Image 1 Image 2 Image 3 Image 4
Pyara Islam

مجھے عامر سے مل کر آئے تین چار


مجھے عامر سے مل کر آئے تین چار گھنٹے ہو چکے ہیں۔ میں نے بچوں کے ساتھ ناشتہ کرتے ہوئے بھی کچھ شئیر کرنے کی کوشش کی ہے۔ بظاہر میں نے دوسرے موضوعات پر بات چیت کی ہے۔ میں پچھلے دو دن سے ہسپتال میں تھا، اور کمی پوری کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ لیکن عامر کا پھٹا ہوا دل، اور اس پھٹے ہوئے دل سے نکلنے والی دردناک آواز مجھے چین سے نہیں بیٹھنے دے رہی تھی۔ اس نے مجھے سلام لے کر کہا، دعا کرنا اللہ تعالیٰ صبر دے دے۔ اس کے کانپتے ہوئے ہاتھ بتا رہے تھے، کہ اس سے صبر نہیں ہو رہا۔ اس کا دل پھٹا ہوا ہے، اور شائد پھٹتا ہی جا رہا ہے۔ 

بظاہر عامر ایک خوبصورت آدمی ہے۔ دولت، پرسنیلٹی، عادتیں، سب کچھ خوبصورت ہے۔ میرے جیسا آدمی رشک کرتا نہ تھکے۔ شائد زندگی بھی خوبصورت تھی اب تک۔ لیکن اچانک ایک ایسا حادثہ پیش آیا، کہ سب کچھ ختم ہو گیا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میری امی فوت ہوئی تھی، تو زندگی ختم ہو گئی تھی۔ فل سٹاپ بھی تھا اور کوئسچن مارک بھی۔ میں کئی دن قبرستان جاتا رہا۔ وہاں جا کر کچھ دیر بیٹھتا اور واپس آ جاتا۔ امی کے فوت ہونے سے سب کچھ ختم ہو گیا ہو جیسے۔ کچھ سمجھ نہیں لگتی تھی کس سے ملوں اور کیا بات کروں۔ دل جیسے پھٹ چکا تھا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عامر کی آواز سے مجھے ایسے ہی محسوس ہوا جیسے اس کا دل پھٹ چکا ہے۔ کسی بہت بڑے طاقتور ہاتھ نے کچھ نوچ کر نکال لیا ہے اس کے اندر سے۔ جس طرح مرغی کی کھال اتارتے ہیں نوچ کر، جس طرح اس کا دل گردہ نکالتے ہیں نوچ کر۔ ایسے ہی کسی نے سب کچھ نکال لیا ہے نوچ کر۔ 

عامر کی جواں سال بیٹی فوت ہو گئی تھی اچانک۔ اچانک ایک حادثہ پیش آیا، اور سب کچھ اجڑ گیا۔ مجھے لگتا تھا مجھے ایک ایک لمحے کا علم ہے، وہ کس طرح گزرا ہو گا اس حادثے سے۔ کس طرح گزر رہا ہو گا۔ کس طرح انسان ایک ایک پل گنتا ہے بچے بڑے کرتے ہوئے، اور کس طرح آن کی آن میں سب کچھ اجڑ جاتا ہے، سب کچھ ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔ سب کچھ ختم ہو جاتا ہے۔ انسان بس مرنے کا انتظار کرتا ہے ایسے حادثے کے بعد۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عامر میرا کلاس فیلو تھا فرسٹ ائیر میں۔ اڑتیس سال پہلے ہم دو سال اکٹھے پڑھے تھے۔ ہم کالج سے پھٹا مار کر میچ کھیلنے جاتے تھے۔ میں ایک پیسیو سا پلئیر تھا، لیکن ساتھ ضرور جاتا تھا۔ مجھے مائیک گیٹنگ کہتے تھے یہ سارے۔ بس وہی ہم لوگوں کی محبت تھی۔ ہم سب چوبیس پچیس کلاس فیلوز کی۔ دو سال بعد ہم زندگی کے دوسرے میدانوں میں کھیلنے چلے گئے۔ اور پھر کئی سال تک ملاقات نہ ہو سکی۔ کچھ پتہ نہیں تھا کون کہاں ہے۔ پھر فیس بک اور واٹساپ پر اکٹھے ہو گئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

آج صبح عامر کی صاحبزادی کی جانکاہ خبر سنی تو جیسے دل بھر آیا۔ عامر جتنا خوبصورت، جتنا محبت کرنے والا، اور خیال رکھنے والا انسان ہے، اس کے ساتھ یہ ایسا سب کیسے ہو سکتا تھا۔ میں نے حسن کو ساتھ لیا، اور جنازے پر پہنچنے کے لئے گھر سے نکل پڑا۔ مجھے نہیں معلوم ہم موٹر سائیکل پر پی آئی اے سوسائٹی میں کیسے پہنچے۔ بیسیوں بار راستہ بھولے، اور بیسیوں بار دوبارہ پوچھا۔ بہرحال پہنچ گئے۔ 

حسن کا خیال ہے عامر انکل نے مجھے نہیں پہچانا۔ لیکن اس کے ہاتھوں کے لمس سے محسوس ہو رہا تھا، اس نے پہچان لیا ہے۔ میں اس کے آدھا سا گلے لگا، اور مجھے محسوس ہوا اس نے مجھے پہچان لیا ہے۔ مجھ سے کوئی لفظ نہیں بولے گئے۔ اس نے بس اتنا کہا، دعا کرنا اللہ پاک صبر دے دے۔ اس کی آواز میرے دل سے ایسے ٹکرائی جیسے چیرتی جا رہی ہو اندر تک، تہہ تک۔ وہ پوری طرح سے رو بھی نہیں رہا تھا، لیکن ایسا لگتا تھا، اس کا روان روان رو رہا ہے۔ آنسو بہا رہا ہے، چیخ رہا ہے۔ انسان پتہ نہیں کیوں چنا جاتا ہے کسی کام کے لئے، کسی غم کسی خوشی کے لئے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ اللہ تعالیٰ ٹوٹے ہوئے دلوں کے قریب ہے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہر ٹوٹے ہوئے دل کو صبر جمیل عطا فرمائے، آمین۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ


No comments: