Image 1 Image 2 Image 3 Image 4
Pyara Islam
Showing posts with label پیرنٹنگ ، پرورش. Show all posts
Showing posts with label پیرنٹنگ ، پرورش. Show all posts

زندگی کے کئی ایک لمحے بہت خوبصورت ہوتے ہیں


 زندگی کے کئی ایک لمحے بہت خوبصورت ہوتے ہیں۔ بندہ بار بار سوچے، تو بار بار وہی فرحت اور وہی تازگی محسوس ہوتی ہے۔ 

ابھی زارا کی شادی نہیں ہوئی، ابھی منگنی بھی نہیں ہوئی، لیکن میں اور میری بیوی اس کے منگیتر کو اپنا بیٹا ہی سمجھنے لگے ہیں۔ شائد اس کی پرسنیلٹی ہے، یا شائد میری اور میری بیوی کی پوزیٹو سائڈ دیکھنے کی صلاحیت ہے، کہ ہمیں اس کا سوچ کر ہی محبت محسوس ہونے لگتی ہے۔ ہم اس کی باتیں کر کر کے خوش ہوتے ہیں، ہم اس کی باتوں کے مطلب لے لے کر خوش ہوتے ہیں۔ ہم جگہ جگہ پر سوچتے ہیں، کہ اس نے یہ کیا ہے، تو اس کا یہ مطلب ہے، وہ فیوچر میں ایسا ہسبنڈ ثابت ہو گا۔ 

زندگی کا یہ دور مجھ سے بہت اوجھل تھا۔ مجھے پتہ ہی نہیں تھا، کہ داماد کا رشتہ بھی دنیا کے خوبصورت ترین رشتوں میں سے ہے۔ 

اس کے بڑے بھائی کا ایکسیڈنٹ ہو گیا اور وہ دو دن سے ہسپتال میں تھا۔ آنے جانے والوں کو ڈیل کرنا، اور ڈاکٹروں سے بات چیت رکھنا سب اسی کی ذمہ داری تھی۔ میں اور میری بیوی ہسپتال پہنچے، تو وہ ہمیں لینے ہسپتال کے گیٹ تک آیا۔ تھکن اور نیند کی کمی اس کے چہرے سے عیاں تھی، لیکن چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ ہمیں بہت پیار آیا۔ ہم جتنی دیر بھی مریض کے بیڈ پر بیٹھے رہے، وہ ہمارے پاس بیٹھا رہا۔ 

چھوٹی چھوٹی سی خوبصورت باتیں۔ زندگی کے نئے سفر، نئے دور کے نئے تقاضے۔ نئے رشتوں کی خوشی، نئے رشتوں کا احترام۔ پتہ نہیں کیا کچھ تھا اس تھوڑی دیر کی سٹنگ میں۔ ویسے تو ہم مریض کی عیادت کو آئے تھے، لیکن ہمارے بلال کا بیٹھنا اٹھنا اتنا خوبصورت تھا، کہ ہم اسی میں مگن ہو گئے۔ 

مجھے زندگی کی یہ چھوٹی چھوٹی خوشیاں بہت اٹریکٹ کرتی ہیں۔ اصل میں یہ بہت بڑی بڑی خوشیاں ہوتی ہیں۔ رشتوں کے بننے اور لوگوں کے قریب آنے کا پروسس بہت خوبصورت ہوتا ہے۔ کیسے تھوڑی تھوڑی سی انڈرسٹینڈنگ پیدا ہو رہی ہوتی ہے، کیسے تھوڑا تھوڑا سا ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہوتے ہیں ہم لوگ۔ 

میری بیوی کہتی ہے ”بلال مجھے چائے پلا دو کسی طرح، بہت لمبا سفر تھا فیصل آباد کا۔ عید کا رش اور سواریوں کا ہجوم، میں نے کبھی زندگی میں اتنا تھکا دینے والا سفر نہیں کیا“۔

بلال ہنسنے لگا۔ ”اچھا باجی میں آپ کے لئے چائے لاتا ہوں۔ بھائی جان کا تو روزہ ہے شائد“۔ 

بلال چائے لینے چلا گیا۔ ساتھ ایک پراٹھا بھی بنوا لایا۔ ہم تھوڑی دیر کے لئے کینٹین کے سائے میں جا بیٹھے۔ کیسے خوبصورت لمحے تھے۔ میں سوچ رہا تھا، یہ لڑکا میری زارا کی زندگی کے دکھ سکھ کا ساتھی بننے والا ہے۔ مجھے اس پر اور بھی پیار آنے لگا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مجھے اپنی ساس کی بہت سی باتیں یاد آتی ہیں۔ سادہ سی خاتون تھیں، لیکن بہت عقل کی باتیں کرتی تھیں۔ کہتی تھیں، بیٹیاں دے کر بیٹے لیتے ہیں ماں باپ۔ داماد بیٹے ہی ہوتے ہیں۔ مجھے ان کی اس بات میں رائی برابر بھی شک محسوس نہیں ہوتا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں ہاسپٹل کی مسجد میں نماز پڑھنے چلا گیا۔ واپس آیا تو میری بیوی کہتی ہے، بھائی جان کے ہاں چلتے ہیں۔ میں اٹھ کھڑا ہوا۔ 

بلال کہتا ہے، آپ بیٹھیں میں اوبر کرواتا ہوں۔ 

میں نے اسے لپٹ لپٹ کر گلے لگایا، یار کوئی بات نہیں، یہ ہاسپٹل کے گیٹ سے رکشہ مل جائے گا، میں چلا جاؤں گا۔

”نہیں بھائی جان، میں اوبر کروا دیتا ہوں“۔ 

اس کے کہنے میں ایسی خوبصورتی تھی، کہ میں انکار نہ کر سکا۔ مجھے ڈر تھا، میں اس سارے خوبصورت منظر کو خراب نہ کر دوں۔ ابھی تک ایک ایک لمحہ خوبصورت تھا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بلال نے نہ صرف اوبر کروائی، بلکہ اس کا کرایہ بھی دیا۔ 

”یار بلال، میری بات سن، یار۔۔۔۔۔“

”بھائی جان کوئی بات نہیں“ وہ ہنسنے لگا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گاڑی میں بیٹھے ہوئے میں نے اپنی بیوی سے کہا، یار میں اسے روک نہیں سکا۔ ٹھیک ہے۔ کوئی فرق نہیں پڑتا۔ 

”ویسے آپ بھی امی کو اسی طرح رکشہ کروا کر دیتے تھے۔ کرایہ بھی دیتے تھے۔ امی نے گھر آ کر کہنا، اور ہم لوگوں نے حیران ہونا۔ اللہ نے آپ کو بھی آپ جیسا ہی داماد دیا ہے“ میری بیوی نے مسکرا کر پچیس سال پہلے کی کوئی بات دہرائی۔ 

میں اپنی بیوی کی یادداشت پر حیران تھا۔ میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا، کہ میں نے ایسا کیا ہو گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ویسے دیکھا جائے تو یہی کمائی ہوتی ہے انسان کی۔ ایسی ہی کوئی یادیں، جو کبھی اپنے ذہن میں اور کبھی کسی دوسرے کے ذہن میں محفوظ ملتی ہیں۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دو دن ہو گئے ہیں اس بات کو، لیکن بلال کی باتیں، اس کے قریب بیٹھنے کی فیلنگز، اس کے نئے نئے سے، جھجک جھجک سے بھرے رویے، سب کچھ کتنی ہی بار یاد کر چکے ہیں ہم۔ زارا سارا اور حسن کتنی ہی بار پوچھ چکے ہیں یہ سب، اور کتنی ہی بار اس کی مختلف انٹرپریٹیشنز کر چکے ہیں، لیکن ابھی تک ان باتوں اور رویوں کی خوشبو ویسی کی ویسی محسوس ہو رہی ہے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بات دراصل یہ ہے کہ انسان کا اپنی بیوی سے رشتہ، اپنے سسرال سے رشتہ، اپنی بہو سے، اپنے داماد سے رشتہ، اپنے بچوں کے سسرال سے رشتہ، یہ سب رشتے شائد بہن بھائیوں،  بیٹے بیٹیوں ، اور والدین کے رشتوں سے بھی خوبصورت  ہوتے ہیں، یا زیادہ نہیں تو ان جیسے ہی خوبصورت  ہوتے  ہیں۔ بس کبھی انسان اس اینگل سے دیکھ لے ایک بار۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

اللہ تعالیٰ ہمارے رشتوں میں محبت اور خوبصورتی عطا فرمائے۔ آمین۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ

 


میں نے کبھی کہا تھا

 

میں نے کبھی کہا تھا، کہ ”بچوں کو پوزیٹو تھنکنگ دے دو، سائنٹیفک تھنکنک دے، سپرچؤل تھنکنگ دے دو، سمجھ لو آپ نے ان کو زندگی دے دی۔ ہم بہیو کرنا سکھاتے ہیں، ہمیں سوچنا سکھانے کی ضرورت ہے، دیکھنا اور محسوس کرنا سکھانے کی ضرورت ہے۔ یہ بھی چیزیں سیکھتا ہے انسان۔۔۔۔۔“

آج میرے ایک کولیگ دوبارہ سننا چاہ رہے تھے یہ سب۔ مجھے بھول چکا تھا، لیکن انہوں نے یاد دلایا، کہ میں نے ایسا کچھ کہا تھا۔ میں نے پھر سے کہنا شروع کر دیا۔

”یار وقت بدل چکا ہے، وقت کی ضرورت نہیں رہی، کہ ہم اپنے پڑھنے والوں کو دکھی کرنے، اور چونکا دینے والی چیزیں دیتے رہیں۔ 

جب تک لکھنے والے، غصے، اور نفرت اور غم وغیرہ میں لکھتے رہیں گے، لوگوں میں یہی چیزیں پھیلتی رہیں گی، یہی سب کچھ پروموٹ ہوتا رہے گا۔ ضرورت اس بات کی ہے، کہ لکھنے والا اپنے تخلیقی عمل کو، خوشی، اور سائنسی طرز فکر کے ساتھ منسلک کرے۔ وہ اس وقت لکھے جب اس کا دماغ خوش ہو، اللہ تعالیٰ کی محبت میں سرشار ہو، تحقیق اور جستجو محسوس کر رہا ہو۔ 

میں ایک مثال دیتا ہوں۔ ایک سولہ سال کا بچہ ہے، وہ ایک مووی دیکھتا ہے، جس میں ہیرو انٹرویو دینے جا رہا ہے۔ اب جب یہ بچہ بڑا ہو گا، اور کہیں انٹرویو دینے جائے گا، تو اسی ہیرو کی طرح بہیو کرے گا۔ 

بات یہ نہیں کہ برائی ہے یا نہیں ہے۔ بات یہ ہے کہ جب آپ کوئی بری چیز دیکھتے یا نوٹ کرتے ہیں، اور اسے رپورٹ کرتے ہیں، تو آپ بری اور ناپسندیدہ چیزیں دیکھنا اور نوٹ کرنا سکھاتے ہیں۔ آپ کہتے ہیں، پڑھنے والا برائی سے آگاہ ہو گا، تو اسے روکنے کی کوشش کرے گا، آپ یہ نہیں دیکھتے، کہ پڑھنے والا اسی کرب سے گزرے گا، اسی تکلیف اور نفرت سے گزرے گا، جس سے آپ گزرے ہیں۔ وہ آپ کی طرح سوچنا اور محسوس کرنا سیکھ لے گا۔ آپ نے ایک برائی کا ذکر کیا ہے، وہ اپنے ارد گرد دس برائیاں دیکھ لے گا۔ آپ نے اسے برائی دیکھنا اور برا محسوس کرنا سکھا دیا ہے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہم کہتے ہیں، ٹیچر کلاس میں جا کر پوزیٹو باتیں کرے۔ یہ ٹھیک ہے۔ نہ ہونے سے بہتر ہے۔ لیکن بات اس وقت بنتی ہے، جب ٹیچر کے دماغ میں نیگیٹوٹی ہو ہی نہیں۔ اسے نیگیٹوٹی پر یقین ہی نہ ہو۔ بچے تو ہمارے شعور سے، ہمارے باطن سے کمیونیکیٹ کرتے ہیں۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ٹیچر کو پوزیٹو مائنڈ سیٹ دینا ایڈمنسٹریشن کی ذمہ داری ہے۔“ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہمیں پوزیٹو سوچ اور احساس کی آگہی عطا فرمائے، آمین۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ


پتہ نہیں یہ کون سا جذبہ ہوتا ہے ،


 پتہ نہیں یہ کون سا جذبہ ہوتا ہے، جو ہم اپنے بچوں کو کچھ بنانے کا سوچنے لگتے ہیں، انہیں کوئی مقام دلانے کا سوچنے لگتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کو بہت عجیب لگتا ہے، بہت سے لوگ اپنی اولاد کو اپنے سے اوپر، اپنے سے آگے، اپنے سے بڑا نہیں ہونے دیتے۔ لیکن میرا تو مطلب ہی یہی تھا، میں تو کہتا ہی یہ رہا ہوں، کہ مجھ سے زیادہ پڑھ جاؤ، مجھ سے زیادہ بہتر انسان بن جاؤ۔

میں بچوں سے کہا کرتا تھا، کہ میرے لئے وہ دن بہت تکلیف کا دن ہو گا، جب آپ مجھ سے چھوٹی جاب کرو گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں زندگی میں کبھی کوئی انعام، کبھی کوئی کمپیٹیشن نہیں جیت سکا۔ آج میرے بیٹے نے گولڈ میڈل جیت کر میرے گلے میں ڈالا تو ایک لمحے کے لئے، میں بھونچکا سا گیا۔ ہمارے درمیان کبھی ایسی بات نہیں ہوئی تھی، کہ وہ گولڈ میڈل لے کر بھاگتا ہوا آئے گا اور میرے گلے میں ڈال دے گا۔ سچ پوچھیں تو میں کافی دیر بے حس و حرکت کھڑا رہا۔ میرے ساتھ بیٹھی ہوئی کسی مدر نے مجھے مبارکبار دی، تو میں اپنے آپ میں آیا۔ میرا بیٹا بھاگتا ہوا واپس سٹیج پر جا بیٹھا تھا۔ اور میں بار بار گولڈ میڈل چھو رہا تھا، جیسے دیکھ رہا ہوں، کہ واقعی یہ سب سچ ہے۔
مجھ سے اور کچھ نہ ہوا تو میں نے گولڈ میڈل پہنے پہنے ایک تصویر لے لی اپنی۔ میں نے زندگی میں کبھی کوئی پوزیشن نہیں لی، لیکن میرے بیٹے نے یونیورسٹی میں ٹاپ کر کے گولڈ میڈل لیا جیت لیا، اور یہ میری ہی جیت تھی۔ میں اسے اپنی ہی جیت سمجھ رہا تھا۔
حسن نے نہ صرف پانچ سال سکالرشپ مینٹین رکھی ، بلکہ ٹاپ بھی کیا ، ہائیسٹ سی جی پی اے بھی لیا ۔
حسن کو ڈاکٹر آف فارمیسی کی ڈکری ملی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج یونیورسٹی آف سینٹرل پنجاب میں ایوارڈ سیرمنی تھی۔ انہوں نے بچوں کو گریجوایٹس ڈگریز دینی تھیں۔ صرف ایک پیرنٹ الاؤڈ تھا۔ میں نے اپنی بیوی کی بڑی منتیں کیں، کہ تم چلی جاؤ، لیکن وہ بضد رہی، کہ میں ہی جاؤں۔ میری فیملی جتنی بھی ہے، میں بہرحال فیملی میں ہی انجوائے کرتا ہوں۔ مجھے کوئی خوشی اکیلے انجوائے کرنا اچھا نہیں لگتا۔ لیکن میں یہ نہیں کرنا چاہتا تھا، کہ ہم دونوں ہی نہ جائیں، اور حسن اکیلا چلا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج صبح ہم تیار ہو کر نکل گئے۔ میں نے سوچا، چلو بارہ ایک بجے تک بوریت برداشت کر کے آ جاؤں گا۔ حسن کا دل برا نہیں ہو گا۔ میرا خیال تھا، حسن اپنے کام میں لگ جائے گا، دوستوں میں بزی ہو جائے گا، اور میں بیٹھا رہوں گا، ادھر ادھر۔
لیکن مجھے بڑی حیرانی ہوئی، کہ حسن نے ایک لمحہ بھی میرا ساتھ نہیں چھوڑا۔ کلاس رپ اور مختلف سوسائٹیز کا پریزیڈنٹ ہونے کی وجہ سے، اس کی کافی علیک سلیک تھی، ہر دوسرے لمحے اسے کوئی نہ کوئی آ گھیرتا۔ لیکن اس نے ایک لمحے بھی مجھے اکیلا نہ چھوڑا، ہر ایک سے میرا تعارف بھی کروایا۔
مجھے بڑا اچھا لگ رہا تھا، یہ سب کچھ۔ بچے آپ کو اپنے فرینڈز اور کولیگز کے سامنے اون کر لیں، اور کسی قسم کی کوئی انسٹرکشن یا، ایڈوائس نہ دیں، یہ بہت بڑی بات ہوتی ہے۔
بہرحال سیرمنی کا آغاز ہوا تو انہوں نے کرتے کراتے مجھے بہت دور جا بٹھایا۔ پتہ نہیں کیا تھا۔ ایک بندہ مجھے بٹھا کر جائے، پھر دوسرا آ جائے، آپ ادھر آ جائیں، پیرنٹس کو یہاں بٹھایا گیا ہے۔ میں ہنستا مسکراتا اٹھ کر اس کے ساتھ ہو پڑوں۔
میں سٹیج سے کافی دور بیٹھا تھا۔ میں نے جو پکچرز لی ہیں، ان میں حسن کو پچاننا مشکل ہے۔ اتنی دور سے پکچرز کلئیر آ ہی نہیں سکیں۔ لیکن حسن نے پتہ نہیں مجھے کیسے ڈھونڈ لیا اتنی دور سے۔ وہ گولڈ میڈل لے کر سیدھا میری طرف آ گیا۔ ہم نے ریکارڈنگ میں دیکھا کہ چیف گیسٹس میں سے ایک اسے تھپکی دینا چاہتا تھا، لیکن حسن اس سے تھپکی لئے بغیر ہی نکل آیا۔ وہ ہنسنے لگا۔
وہ بھاگتا بھاگتا میرے پاس آیا، مجھ سے گلے ملا، اور گولڈ میڈل میرے گلے میں ڈال کر واپس چلا گیا۔ میرے ارد گرد بیٹھے ہوئے تمام پیرنٹس نے کچھ نہ کچھ کہا، لیکن مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا انہوں نے کیا کہا۔ میرے لئے وہ لمحہ کہیں اور سے اترا تھا۔ کسی اور دنیا سے آیا تھا۔
زندگی میں پیسے ارینج کرنے میں میری عزت نفس اور انا بہت مجروح ہوئی ہے۔ خودداری کی دھجیاں بکھری ہیں۔ مجھے لگا، جیسے بہت بڑا مرہم رکھ دیا ہو کسی نے۔ سکون آ گیا ہو ایک دم۔
میں ان تمام دوستوں کا بے حد مشکور ہوں، جنہوں نے اس سفر میں میری مدد کی ہے۔ میاں عامر محمود بھی یہی کہہ رہا تھا۔ کہ بہت سے پیرنٹس کے لئے، یہ ایک بہت لمبا اور بہت مشکل سفر تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
واپسی پر ہم کچھ پانی پینے کے لئے اس کینٹین پر بیٹھ گئے، جہاں ہم چھ سال پہلے ایڈمشن فارم جمع کروا کر بیٹھے تھے۔ اس دن ہم ساری فیملی تھے۔ ہم نے کرکرے کھائے، بوتلیں پی، اور حسن کے نام کے ساتھ ڈاکٹر لگنے کے چانسز پا کر گھر آ گئے۔ وہ بھی ہماری زندگی کا بہت اچھا دن تھا۔
آج میں نے اور حسن نے دل بھر کر پرانی باتیں کیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ تمام والدین کو اپنی اولاد کی خوشیاں دیکھنا نصیب فرمائے، اپنی اولاد کے لئے اچھا سوچنے کی خوش قسمتی عطا فرمائے، آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: حاوی شاہ