صحیح البخاری
کِتَاب الرِّقَاقِ
کتاب: دل کو نرم کرنے والی باتوں کے بیان میں
اڑتیس: بَابُ التَّوَاضُعِ
اڑتیس: عاجزی کرنے کے بیان میں۔
حدیث نمبر چھ ہزار پانچ سو دو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(حدیث قدسی) حدثنی محمد بن عثمان بن کرامۃ، حدثنا خالد بن مخلد، حدثنا سلیمان بن بلال، حدثنی شریک بن عبد اللہ بن ابی نمر، عن عطاء، عن ابی ہریرۃ، قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم إن اللہ قال: ”من عادی لی ولیا فقد آذنتہ بالحرب، وما تقرب إلی عبدی بشیء احب إلی مما افترضت علیہ، وما یزال عبدی یتقرب إلی بالنوافل حتی احبہ، فإذا احببتہ کنت سمعہ الذی یسمع بہ، وبصرہ الذی یبصر بہ، ویدہ التی یبطش بہا، ورجلہ التی یمشی بہا، وإن سالنی لاعطینہ، ولئن استعاذنی لاعیذنہ، وما ترددت عن شیء انا فاعلہ ترددی عن نفس المؤمن یکرہ الموت، وانا اکرہ مسائتہ“۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(ترجمہ)
مجھ سے محمد بن عثمان نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد بن مخلد نے، کہا ہم سے سلیمان بن بلال نے، ان سے شریک بن عبداللہ بن ابی نمر نے، ان سے عطاء نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس نے میرے کسی ولی سے دشمنی کی اسے میری طرف سے اعلان جنگ ہے اور میرا بندہ جن جن عبادتوں سے میرا قرب حاصل کرتا ہے اور کوئی عبادت مجھ کو اس سے زیادہ پسند نہیں ہے جو میں نے اس پر فرض کی ہے (یعنی فرائض مجھ کو بہت پسند ہیں جیسے نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ) اور میرا بندہ فرض ادا کرنے کے بعد نفل عبادتیں کر کے مجھ سے اتنا نزدیک ہو جاتا ہے کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں۔ پھر جب میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اسے دیتا ہوں اگر وہ کسی دشمن یا شیطان سے میری پناہ مانگتا ہے تو میں اسے محفوظ رکھتا ہوں اور میں جو کام کرنا چاہتا ہوں اس میں مجھے اتنا تردد نہیں ہوتا جتنا کہ مجھے اپنے مومن بندے کی جان نکالنے میں ہوتا ہے۔ وہ تو موت کو بوجہ تکلیف جسمانی کے پسند نہیں کرتا اور مجھ کو بھی اسے تکلیف دینا برا لگتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس حدیث پاک سے مجھے جو معلوم ہوا:
۱۔ اللہ کا ولی ہوتا ہے۔
۲۔ اللہ تعالیٰ اپنے ولی کے دشمن کو اپنا دشمن شمار کرتا ہے۔ بین السطور ہم کہہ سکتے ہیں، کہ اپنے ولی کے دوست کو اپنا دوست شمار کرتا ہے۔
۳۔ اللہ تعالیٰ کا قرب کوئی شے ہے، اور حاصل بھی ہوتا ہے۔
۴۔ فرائض کی ادائیگی نوافل کی رغبت پیدا کرتی ہے۔
۵۔ اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کی محبت کوئی وجود ہے، کوئی شے ہے۔
۶۔ جب اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے تو بندہ بدل جاتا ہے۔ اس کے کان، آنکھ، ہاتھ، پاؤں، بس وہی کرتے ہیں، جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہوتا ہے۔
یعنی تبدیلی ناگزیر ہے۔
۷۔ اللہ کا بندہ اللہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف کچھ نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ کے بندے کی مرضی ختم ہو جاتی ہے۔ یعنی بندے کی اپنی مرضی ختم ہو سکتی ہے۔
۸۔ اللہ تعالیٰ کی قربت، نفس کی ترغیب ختم کر دیتی ہے۔
۹۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی دعا قبول فرماتا ہے۔ اس کا بندہ جو مانگتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے دیتا ہے۔ یعنی اللہ کے ولی کی دعا قبول ہوتی ہے۔
۰۱۔ اللہ کا بندہ اگر کسی دشمن یا شیطان سے پناہ مانگتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اسے اپنی پناہ عطا فرماتا ہے۔ اللہ کا ولی شیطان سے محفوظ ہوتا ہے۔
۱۱۔ اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندے، اپنے ولی کی جان نکالنے میں تردد فرماتا ہے۔ اسے اچھا نہیں لگتا وہ اسے مارے۔ وہ اسے موت کی تکلیف نہیں دینا چاہتا۔
۲۱۔ جب اللہ کے بندے، اللہ کے ولی کی مرضی ہی ختم ہو گئی، اسے شیطان سے پناہ بھی مل گئی، تو باقی کیا رہ گیا۔ اب اللہ کا ولی جو کر رہا ہے وہ اللہ کی مرضی سے ہی کر رہا ہے۔ وہ ایسا کوئی کام کر ہی نہیں رہا جو اللہ کی مرضی کے خلاف ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ یہ معاملہ کسی نہ کسی کے ساتھ ضرور فرماتا ہے۔ ایسے لوگ کتنے ہیں، اس بات کا تو علم نہیں، لیکن یہ کہ ایسے لوگ موجود ہیں، یہ حقیقت ہے۔ کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی اللہ کا بندہ موجود ہو گا، اور عام لوگ اس کے پاس جاتے ہوں گے۔ اس کی قربت میں بیٹھتے ہوں گے۔ اس سے دعا کی درخواست کرتے ہوں گے، اور وہ دعا کرتا ہو گا، اور اللہ تعالیٰ اپنے اس ولی کی دعا قبول فرماتا ہو گا۔ ظاہر ہے اللہ کا ولی وہی دعا کرتا ہو گا، جو اللہ چاہتا ہو گا کہ قبول فرما لے۔ اللہ تعالیٰ اپنے ولی کو اپنی پناہ میں رکھتا ہے۔
اگر اللہ تعالیٰ کسی کو اپنا ولی بناتا ہو گا، تو اپنے عام لوگوں کی خدمت کے لئے ہی بناتا ہو گا، کہ عام لوگ اس کے پاس بیٹھ کر تزکیہ کریں۔ اگر کوئی دنیا کی کسی ضرورت کے تحت اللہ کے ولی کے پاس آتا ہے، تو کچھ نہ کچھ تزکیہ تو ہو ہی جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے وہی تزکیہ بڑھ کر ایمان بن جاتا ہو، اور ایک دن وہ اللہ کے راستے پر آ جاتا ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا اللہ تعالیٰ کا ولی مرنے کے بعد مٹی ہو جاتا ہے، کیا وہ بندہ وہ ولی جسے اللہ تعالیٰ نے شیطان سے پناہ دے رکھی ہو، جس کی دعائیں قبول فرماتا ہو، جس کے اعضاء و جوارح اللہ تعالیٰ کی مرضی سے کام کرتے ہوں، کیا موت آنے سے اس کی یہ نعمتیں چھن جاتی ہیں، اس کا یہ مقام منقطع ہو جاتا ہے۔ کیا اللہ تعالیٰ اپنے ولی سے اس کی موت کے بعد بھی وہ کام نہیں لیتا، جو اس کی زندگی میں لیتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ ہمارے دل و دماغ کو صحیح صحیح سمجھ عطا فرمائے، آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: حاوی شاہ
No comments:
Post a Comment