آج کل افطاری ٹائم ہی ہمارا فیملی ٹائم بن چکا ہے۔ بچے اپنے اپنے کالجوں، یونیورسٹیوں سے آ کر سو جاتے ہیں، میں بھی سکولسے آ کر نیچے ہی رہتا ہوں۔ بس آوازیں سنتا ہوں اپنی بیوی اور کسی اور بچے کی، کسی اور بچے کو بلانے کی، افطاری کا وقت قریب ہو رہا ہے، جلدی کرو، وغیرہ وغیرہ۔
میرے لئے اتنا ہی کافی ہے۔ بچے بڑے ہو جائیں، تو ان کے ساتھ ایڈجسٹ کرنے کا ایک نیا دور شروع ہو جاتا ہے۔ ان کی اپنی مصروفیتیں، اپنی دلچسپیاں اپنی پریشانیاں ہوتی ہیں۔ انہیں اپنے کارنر کی ضرورت ہوتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہرحال ہم افطاری پر اکٹھے تھے، اور زارا کی اینگیجمنٹ ڈسکس کر رہے تھے۔ آجکل ہمارے سارے ٹاپکس سمٹ کر زارا کی اینگیجمنت تک آ گئے ہیں۔ بس اسی کی باتیں ہوتی رہتی ہیں۔ مجھے اچھا لگتا ہے، میں ساری زندگی اس وقت کا انتظار کرتا رہا ہوں، جب ماں باپ بچوں کی شادی شروع کرتے ہیں، ہلکی ہلکی باتیں ہوتی ہیں، پھر کسی جگہ آنا جانا ہونے لگتا ہے، اور پھر اینگیجمنٹ ہو جاتی ہے۔
میری کوشش ہوتی ہے بچوں کو سنوں، ان کی ایک دوسرے سے نوک جھونک سنوں۔ ہم زارا کے سسرال سے ہو آئے ہیں دو تین بار۔ وہ بھی ہو کر گئے ہیں ہمارے ہاں سے۔ محبتوں کا ایک خوبصورت سفر شروع ہے۔ مجھ ے بہت اچھے لگتے ہیں زارا کے سسرال والے، اس کا ہونے والا ہسبنڈ۔ پتہ نہیں کہاں سے محبت بھر گئی ہے دل میں۔ میری بیوی تو اس کی بلائیں لیتی نہیں تھکتی۔ زندگی میں پہلی بار مجھے محسوس ہوا ہے کہ حسن کے علاوہ بھی اسے کوئی نظر آ سکتا ہے۔
بچے اسے چھیڑتے ہیں، کہ ماما ایسے بات کرتی ہے، جیسے زارا کے ہسبنڈ کو ڈھونڈا نہیں، چنا نہیں، بنایا ہو ماما نے۔ ہر ایک کو اپنے مطابق سوچنے کا کہتی رہتی ہیں۔
زارا کنسویاں لیتی رہتی ہے۔ ہم ایک چیز پر سٹرکٹ ہیں، کہ لڑکے لڑکی کی بات نہیں ہو گی شادی سے پہلے۔ مجھے اپنا داماد بہت اچھا لگتا ہے۔ بہت شریف انسان ہے۔ ہم نے دیکھی ہی شرافت ہے، دیکھا ہی کردار ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہرحال شام کی افطاری پر حسن ہنس رہا تھا:
”زارا پاپا نے سسٹم کریک کر لیا ہے۔ پاپا دو سو روپے میں فروٹ چاٹ کا سامان لے آئے ہیں۔ زارا لوگ ایک ہی شکوہ شکایت کرتے ہیں، کہ ہزار روپے بھی کم ہیں فروٹ چاٹ کے لئے۔ ہم دو سو روپے میں اچھا خاصہ انجوائے کر رہے ہیں ، پانچ لوگ“۔
”اس دن پاپا ڈیڑھ سو میں لے آئے تھے۔ اور مزے کی بات یہ ہے، کہ پاپا نے میرے ساتھ ہونے کی بھی پرواہ نہیں کی۔ ایک ریڑھی پر کھڑے ہو کر کہتے ہیں، ڈیڑھ سو روپے ہی ہیں میرے پاس، ایک سیب، ایک امرود، ایک خربوزہ، کچھ سٹرابری اور دو چار کیلے دے دو۔ ڈیڑھ سو میں آ ہی جائے گا یہ سب کچھ۔ اس دن بھی ہم سب نے کھا لیا تھا“ زارا نے کھل کر کہا ۔
”اور ماما کی کرڈ ڈالنے والی ٹیکنیک“ سارا مسکرائی ۔
”پاپا اس ریڑھی والے کو کہیں سو سو ڈیڑھ ڈیڑھ سو روپے کے پیکٹ بنا کر رکھ لے، لوگ ہنستے ہنستے لے جائیں گے“ حسن ہنسا۔
”ساتھ ایک چھوٹی سی دہی بھی ڈال دے پیکٹ میں“ میری بیوی نے قہقہہ لگایا۔
”یار بھائی، زارا تو ایسے ہی شرمندہ ہو رہی تھی، اس میں شرم کی کون سی بات ہے “۔ میں نے کھسیانی سی ہنسی ہنستے کہا۔
”نہیں شرم کی کوئی بات نہیں“ زارا میری طرف دیکھ کر مسکرائی۔ ”بھائی میں نے پاپا کو میڈیکل سٹور میں جانے سے روکا۔ میں پاپا کو باہر کھڑا کر کے خود اندر گئی، اور ایک منٹ بھی نہیں لگا ہو گا باہر آنے میں، اور میں نے دیکھا پاپا ریڑھی سے فروٹ چاٹ کا سامان بنوا رہے ہیں“۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت ہی خوبصورت وقت تھا افطاری کا ۔ پلیٹوں اور چمچوں کی چم چم تھی ، اور قہقہے ، اور ہنسی ، اور مسکراہٹیں ۔ میں نے تو دو تین چمچ فروٹ چاٹ بچا لئے تھے ، کہ کھانا کھا کر آخری نوالہ انہی کا لوں گا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہرحال، ہم کافی دیر تک اس موضوع پر بات کرتے رہے، کہ مہنگائی کے دور میں بھی کوئی نہ کوئی راستہ نکل ہی آتا ہے سرواؤل کا۔ زارا کی اینگیجمنٹ کا موضوع بھی خوب چلا۔ اور مغرب سے عشاء تک کا سارا وقت بس قہقہے تھے، اور مسکراہٹیں اور مذاق۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فیملی ایسی ہی ہوتی ہے۔ لاکھ اختلافات ہوں، لاکھ مسائل ہوں، ہنسنا نہیں بھولنا چاہئے۔ مذاق نہیں ختم ہونا چاہئے۔ دوسروں کے پوزیٹو پہلو دیکھیں۔ جو بات کسی کو بری لگنے کا اندیشہ ہو، مت کہیں۔ کبھی اپنے گھر کے کسی ممبر کو سبق سکھانے کی کوشش نہ کریں۔ کبھی کوئی بدلہ نہ لیں۔
میں کہتا ہوں، زارا زندگی میں ایک کام کرنا، نہ خود کرنا، نہ سننا، اپنے سسرال کے شہر کے بارے میں بھی کوئی بات نیگیٹو نہ سوچنا، منہ سے بولنا تو بہت دور کی بات ہے۔ میں اپنی ساری زندگی کا نچوڑ بتا رہا ہوں۔
میں نے خود بھی تہیہ کر رکھا ہے ، اور بچوں کو بھی یہی سکھا رہا ہوں ، بس ہر وقت ان کی تعریف کرنی ہے، ان سے محبت رکھنی ہے۔ ان کی اچھی باتیں دیکھنی ہیں ۔ آپ کو اور کچھ نظر ہی نہیں آئے گا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ ہمارے خاندانوں میں خوشیاں اور خوبصورتیاں عطا فرمائے، آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: حاوی شاہ
No comments:
Post a Comment