے دل و دماغ کو اپنی محبت سے معطر و منور بنائے، آمین۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ