ابھی زارا کی شادی نہیں ہوئی، ابھی منگنی بھی نہیں ہوئی، لیکن میں اور میری بیوی اس کے منگیتر کو اپنا بیٹا ہی سمجھنے لگے ہیں۔ شائد اس کی پرسنیلٹی ہے، یا شائد میری اور میری بیوی کی پوزیٹو سائڈ دیکھنے کی صلاحیت ہے، کہ ہمیں اس کا سوچ کر ہی محبت محسوس ہونے لگتی ہے۔ ہم اس کی باتیں کر کر کے خوش ہوتے ہیں، ہم اس کی باتوں کے مطلب لے لے کر خوش ہوتے ہیں۔ ہم جگہ جگہ پر سوچتے ہیں، کہ اس نے یہ کیا ہے، تو اس کا یہ مطلب ہے، وہ فیوچر میں ایسا ہسبنڈ ثابت ہو گا۔
زندگی کا یہ دور مجھ سے بہت اوجھل تھا۔ مجھے پتہ ہی نہیں تھا، کہ داماد کا رشتہ بھی دنیا کے خوبصورت ترین رشتوں میں سے ہے۔
اس کے بڑے بھائی کا ایکسیڈنٹ ہو گیا اور وہ دو دن سے ہسپتال میں تھا۔ آنے جانے والوں کو ڈیل کرنا، اور ڈاکٹروں سے بات چیت رکھنا سب اسی کی ذمہ داری تھی۔ میں اور میری بیوی ہسپتال پہنچے، تو وہ ہمیں لینے ہسپتال کے گیٹ تک آیا۔ تھکن اور نیند کی کمی اس کے چہرے سے عیاں تھی، لیکن چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ ہمیں بہت پیار آیا۔ ہم جتنی دیر بھی مریض کے بیڈ پر بیٹھے رہے، وہ ہمارے پاس بیٹھا رہا۔
چھوٹی چھوٹی سی خوبصورت باتیں۔ زندگی کے نئے سفر، نئے دور کے نئے تقاضے۔ نئے رشتوں کی خوشی، نئے رشتوں کا احترام۔ پتہ نہیں کیا کچھ تھا اس تھوڑی دیر کی سٹنگ میں۔ ویسے تو ہم مریض کی عیادت کو آئے تھے، لیکن ہمارے بلال کا بیٹھنا اٹھنا اتنا خوبصورت تھا، کہ ہم اسی میں مگن ہو گئے۔
مجھے زندگی کی یہ چھوٹی چھوٹی خوشیاں بہت اٹریکٹ کرتی ہیں۔ اصل میں یہ بہت بڑی بڑی خوشیاں ہوتی ہیں۔ رشتوں کے بننے اور لوگوں کے قریب آنے کا پروسس بہت خوبصورت ہوتا ہے۔ کیسے تھوڑی تھوڑی سی انڈرسٹینڈنگ پیدا ہو رہی ہوتی ہے، کیسے تھوڑا تھوڑا سا ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہوتے ہیں ہم لوگ۔
میری بیوی کہتی ہے ”بلال مجھے چائے پلا دو کسی طرح، بہت لمبا سفر تھا فیصل آباد کا۔ عید کا رش اور سواریوں کا ہجوم، میں نے کبھی زندگی میں اتنا تھکا دینے والا سفر نہیں کیا“۔
بلال ہنسنے لگا۔ ”اچھا باجی میں آپ کے لئے چائے لاتا ہوں۔ بھائی جان کا تو روزہ ہے شائد“۔
بلال چائے لینے چلا گیا۔ ساتھ ایک پراٹھا بھی بنوا لایا۔ ہم تھوڑی دیر کے لئے کینٹین کے سائے میں جا بیٹھے۔ کیسے خوبصورت لمحے تھے۔ میں سوچ رہا تھا، یہ لڑکا میری زارا کی زندگی کے دکھ سکھ کا ساتھی بننے والا ہے۔ مجھے اس پر اور بھی پیار آنے لگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے اپنی ساس کی بہت سی باتیں یاد آتی ہیں۔ سادہ سی خاتون تھیں، لیکن بہت عقل کی باتیں کرتی تھیں۔ کہتی تھیں، بیٹیاں دے کر بیٹے لیتے ہیں ماں باپ۔ داماد بیٹے ہی ہوتے ہیں۔ مجھے ان کی اس بات میں رائی برابر بھی شک محسوس نہیں ہوتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں ہاسپٹل کی مسجد میں نماز پڑھنے چلا گیا۔ واپس آیا تو میری بیوی کہتی ہے، بھائی جان کے ہاں چلتے ہیں۔ میں اٹھ کھڑا ہوا۔
بلال کہتا ہے، آپ بیٹھیں میں اوبر کرواتا ہوں۔
میں نے اسے لپٹ لپٹ کر گلے لگایا، یار کوئی بات نہیں، یہ ہاسپٹل کے گیٹ سے رکشہ مل جائے گا، میں چلا جاؤں گا۔
”نہیں بھائی جان، میں اوبر کروا دیتا ہوں“۔
اس کے کہنے میں ایسی خوبصورتی تھی، کہ میں انکار نہ کر سکا۔ مجھے ڈر تھا، میں اس سارے خوبصورت منظر کو خراب نہ کر دوں۔ ابھی تک ایک ایک لمحہ خوبصورت تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلال نے نہ صرف اوبر کروائی، بلکہ اس کا کرایہ بھی دیا۔
”یار بلال، میری بات سن، یار۔۔۔۔۔“
”بھائی جان کوئی بات نہیں“ وہ ہنسنے لگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گاڑی میں بیٹھے ہوئے میں نے اپنی بیوی سے کہا، یار میں اسے روک نہیں سکا۔ ٹھیک ہے۔ کوئی فرق نہیں پڑتا۔
”ویسے آپ بھی امی کو اسی طرح رکشہ کروا کر دیتے تھے۔ کرایہ بھی دیتے تھے۔ امی نے گھر آ کر کہنا، اور ہم لوگوں نے حیران ہونا۔ اللہ نے آپ کو بھی آپ جیسا ہی داماد دیا ہے“ میری بیوی نے مسکرا کر پچیس سال پہلے کی کوئی بات دہرائی۔
میں اپنی بیوی کی یادداشت پر حیران تھا۔ میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا، کہ میں نے ایسا کیا ہو گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ویسے دیکھا جائے تو یہی کمائی ہوتی ہے انسان کی۔ ایسی ہی کوئی یادیں، جو کبھی اپنے ذہن میں اور کبھی کسی دوسرے کے ذہن میں محفوظ ملتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دو دن ہو گئے ہیں اس بات کو، لیکن بلال کی باتیں، اس کے قریب بیٹھنے کی فیلنگز، اس کے نئے نئے سے، جھجک جھجک سے بھرے رویے، سب کچھ کتنی ہی بار یاد کر چکے ہیں ہم۔ زارا سارا اور حسن کتنی ہی بار پوچھ چکے ہیں یہ سب، اور کتنی ہی بار اس کی مختلف انٹرپریٹیشنز کر چکے ہیں، لیکن ابھی تک ان باتوں اور رویوں کی خوشبو ویسی کی ویسی محسوس ہو رہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بات دراصل یہ ہے کہ انسان کا اپنی بیوی سے رشتہ، اپنے سسرال سے رشتہ، اپنی بہو سے، اپنے داماد سے رشتہ، اپنے بچوں کے سسرال سے رشتہ، یہ سب رشتے شائد بہن بھائیوں، بیٹے بیٹیوں ، اور والدین کے رشتوں سے بھی خوبصورت ہوتے ہیں، یا زیادہ نہیں تو ان جیسے ہی خوبصورت ہوتے ہیں۔ بس کبھی انسان اس اینگل سے دیکھ لے ایک بار۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ ہمارے رشتوں میں محبت اور خوبصورتی عطا فرمائے۔ آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: حاوی شاہ