Image 1 Image 2 Image 3 Image 4
Pyara Islam
Showing posts with label فیملی لائف. Show all posts
Showing posts with label فیملی لائف. Show all posts

مجھے عامر سے مل کر آئے تین چار


مجھے عامر سے مل کر آئے تین چار گھنٹے ہو چکے ہیں۔ میں نے بچوں کے ساتھ ناشتہ کرتے ہوئے بھی کچھ شئیر کرنے کی کوشش کی ہے۔ بظاہر میں نے دوسرے موضوعات پر بات چیت کی ہے۔ میں پچھلے دو دن سے ہسپتال میں تھا، اور کمی پوری کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ لیکن عامر کا پھٹا ہوا دل، اور اس پھٹے ہوئے دل سے نکلنے والی دردناک آواز مجھے چین سے نہیں بیٹھنے دے رہی تھی۔ اس نے مجھے سلام لے کر کہا، دعا کرنا اللہ تعالیٰ صبر دے دے۔ اس کے کانپتے ہوئے ہاتھ بتا رہے تھے، کہ اس سے صبر نہیں ہو رہا۔ اس کا دل پھٹا ہوا ہے، اور شائد پھٹتا ہی جا رہا ہے۔ 

بظاہر عامر ایک خوبصورت آدمی ہے۔ دولت، پرسنیلٹی، عادتیں، سب کچھ خوبصورت ہے۔ میرے جیسا آدمی رشک کرتا نہ تھکے۔ شائد زندگی بھی خوبصورت تھی اب تک۔ لیکن اچانک ایک ایسا حادثہ پیش آیا، کہ سب کچھ ختم ہو گیا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میری امی فوت ہوئی تھی، تو زندگی ختم ہو گئی تھی۔ فل سٹاپ بھی تھا اور کوئسچن مارک بھی۔ میں کئی دن قبرستان جاتا رہا۔ وہاں جا کر کچھ دیر بیٹھتا اور واپس آ جاتا۔ امی کے فوت ہونے سے سب کچھ ختم ہو گیا ہو جیسے۔ کچھ سمجھ نہیں لگتی تھی کس سے ملوں اور کیا بات کروں۔ دل جیسے پھٹ چکا تھا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عامر کی آواز سے مجھے ایسے ہی محسوس ہوا جیسے اس کا دل پھٹ چکا ہے۔ کسی بہت بڑے طاقتور ہاتھ نے کچھ نوچ کر نکال لیا ہے اس کے اندر سے۔ جس طرح مرغی کی کھال اتارتے ہیں نوچ کر، جس طرح اس کا دل گردہ نکالتے ہیں نوچ کر۔ ایسے ہی کسی نے سب کچھ نکال لیا ہے نوچ کر۔ 

عامر کی جواں سال بیٹی فوت ہو گئی تھی اچانک۔ اچانک ایک حادثہ پیش آیا، اور سب کچھ اجڑ گیا۔ مجھے لگتا تھا مجھے ایک ایک لمحے کا علم ہے، وہ کس طرح گزرا ہو گا اس حادثے سے۔ کس طرح گزر رہا ہو گا۔ کس طرح انسان ایک ایک پل گنتا ہے بچے بڑے کرتے ہوئے، اور کس طرح آن کی آن میں سب کچھ اجڑ جاتا ہے، سب کچھ ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔ سب کچھ ختم ہو جاتا ہے۔ انسان بس مرنے کا انتظار کرتا ہے ایسے حادثے کے بعد۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عامر میرا کلاس فیلو تھا فرسٹ ائیر میں۔ اڑتیس سال پہلے ہم دو سال اکٹھے پڑھے تھے۔ ہم کالج سے پھٹا مار کر میچ کھیلنے جاتے تھے۔ میں ایک پیسیو سا پلئیر تھا، لیکن ساتھ ضرور جاتا تھا۔ مجھے مائیک گیٹنگ کہتے تھے یہ سارے۔ بس وہی ہم لوگوں کی محبت تھی۔ ہم سب چوبیس پچیس کلاس فیلوز کی۔ دو سال بعد ہم زندگی کے دوسرے میدانوں میں کھیلنے چلے گئے۔ اور پھر کئی سال تک ملاقات نہ ہو سکی۔ کچھ پتہ نہیں تھا کون کہاں ہے۔ پھر فیس بک اور واٹساپ پر اکٹھے ہو گئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

آج صبح عامر کی صاحبزادی کی جانکاہ خبر سنی تو جیسے دل بھر آیا۔ عامر جتنا خوبصورت، جتنا محبت کرنے والا، اور خیال رکھنے والا انسان ہے، اس کے ساتھ یہ ایسا سب کیسے ہو سکتا تھا۔ میں نے حسن کو ساتھ لیا، اور جنازے پر پہنچنے کے لئے گھر سے نکل پڑا۔ مجھے نہیں معلوم ہم موٹر سائیکل پر پی آئی اے سوسائٹی میں کیسے پہنچے۔ بیسیوں بار راستہ بھولے، اور بیسیوں بار دوبارہ پوچھا۔ بہرحال پہنچ گئے۔ 

حسن کا خیال ہے عامر انکل نے مجھے نہیں پہچانا۔ لیکن اس کے ہاتھوں کے لمس سے محسوس ہو رہا تھا، اس نے پہچان لیا ہے۔ میں اس کے آدھا سا گلے لگا، اور مجھے محسوس ہوا اس نے مجھے پہچان لیا ہے۔ مجھ سے کوئی لفظ نہیں بولے گئے۔ اس نے بس اتنا کہا، دعا کرنا اللہ پاک صبر دے دے۔ اس کی آواز میرے دل سے ایسے ٹکرائی جیسے چیرتی جا رہی ہو اندر تک، تہہ تک۔ وہ پوری طرح سے رو بھی نہیں رہا تھا، لیکن ایسا لگتا تھا، اس کا روان روان رو رہا ہے۔ آنسو بہا رہا ہے، چیخ رہا ہے۔ انسان پتہ نہیں کیوں چنا جاتا ہے کسی کام کے لئے، کسی غم کسی خوشی کے لئے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ اللہ تعالیٰ ٹوٹے ہوئے دلوں کے قریب ہے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہر ٹوٹے ہوئے دل کو صبر جمیل عطا فرمائے، آمین۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ


چھوٹا بھائی ہاسپٹل میں ہے تین چار


چھوٹا بھائی ہاسپٹل میں ہے تین چار دنوں سے۔ جناح ہسپتال۔ ہاسپٹل میں رہنے کا تجربہ بڑا عجیب تجربہ ہوتا ہے۔ ہم تیس سال پہلے پندرہ پندرہ بیس بیس دن رہے ہیں ہسپتال میں۔ امی کی بیماری کے دوران۔ پھر ابو کی بیماری کے دوران بھی۔ میں اور میرا بھائی۔ بڑے بھائی فیصل آباد میں رہتے تھے۔ وہ ہسپتال میں گئے تو وہاں بھی ہم ایک دو دن رہے۔ ہسپتال تقریبا ہر جگہ پر ایک جیسے ہی ہیں۔ مریضوں کا تو جو حال ہے سو ہے، لواحقین کا بھی تقریبا ایک جیسا ہی حال ہے۔ زیادہ تر لوگ گاؤں سے آئے ہوتے ہیں۔ پوری پوری فیملی آئی ہوتی ہے۔ اتنا زیادہ اکوموڈیشن کا بندوبست کر ہی نہیں سکتی حکومت۔ مہمان خانے، قیام گاہیں، دسترخوان، سب کچھ موجود ہے، لیکن لوگ پھر بھی پورے نہیں آ رہے۔ برآمدوں میں، سائیکل سٹینڈوں پر، چھوٹے بڑے لان اور پیچز، کوئی جگہ خالی نہیں ہوتی۔ ہر جگہ پر لوگ کوئی چٹائی، کوئی بستر لگا کر لیٹے ہوتے ہیں۔ 

پاکستان میں کسی بھی شہر میں، کوئی بھی جگہ ہو، ہسپتال کا یہ منظر تقریبا ایک جیسا ہی ہے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

امی کی بیماری کے دوران میں ہسپتال رہ لیتا تھا رات، لیکن اب میری عمر کا تقاضا سمجھ لیں، یا اور کوئی بات، اب مجھے بہت مشکل نظر آتا ہے۔ میں نے ادھر ادھر کونوں میں کوئی فٹپاتھ جیسی انتظار گاہوں میں لیٹنے کی کوشش کی، لیکن نہ لیٹ سکا۔ ایک دو بنچوں پر دراز ہوا، لیکن نہ ہو سکا۔ تیسری چوتھی منزل کے دس دس چکر لگا کر ویسے ہی نڈھال ہوا پڑا تھا۔ برآمدے یاد نہیں رہتے تھے۔ ہر بار ایک دو برآمدوں سے واپس آنا پڑا۔ لیکن کرسیوں پر سر نیہوڑائے بیٹھ کر بھی کوئی آرام کا احساس نہ ہو سکا۔ 

جب کہیں جگہ نہ ملی تو واپس بھائی کے پاس آ بیٹھا۔ ادھر ادھر کی باتیں شروع کیں، اور تہجد اور فجر تک چلتے گئے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں سوچوں لوگ جن فیسیلیٹیز کا تقاضہ کرتے ہیں، عقلی طور پر وہ اس قابل نہیں ہوتے، کہ انہیں وہ فیسیلیٹیز مل سکیں۔ ہسپتال کے باتھ روموں سے لے کر لانوں تو بس ایک ہی منظر نظر آتا ہے، کہ لوگوں کو استعمال نہیں آتا۔ انہیں اتنی عقل نہیں ہے کہ ایسی خوبصورت اور قمیتی فیسیلیٹیز کو کیسے استعمال کرنا ہے۔ جب چیزیں بنتی ہیں، تو کتنی خوبصورت ہوتی ہیں۔ لیکن آہستہ آہستہ خراب ہوتی جاتی ہیں۔ کیونکہ ان کا استعمال ان کے مرتبے کے مطابق نہیں کیا جاتا۔ کہنے کو تو صفائی نہیں ہوتی، احتیاط نہیں ہوتی، لیکن اصل بات یہ ہے کہ استعمال کرنے والے اتنے عقلمند نہیں ہوتے۔ اور جب انہیں عقل دینے کی کوشش کی جاتی ہے، تو یہ ان چیزوں کو چھوڑنے پر راضی نہیں ہوتے، جنہوں نے انہیں نے کم عقل رکھا ہوتا ہے۔ اچھے لوگ ہیں۔ میں وہ بات نہیں کر رہا۔ 

صفائی انصاف کی طرح ہوتی ہے، ڈسپلن کی طرح ہوتی ہے۔ بہت بڑی عقل چاہئے ان چیزوں کو انجوائے کرنے کے لئے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگر ہمیں بہت کچھ دے بھی دیا جائے، لیکن ہمارے پاس عقل نہ ہو، تو ہم بہت جلد وہ سب کچھ گنوا دیتے ہیں۔ جناح ہسپتال کی ایمرجنسی بہت بہتر ہے۔ عملہ بھی بہت محنت سے کام کر رہا ہے۔ لیکن جتنی عقل اس ایمرجنسی کو بہتر رکھنے کے لئے درکار ہے، وہ اتنی نہیں ہے۔ صفائی اور خاموشی بہت بڑے ڈسپلنز کے نام ہیں۔ اور ان سے جو عقل پیدا ہوتی ہے وہ بھی بہت بڑی ہوتی ہے۔ ڈسپلن قائم رکھنے والی عقل تو ویسے ہی بہت بڑی عقل ہوتی ہے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بہرحال کل میں سکول کے پیپرز بھی ساتھ لے گیا۔ میرا خیال تھا کچھ ٹائم نکال کر چیک کر لوں گا۔ لیکن میں نے جہاں بھی پیپرز نکالے سارے لوگ میری طرف دیکھنے لگے۔ پیپرز چیک کرنے کے بارے میں ہر انسان کا خیال مختلف ہے، خاص طور پر جو ٹیچرز نہیں ہیں۔ میں نے جب لوگوں کو متوجہ دیکھا تو مجھ سے کام نہ ہو سکا، اور میں بنڈل واپس ڈال کر بیٹھ گیا۔ پھر مجھے خیال آیا، وہ جہاں نماز پڑھنے کے لئے چٹائی بچھی ہوئی ہے، وہاں بیٹھتا ہوں جا کر، پنکھا بھی لگا ہوا ہے، اور لوگ بھی نسبتا کم ہیں۔ میں وہاں گیا تو مغرب کی نماز کا وقت تھا۔ علامہ اقبال میڈیکل کالج کے کچھ ایلومنی نے وہاں ایک لائبریری بنا رکھی ہے۔ نماز میں تقریبا سارے ہی نمازی اس ایلومنی لائبریری کے طالبعلم ڈاکٹرز تھے۔ میں نے ایک ڈاکٹر لڑکے کو بلا کر کہا، کہ فرش پر بیٹھ کر میرے پیٹ میں بل پڑ گئے ہیں، میں نے پیپرز چیک کرنے ہیں، اور مجھے کوئی مناسب جگہ نہیں مل رہی بیٹھنے کو۔ اندر کوئی ایکسٹرا چئیر مل سکتی ہے کیا۔ وہ بچہ مسکرایا، اور کہنے لگا، آئیں میں دیکھتا ہوں۔ اندر جا کر اس نے ایک چئیر پر بیٹھنے کی آفر کی۔ مجھے لگا وہ کسی سٹوڈنٹ کی ہے، وہ آج نہیں آیا ہو گا۔ اس پر کتابیں پڑی ہوئی تھیں میڈیکل کی۔ میں نے دیکھا ایک بڑی سی میز پڑی ہے، جیسی کسی زمانے میں اخبار و رسائل پڑھنے کے لئے ہوتی تھی کالجوں میں، اور ساتھ ہی ایک لکڑی کی کرسی بھی پڑی تھی۔ میں چپ کر کے وہاں بیٹھ گیا۔ میں نے پیپرز نکالے اور چیک کرنے لگا۔ پرسکون ماحول، کسی کے دیکھنے کا کوئی ڈر نہیں، اور ٹیبل چئیر کی کمفرٹ، مجھے لگا میں کسی جنت میں آ بیٹھا ہوں۔ اے سی کی چل اپنی جگہ پر۔ میں نے دیکھا بچے چھوٹا موٹا کھانا بھی وہیں منگوا لیتے ہیں۔ مجھے بھوک تو دوپہر سے ہی لگی ہوئی تھی۔ اب اور بھی زیادہ محسوس ہونے لگی۔ میں کچھ پیپرز چیک کرنے کے بعد، بھائی کے پاس آیا، اپنا دوپہر کا پڑا کھانا اٹھایا، اور واپس لائبریری میں آ بیٹھا۔ بھائی کے پاس کچھ اور ممبرز آئے ہوئے تھے فیملی کے۔ مجھے لائبریری میں بیٹھنے کا موقع مل رہا تھا، میں بیٹھ گیا۔ میرے پیپرز کا بنڈل اسی جگہ پر پڑا تھا، جہاں میں رکھ کر گیا تھا۔ مجھے یاد آیا کسی نے مجھے کہا تھا، کہ یہاں کوئی کسی کی چیز نہیں اٹھاتا، ہاتھ بھی نہیں لگاتا۔ جو کچھ جہاں ہوتا ہے، کئی کئی دن وہیں پڑا رہتا ہے۔ 

میں نے لائبریری سے باہر جو حالات دیکھے تھے، میں سوچوں، یہ پیارے پاکستان کے پڑھے لکھے ترین بچے ہیں۔ انہوں نے یہ چیز سیکھ لی ہے، کہ کسی کی چیز کو ہاتھ نہیں لگاتے، جو کوئی جہاں کچھ رکھ کر گیا ہے، وہیں سے اٹھا لے گا آ کر۔ میں سوچوں یہ لائبریری والا سین باہر بھی ہو جائے گا ایک دن۔ جب ہم پڑھ لکھ جائیں گے، ایک پڑھی لکھی قوم بن جائیں گے، تو ہم لائبریری سے باہر بھی ایک دوسرے کی چیزوں کو چھیڑنے سے باز آ جائیں گے۔ ہمارا لائبریری والا ڈسپلن ہر جگہ پر قائم ہو جائے گا۔ 

کوئی شور نہیں کرتا تھا، کوئی بات نہیں کرتا تھا، کوئی کسی کی طرف دیکھتا بھی نہیں تھا۔ سب اپنے اپنے کام، اپنی اپنی سٹڈی میں مصروف تھے۔ میں وہاں تین چار گھنٹے بیٹھا رہا۔ میں نے پورا بنڈل چیک کر لیا۔ لیکن میں نے کسی کو کسی سے بات کرتے، ہنستے، یا گپ شپ لگاتے نہیں دیکھا، نہیں سنا۔ جو اپنا کام کر لیتا، چپکے سے بیگ اٹھاتا اور دھیان سے دروازہ کھولتا ہوا باہر نکل جاتا۔ ”ہم ایک اچھی اور خوبصورت قوم ہیں۔ کہیں کہیں ہی سہی، ہمیں اپنے اندر ایک بہت بڑی قوم کی جھلک نظر آ ہی جاتی ہے“۔

ہم ٹیچر لوگ ویسے بھی بچوں میں خوش رہتے ہیں۔ اور پھر لائبریری۔ اتنی زیادہ کتابوں کے درمیان بیٹھنا اٹھنا تو ویسے ہی میرا محبوب مشغلہ رہا ہے۔ بڑے اچھے دن تھے برٹش کونسل اور امیریکن سنٹر والے۔ مجھے کہیں کہیں یاد آ رہا تھا ان لائبریریز کا ڈسپلن کتنا خوبصورت تھا۔ امیریکن سنٹر میں ایک خاتون ہوتی تھی کتابیں اشو کرنے والے۔ بڑی گریسفل پرسنیلٹی تھی اس کی۔ سفید بال تھے۔ ففٹی کے قریب عمر ہو گی۔ شائد کسی کو یاد ہو۔

میرے اپنے بچے ڈاکٹرز ہیں۔ مجھے ان ینگ ڈاکٹرز میں بیٹھ کر لگ رہا تھا جیسے یہ میرے ہی بچے ہیں۔ زارا جو اپنی لائبریری کی باتیں سناتی ہے، یہ بالکل ویسی ہی لائبریری تھی۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہماری اگلی نسلوں کو زیادہ سے زیادہ عقلمند اور مہذب بنائے، آمین۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ

 

زندگی کے کئی ایک لمحے بہت خوبصورت ہوتے ہیں


 زندگی کے کئی ایک لمحے بہت خوبصورت ہوتے ہیں۔ بندہ بار بار سوچے، تو بار بار وہی فرحت اور وہی تازگی محسوس ہوتی ہے۔ 

ابھی زارا کی شادی نہیں ہوئی، ابھی منگنی بھی نہیں ہوئی، لیکن میں اور میری بیوی اس کے منگیتر کو اپنا بیٹا ہی سمجھنے لگے ہیں۔ شائد اس کی پرسنیلٹی ہے، یا شائد میری اور میری بیوی کی پوزیٹو سائڈ دیکھنے کی صلاحیت ہے، کہ ہمیں اس کا سوچ کر ہی محبت محسوس ہونے لگتی ہے۔ ہم اس کی باتیں کر کر کے خوش ہوتے ہیں، ہم اس کی باتوں کے مطلب لے لے کر خوش ہوتے ہیں۔ ہم جگہ جگہ پر سوچتے ہیں، کہ اس نے یہ کیا ہے، تو اس کا یہ مطلب ہے، وہ فیوچر میں ایسا ہسبنڈ ثابت ہو گا۔ 

زندگی کا یہ دور مجھ سے بہت اوجھل تھا۔ مجھے پتہ ہی نہیں تھا، کہ داماد کا رشتہ بھی دنیا کے خوبصورت ترین رشتوں میں سے ہے۔ 

اس کے بڑے بھائی کا ایکسیڈنٹ ہو گیا اور وہ دو دن سے ہسپتال میں تھا۔ آنے جانے والوں کو ڈیل کرنا، اور ڈاکٹروں سے بات چیت رکھنا سب اسی کی ذمہ داری تھی۔ میں اور میری بیوی ہسپتال پہنچے، تو وہ ہمیں لینے ہسپتال کے گیٹ تک آیا۔ تھکن اور نیند کی کمی اس کے چہرے سے عیاں تھی، لیکن چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ ہمیں بہت پیار آیا۔ ہم جتنی دیر بھی مریض کے بیڈ پر بیٹھے رہے، وہ ہمارے پاس بیٹھا رہا۔ 

چھوٹی چھوٹی سی خوبصورت باتیں۔ زندگی کے نئے سفر، نئے دور کے نئے تقاضے۔ نئے رشتوں کی خوشی، نئے رشتوں کا احترام۔ پتہ نہیں کیا کچھ تھا اس تھوڑی دیر کی سٹنگ میں۔ ویسے تو ہم مریض کی عیادت کو آئے تھے، لیکن ہمارے بلال کا بیٹھنا اٹھنا اتنا خوبصورت تھا، کہ ہم اسی میں مگن ہو گئے۔ 

مجھے زندگی کی یہ چھوٹی چھوٹی خوشیاں بہت اٹریکٹ کرتی ہیں۔ اصل میں یہ بہت بڑی بڑی خوشیاں ہوتی ہیں۔ رشتوں کے بننے اور لوگوں کے قریب آنے کا پروسس بہت خوبصورت ہوتا ہے۔ کیسے تھوڑی تھوڑی سی انڈرسٹینڈنگ پیدا ہو رہی ہوتی ہے، کیسے تھوڑا تھوڑا سا ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہوتے ہیں ہم لوگ۔ 

میری بیوی کہتی ہے ”بلال مجھے چائے پلا دو کسی طرح، بہت لمبا سفر تھا فیصل آباد کا۔ عید کا رش اور سواریوں کا ہجوم، میں نے کبھی زندگی میں اتنا تھکا دینے والا سفر نہیں کیا“۔

بلال ہنسنے لگا۔ ”اچھا باجی میں آپ کے لئے چائے لاتا ہوں۔ بھائی جان کا تو روزہ ہے شائد“۔ 

بلال چائے لینے چلا گیا۔ ساتھ ایک پراٹھا بھی بنوا لایا۔ ہم تھوڑی دیر کے لئے کینٹین کے سائے میں جا بیٹھے۔ کیسے خوبصورت لمحے تھے۔ میں سوچ رہا تھا، یہ لڑکا میری زارا کی زندگی کے دکھ سکھ کا ساتھی بننے والا ہے۔ مجھے اس پر اور بھی پیار آنے لگا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مجھے اپنی ساس کی بہت سی باتیں یاد آتی ہیں۔ سادہ سی خاتون تھیں، لیکن بہت عقل کی باتیں کرتی تھیں۔ کہتی تھیں، بیٹیاں دے کر بیٹے لیتے ہیں ماں باپ۔ داماد بیٹے ہی ہوتے ہیں۔ مجھے ان کی اس بات میں رائی برابر بھی شک محسوس نہیں ہوتا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں ہاسپٹل کی مسجد میں نماز پڑھنے چلا گیا۔ واپس آیا تو میری بیوی کہتی ہے، بھائی جان کے ہاں چلتے ہیں۔ میں اٹھ کھڑا ہوا۔ 

بلال کہتا ہے، آپ بیٹھیں میں اوبر کرواتا ہوں۔ 

میں نے اسے لپٹ لپٹ کر گلے لگایا، یار کوئی بات نہیں، یہ ہاسپٹل کے گیٹ سے رکشہ مل جائے گا، میں چلا جاؤں گا۔

”نہیں بھائی جان، میں اوبر کروا دیتا ہوں“۔ 

اس کے کہنے میں ایسی خوبصورتی تھی، کہ میں انکار نہ کر سکا۔ مجھے ڈر تھا، میں اس سارے خوبصورت منظر کو خراب نہ کر دوں۔ ابھی تک ایک ایک لمحہ خوبصورت تھا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بلال نے نہ صرف اوبر کروائی، بلکہ اس کا کرایہ بھی دیا۔ 

”یار بلال، میری بات سن، یار۔۔۔۔۔“

”بھائی جان کوئی بات نہیں“ وہ ہنسنے لگا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گاڑی میں بیٹھے ہوئے میں نے اپنی بیوی سے کہا، یار میں اسے روک نہیں سکا۔ ٹھیک ہے۔ کوئی فرق نہیں پڑتا۔ 

”ویسے آپ بھی امی کو اسی طرح رکشہ کروا کر دیتے تھے۔ کرایہ بھی دیتے تھے۔ امی نے گھر آ کر کہنا، اور ہم لوگوں نے حیران ہونا۔ اللہ نے آپ کو بھی آپ جیسا ہی داماد دیا ہے“ میری بیوی نے مسکرا کر پچیس سال پہلے کی کوئی بات دہرائی۔ 

میں اپنی بیوی کی یادداشت پر حیران تھا۔ میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا، کہ میں نے ایسا کیا ہو گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ویسے دیکھا جائے تو یہی کمائی ہوتی ہے انسان کی۔ ایسی ہی کوئی یادیں، جو کبھی اپنے ذہن میں اور کبھی کسی دوسرے کے ذہن میں محفوظ ملتی ہیں۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دو دن ہو گئے ہیں اس بات کو، لیکن بلال کی باتیں، اس کے قریب بیٹھنے کی فیلنگز، اس کے نئے نئے سے، جھجک جھجک سے بھرے رویے، سب کچھ کتنی ہی بار یاد کر چکے ہیں ہم۔ زارا سارا اور حسن کتنی ہی بار پوچھ چکے ہیں یہ سب، اور کتنی ہی بار اس کی مختلف انٹرپریٹیشنز کر چکے ہیں، لیکن ابھی تک ان باتوں اور رویوں کی خوشبو ویسی کی ویسی محسوس ہو رہی ہے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بات دراصل یہ ہے کہ انسان کا اپنی بیوی سے رشتہ، اپنے سسرال سے رشتہ، اپنی بہو سے، اپنے داماد سے رشتہ، اپنے بچوں کے سسرال سے رشتہ، یہ سب رشتے شائد بہن بھائیوں،  بیٹے بیٹیوں ، اور والدین کے رشتوں سے بھی خوبصورت  ہوتے ہیں، یا زیادہ نہیں تو ان جیسے ہی خوبصورت  ہوتے  ہیں۔ بس کبھی انسان اس اینگل سے دیکھ لے ایک بار۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

اللہ تعالیٰ ہمارے رشتوں میں محبت اور خوبصورتی عطا فرمائے۔ آمین۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ

 


افطاری ٹائم ہی ہمارا فیملی ٹائم بن چکا ہے۔

 

آج کل افطاری ٹائم ہی ہمارا فیملی ٹائم بن چکا ہے۔ بچے اپنے اپنے کالجوں، یونیورسٹیوں سے آ کر سو جاتے ہیں، میں بھی سکولسے آ کر نیچے ہی رہتا ہوں۔ بس آوازیں سنتا ہوں اپنی بیوی اور کسی اور بچے کی، کسی اور بچے کو بلانے کی، افطاری کا وقت قریب ہو رہا ہے، جلدی کرو، وغیرہ وغیرہ۔
میرے لئے اتنا ہی کافی ہے۔ بچے بڑے ہو جائیں، تو ان کے ساتھ ایڈجسٹ کرنے کا ایک نیا دور شروع ہو جاتا ہے۔ ان کی اپنی مصروفیتیں، اپنی دلچسپیاں اپنی پریشانیاں ہوتی ہیں۔ انہیں اپنے کارنر کی ضرورت ہوتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہرحال ہم افطاری پر اکٹھے تھے، اور زارا کی اینگیجمنٹ ڈسکس کر رہے تھے۔ آجکل ہمارے سارے ٹاپکس سمٹ کر زارا کی اینگیجمنت تک آ گئے ہیں۔ بس اسی کی باتیں ہوتی رہتی ہیں۔ مجھے اچھا لگتا ہے، میں ساری زندگی اس وقت کا انتظار کرتا رہا ہوں، جب ماں باپ بچوں کی شادی شروع کرتے ہیں، ہلکی ہلکی باتیں ہوتی ہیں، پھر کسی جگہ آنا جانا ہونے لگتا ہے، اور پھر اینگیجمنٹ ہو جاتی ہے۔
میری کوشش ہوتی ہے بچوں کو سنوں، ان کی ایک دوسرے سے نوک جھونک سنوں۔ ہم زارا کے سسرال سے ہو آئے ہیں دو تین بار۔ وہ بھی ہو کر گئے ہیں ہمارے ہاں سے۔ محبتوں کا ایک خوبصورت سفر شروع ہے۔ مجھ ے بہت اچھے لگتے ہیں زارا کے سسرال والے، اس کا ہونے والا ہسبنڈ۔ پتہ نہیں کہاں سے محبت بھر گئی ہے دل میں۔ میری بیوی تو اس کی بلائیں لیتی نہیں تھکتی۔ زندگی میں پہلی بار مجھے محسوس ہوا ہے کہ حسن کے علاوہ بھی اسے کوئی نظر آ سکتا ہے۔
بچے اسے چھیڑتے ہیں، کہ ماما ایسے بات کرتی ہے، جیسے زارا کے ہسبنڈ کو ڈھونڈا نہیں، چنا نہیں، بنایا ہو ماما نے۔ ہر ایک کو اپنے مطابق سوچنے کا کہتی رہتی ہیں۔
زارا کنسویاں لیتی رہتی ہے۔ ہم ایک چیز پر سٹرکٹ ہیں، کہ لڑکے لڑکی کی بات نہیں ہو گی شادی سے پہلے۔ مجھے اپنا داماد بہت اچھا لگتا ہے۔ بہت شریف انسان ہے۔ ہم نے دیکھی ہی شرافت ہے، دیکھا ہی کردار ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہرحال شام کی افطاری پر حسن ہنس رہا تھا:
”زارا پاپا نے سسٹم کریک کر لیا ہے۔ پاپا دو سو روپے میں فروٹ چاٹ کا سامان لے آئے ہیں۔ زارا لوگ ایک ہی شکوہ شکایت کرتے ہیں، کہ ہزار روپے بھی کم ہیں فروٹ چاٹ کے لئے۔ ہم دو سو روپے میں اچھا خاصہ انجوائے کر رہے ہیں ، پانچ لوگ“۔
”اس دن پاپا ڈیڑھ سو میں لے آئے تھے۔ اور مزے کی بات یہ ہے، کہ پاپا نے میرے ساتھ ہونے کی بھی پرواہ نہیں کی۔ ایک ریڑھی پر کھڑے ہو کر کہتے ہیں، ڈیڑھ سو روپے ہی ہیں میرے پاس، ایک سیب، ایک امرود، ایک خربوزہ، کچھ سٹرابری اور دو چار کیلے دے دو۔ ڈیڑھ سو میں آ ہی جائے گا یہ سب کچھ۔ اس دن بھی ہم سب نے کھا لیا تھا“ زارا نے کھل کر کہا ۔
”اور ماما کی کرڈ ڈالنے والی ٹیکنیک“ سارا مسکرائی ۔
”پاپا اس ریڑھی والے کو کہیں سو سو ڈیڑھ ڈیڑھ سو روپے کے پیکٹ بنا کر رکھ لے، لوگ ہنستے ہنستے لے جائیں گے“ حسن ہنسا۔
”ساتھ ایک چھوٹی سی دہی بھی ڈال دے پیکٹ میں“ میری بیوی نے قہقہہ لگایا۔
”یار بھائی، زارا تو ایسے ہی شرمندہ ہو رہی تھی، اس میں شرم کی کون سی بات ہے “۔ میں نے کھسیانی سی ہنسی ہنستے کہا۔
”نہیں شرم کی کوئی بات نہیں“ زارا میری طرف دیکھ کر مسکرائی۔ ”بھائی میں نے پاپا کو میڈیکل سٹور میں جانے سے روکا۔ میں پاپا کو باہر کھڑا کر کے خود اندر گئی، اور ایک منٹ بھی نہیں لگا ہو گا باہر آنے میں، اور میں نے دیکھا پاپا ریڑھی سے فروٹ چاٹ کا سامان بنوا رہے ہیں“۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت ہی خوبصورت وقت تھا افطاری کا ۔ پلیٹوں اور چمچوں کی چم چم تھی ، اور قہقہے ، اور ہنسی ، اور مسکراہٹیں ۔ میں نے تو دو تین چمچ فروٹ چاٹ بچا لئے تھے ، کہ کھانا کھا کر آخری نوالہ انہی کا لوں گا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہرحال، ہم کافی دیر تک اس موضوع پر بات کرتے رہے، کہ مہنگائی کے دور میں بھی کوئی نہ کوئی راستہ نکل ہی آتا ہے سرواؤل کا۔ زارا کی اینگیجمنٹ کا موضوع بھی خوب چلا۔ اور مغرب سے عشاء تک کا سارا وقت بس قہقہے تھے، اور مسکراہٹیں اور مذاق۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فیملی ایسی ہی ہوتی ہے۔ لاکھ اختلافات ہوں، لاکھ مسائل ہوں، ہنسنا نہیں بھولنا چاہئے۔ مذاق نہیں ختم ہونا چاہئے۔ دوسروں کے پوزیٹو پہلو دیکھیں۔ جو بات کسی کو بری لگنے کا اندیشہ ہو، مت کہیں۔ کبھی اپنے گھر کے کسی ممبر کو سبق سکھانے کی کوشش نہ کریں۔ کبھی کوئی بدلہ نہ لیں۔
میں کہتا ہوں، زارا زندگی میں ایک کام کرنا، نہ خود کرنا، نہ سننا، اپنے سسرال کے شہر کے بارے میں بھی کوئی بات نیگیٹو نہ سوچنا، منہ سے بولنا تو بہت دور کی بات ہے۔ میں اپنی ساری زندگی کا نچوڑ بتا رہا ہوں۔
میں نے خود بھی تہیہ کر رکھا ہے ، اور بچوں کو بھی یہی سکھا رہا ہوں ، بس ہر وقت ان کی تعریف کرنی ہے، ان سے محبت رکھنی ہے۔ ان کی اچھی باتیں دیکھنی ہیں ۔ آپ کو اور کچھ نظر ہی نہیں آئے گا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ ہمارے خاندانوں میں خوشیاں اور خوبصورتیاں عطا فرمائے، آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: حاوی شاہ
h and 3 others