Image 1 Image 2 Image 3 Image 4
Pyara Islam

چھوٹا بھائی ہاسپٹل میں ہے تین چار


چھوٹا بھائی ہاسپٹل میں ہے تین چار دنوں سے۔ جناح ہسپتال۔ ہاسپٹل میں رہنے کا تجربہ بڑا عجیب تجربہ ہوتا ہے۔ ہم تیس سال پہلے پندرہ پندرہ بیس بیس دن رہے ہیں ہسپتال میں۔ امی کی بیماری کے دوران۔ پھر ابو کی بیماری کے دوران بھی۔ میں اور میرا بھائی۔ بڑے بھائی فیصل آباد میں رہتے تھے۔ وہ ہسپتال میں گئے تو وہاں بھی ہم ایک دو دن رہے۔ ہسپتال تقریبا ہر جگہ پر ایک جیسے ہی ہیں۔ مریضوں کا تو جو حال ہے سو ہے، لواحقین کا بھی تقریبا ایک جیسا ہی حال ہے۔ زیادہ تر لوگ گاؤں سے آئے ہوتے ہیں۔ پوری پوری فیملی آئی ہوتی ہے۔ اتنا زیادہ اکوموڈیشن کا بندوبست کر ہی نہیں سکتی حکومت۔ مہمان خانے، قیام گاہیں، دسترخوان، سب کچھ موجود ہے، لیکن لوگ پھر بھی پورے نہیں آ رہے۔ برآمدوں میں، سائیکل سٹینڈوں پر، چھوٹے بڑے لان اور پیچز، کوئی جگہ خالی نہیں ہوتی۔ ہر جگہ پر لوگ کوئی چٹائی، کوئی بستر لگا کر لیٹے ہوتے ہیں۔ 

پاکستان میں کسی بھی شہر میں، کوئی بھی جگہ ہو، ہسپتال کا یہ منظر تقریبا ایک جیسا ہی ہے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

امی کی بیماری کے دوران میں ہسپتال رہ لیتا تھا رات، لیکن اب میری عمر کا تقاضا سمجھ لیں، یا اور کوئی بات، اب مجھے بہت مشکل نظر آتا ہے۔ میں نے ادھر ادھر کونوں میں کوئی فٹپاتھ جیسی انتظار گاہوں میں لیٹنے کی کوشش کی، لیکن نہ لیٹ سکا۔ ایک دو بنچوں پر دراز ہوا، لیکن نہ ہو سکا۔ تیسری چوتھی منزل کے دس دس چکر لگا کر ویسے ہی نڈھال ہوا پڑا تھا۔ برآمدے یاد نہیں رہتے تھے۔ ہر بار ایک دو برآمدوں سے واپس آنا پڑا۔ لیکن کرسیوں پر سر نیہوڑائے بیٹھ کر بھی کوئی آرام کا احساس نہ ہو سکا۔ 

جب کہیں جگہ نہ ملی تو واپس بھائی کے پاس آ بیٹھا۔ ادھر ادھر کی باتیں شروع کیں، اور تہجد اور فجر تک چلتے گئے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں سوچوں لوگ جن فیسیلیٹیز کا تقاضہ کرتے ہیں، عقلی طور پر وہ اس قابل نہیں ہوتے، کہ انہیں وہ فیسیلیٹیز مل سکیں۔ ہسپتال کے باتھ روموں سے لے کر لانوں تو بس ایک ہی منظر نظر آتا ہے، کہ لوگوں کو استعمال نہیں آتا۔ انہیں اتنی عقل نہیں ہے کہ ایسی خوبصورت اور قمیتی فیسیلیٹیز کو کیسے استعمال کرنا ہے۔ جب چیزیں بنتی ہیں، تو کتنی خوبصورت ہوتی ہیں۔ لیکن آہستہ آہستہ خراب ہوتی جاتی ہیں۔ کیونکہ ان کا استعمال ان کے مرتبے کے مطابق نہیں کیا جاتا۔ کہنے کو تو صفائی نہیں ہوتی، احتیاط نہیں ہوتی، لیکن اصل بات یہ ہے کہ استعمال کرنے والے اتنے عقلمند نہیں ہوتے۔ اور جب انہیں عقل دینے کی کوشش کی جاتی ہے، تو یہ ان چیزوں کو چھوڑنے پر راضی نہیں ہوتے، جنہوں نے انہیں نے کم عقل رکھا ہوتا ہے۔ اچھے لوگ ہیں۔ میں وہ بات نہیں کر رہا۔ 

صفائی انصاف کی طرح ہوتی ہے، ڈسپلن کی طرح ہوتی ہے۔ بہت بڑی عقل چاہئے ان چیزوں کو انجوائے کرنے کے لئے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگر ہمیں بہت کچھ دے بھی دیا جائے، لیکن ہمارے پاس عقل نہ ہو، تو ہم بہت جلد وہ سب کچھ گنوا دیتے ہیں۔ جناح ہسپتال کی ایمرجنسی بہت بہتر ہے۔ عملہ بھی بہت محنت سے کام کر رہا ہے۔ لیکن جتنی عقل اس ایمرجنسی کو بہتر رکھنے کے لئے درکار ہے، وہ اتنی نہیں ہے۔ صفائی اور خاموشی بہت بڑے ڈسپلنز کے نام ہیں۔ اور ان سے جو عقل پیدا ہوتی ہے وہ بھی بہت بڑی ہوتی ہے۔ ڈسپلن قائم رکھنے والی عقل تو ویسے ہی بہت بڑی عقل ہوتی ہے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بہرحال کل میں سکول کے پیپرز بھی ساتھ لے گیا۔ میرا خیال تھا کچھ ٹائم نکال کر چیک کر لوں گا۔ لیکن میں نے جہاں بھی پیپرز نکالے سارے لوگ میری طرف دیکھنے لگے۔ پیپرز چیک کرنے کے بارے میں ہر انسان کا خیال مختلف ہے، خاص طور پر جو ٹیچرز نہیں ہیں۔ میں نے جب لوگوں کو متوجہ دیکھا تو مجھ سے کام نہ ہو سکا، اور میں بنڈل واپس ڈال کر بیٹھ گیا۔ پھر مجھے خیال آیا، وہ جہاں نماز پڑھنے کے لئے چٹائی بچھی ہوئی ہے، وہاں بیٹھتا ہوں جا کر، پنکھا بھی لگا ہوا ہے، اور لوگ بھی نسبتا کم ہیں۔ میں وہاں گیا تو مغرب کی نماز کا وقت تھا۔ علامہ اقبال میڈیکل کالج کے کچھ ایلومنی نے وہاں ایک لائبریری بنا رکھی ہے۔ نماز میں تقریبا سارے ہی نمازی اس ایلومنی لائبریری کے طالبعلم ڈاکٹرز تھے۔ میں نے ایک ڈاکٹر لڑکے کو بلا کر کہا، کہ فرش پر بیٹھ کر میرے پیٹ میں بل پڑ گئے ہیں، میں نے پیپرز چیک کرنے ہیں، اور مجھے کوئی مناسب جگہ نہیں مل رہی بیٹھنے کو۔ اندر کوئی ایکسٹرا چئیر مل سکتی ہے کیا۔ وہ بچہ مسکرایا، اور کہنے لگا، آئیں میں دیکھتا ہوں۔ اندر جا کر اس نے ایک چئیر پر بیٹھنے کی آفر کی۔ مجھے لگا وہ کسی سٹوڈنٹ کی ہے، وہ آج نہیں آیا ہو گا۔ اس پر کتابیں پڑی ہوئی تھیں میڈیکل کی۔ میں نے دیکھا ایک بڑی سی میز پڑی ہے، جیسی کسی زمانے میں اخبار و رسائل پڑھنے کے لئے ہوتی تھی کالجوں میں، اور ساتھ ہی ایک لکڑی کی کرسی بھی پڑی تھی۔ میں چپ کر کے وہاں بیٹھ گیا۔ میں نے پیپرز نکالے اور چیک کرنے لگا۔ پرسکون ماحول، کسی کے دیکھنے کا کوئی ڈر نہیں، اور ٹیبل چئیر کی کمفرٹ، مجھے لگا میں کسی جنت میں آ بیٹھا ہوں۔ اے سی کی چل اپنی جگہ پر۔ میں نے دیکھا بچے چھوٹا موٹا کھانا بھی وہیں منگوا لیتے ہیں۔ مجھے بھوک تو دوپہر سے ہی لگی ہوئی تھی۔ اب اور بھی زیادہ محسوس ہونے لگی۔ میں کچھ پیپرز چیک کرنے کے بعد، بھائی کے پاس آیا، اپنا دوپہر کا پڑا کھانا اٹھایا، اور واپس لائبریری میں آ بیٹھا۔ بھائی کے پاس کچھ اور ممبرز آئے ہوئے تھے فیملی کے۔ مجھے لائبریری میں بیٹھنے کا موقع مل رہا تھا، میں بیٹھ گیا۔ میرے پیپرز کا بنڈل اسی جگہ پر پڑا تھا، جہاں میں رکھ کر گیا تھا۔ مجھے یاد آیا کسی نے مجھے کہا تھا، کہ یہاں کوئی کسی کی چیز نہیں اٹھاتا، ہاتھ بھی نہیں لگاتا۔ جو کچھ جہاں ہوتا ہے، کئی کئی دن وہیں پڑا رہتا ہے۔ 

میں نے لائبریری سے باہر جو حالات دیکھے تھے، میں سوچوں، یہ پیارے پاکستان کے پڑھے لکھے ترین بچے ہیں۔ انہوں نے یہ چیز سیکھ لی ہے، کہ کسی کی چیز کو ہاتھ نہیں لگاتے، جو کوئی جہاں کچھ رکھ کر گیا ہے، وہیں سے اٹھا لے گا آ کر۔ میں سوچوں یہ لائبریری والا سین باہر بھی ہو جائے گا ایک دن۔ جب ہم پڑھ لکھ جائیں گے، ایک پڑھی لکھی قوم بن جائیں گے، تو ہم لائبریری سے باہر بھی ایک دوسرے کی چیزوں کو چھیڑنے سے باز آ جائیں گے۔ ہمارا لائبریری والا ڈسپلن ہر جگہ پر قائم ہو جائے گا۔ 

کوئی شور نہیں کرتا تھا، کوئی بات نہیں کرتا تھا، کوئی کسی کی طرف دیکھتا بھی نہیں تھا۔ سب اپنے اپنے کام، اپنی اپنی سٹڈی میں مصروف تھے۔ میں وہاں تین چار گھنٹے بیٹھا رہا۔ میں نے پورا بنڈل چیک کر لیا۔ لیکن میں نے کسی کو کسی سے بات کرتے، ہنستے، یا گپ شپ لگاتے نہیں دیکھا، نہیں سنا۔ جو اپنا کام کر لیتا، چپکے سے بیگ اٹھاتا اور دھیان سے دروازہ کھولتا ہوا باہر نکل جاتا۔ ”ہم ایک اچھی اور خوبصورت قوم ہیں۔ کہیں کہیں ہی سہی، ہمیں اپنے اندر ایک بہت بڑی قوم کی جھلک نظر آ ہی جاتی ہے“۔

ہم ٹیچر لوگ ویسے بھی بچوں میں خوش رہتے ہیں۔ اور پھر لائبریری۔ اتنی زیادہ کتابوں کے درمیان بیٹھنا اٹھنا تو ویسے ہی میرا محبوب مشغلہ رہا ہے۔ بڑے اچھے دن تھے برٹش کونسل اور امیریکن سنٹر والے۔ مجھے کہیں کہیں یاد آ رہا تھا ان لائبریریز کا ڈسپلن کتنا خوبصورت تھا۔ امیریکن سنٹر میں ایک خاتون ہوتی تھی کتابیں اشو کرنے والے۔ بڑی گریسفل پرسنیلٹی تھی اس کی۔ سفید بال تھے۔ ففٹی کے قریب عمر ہو گی۔ شائد کسی کو یاد ہو۔

میرے اپنے بچے ڈاکٹرز ہیں۔ مجھے ان ینگ ڈاکٹرز میں بیٹھ کر لگ رہا تھا جیسے یہ میرے ہی بچے ہیں۔ زارا جو اپنی لائبریری کی باتیں سناتی ہے، یہ بالکل ویسی ہی لائبریری تھی۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہماری اگلی نسلوں کو زیادہ سے زیادہ عقلمند اور مہذب بنائے، آمین۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ

 

No comments: