حسن کو کوئی بونس ملا تھا، اور اس نے نیت کر رکھی تھی کہ بونس کے پیسوں میں سے غنیۃ الطالبین لائے گا۔ غنیۃ الطالبین حسن کے دادا جان کی فیورٹ کتاب تھی، اور وہ حضور غوث الاعظمؓ کا ذکر کرتے ہوئے، غنیۃ الطالبین کا تذکرہ ضرور کیا کرتے تھے۔
ہم حضور غوث الاعظمؓ کی اولاد میں سے ہیں۔ شائد ہم ان کے بارے میں اس طرح فیل نہیں کرتے جس طرح دوسرے لوگ فیل کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہرحال ہم اردو بازار پہنچے، فرید بک سٹال پر پہنچے، اور غنیۃ الطالبین کی ڈیمانڈ کر دی۔ مجھے تو دور سے دیکھ کر ہی محسوس ہو گیا، کہ یہ ہماری کتاب ہے۔ میں نے حسن کو پہلے دیکھنے دی، اس نے ”ٹھیک ہے“ کہا، تو میں بھی دیکھنے لگا۔ ایک ہی جلد میں تھی۔ بہت اچھی جلد تھی، بلیو کلر کی۔ بڑا خوشگوار سا رنگ تھا۔ ہاتھ کی کتابت تھی۔ اردو عربی، بہت خوبصورت لکھی ہوئی تھی۔
میں اب ان کتابوں سے نکل چکا ہوں، لیکن میرا دل بہت کیا اسے پڑھنے کو۔ حسن کی عمر میں میں بھی بہت پڑھا کرتا تھا۔ مجھے زیادہ تر تو والد صاحبؒ کی کتابوں میں ہی مل جاتی تھیں۔ کبھی کبھی میں خرید بھی لاتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”انسان کو کسی نیک انسان کی کمپنی مل جائے، کسی بزرگ کا ساتھ مل جائے، بہت بڑی خوش قسمتی ہے اس کی“ میں نے دکان سے باہر آ کر کہا۔ ”یہ کتابیں بھی کسی بزرگ سے کم نہیں ہوتیں“ میں کہنا چاہتا تھا، لیکن مجھے یاد آیا میں نے دعا کو سو درود شریف کی کتاب گفٹ کرنے کا وعدہ کر رکھا ہے۔
میں نے دو تین سال پہلے دعا کو کہا تھا، کہ میں اسے عالم فقری صاحبؒ کا مرتب کردہ سو درود شریف کا مجموعہ گفٹ کروں گا۔ بہرحال، پتہ نہیں کیسے، یہ گفٹ التوا کا شکار ہوتا گیا، اور آج اچانک سے یاد آ گیا۔ خوش قسمتی سے پیسے بھی تھے۔
ہمیں آگے پیچھے ڈھونڈ کر، آخر کار شبیر برادرز کی دکان نظر آ گئی۔ وہاں سے عالم فقری صاحبؒ کے صاحبزادے کی دکان مل گئی، اور ہم سو درود شریف کا مجموعہ خرید کا شاداں و فرحان باہر نکل آئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کل شائد ہمارا کتابوں کا دن تھا۔ حسن کہتا ہے، سارا نے سلویا پلاتھ کی کتاب منگوائی ہے کوئی۔ ہمیں لکیلی ریڈنگز کا سٹال نظر آ گیا۔ ہم نے سلویا پلاتھ کی کتابیں پتہ کیں، اور ”ایریل“ لے لی۔ میں نے تیس پینتیس سال پہلے سلویا پلاتھ پڑھی تھی۔ اس کی بائیوگرافی، اور دوسری کتابیں بھی پڑھی تھیں۔ اچھی لگی تھی۔ ایملی ڈکنسن اور سلویا پلاتھ۔ بعد میں اردو بازار کے دنوں میں میں نے کریٹیکل سٹڈی بھی لکھی تھی سلویا پلاتھ پر۔ مجھے یہ سب کچھ یاد کر کے بہت اچھا لگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے اپنے لئے شاہ حسینؒ کی کافیوں والی کتاب ڈھونڈنے کی کوشش کی، لیکن نہ مل سکی۔ پنجابی ادبی بورڈ کی چھپی ہوئی۔ میں اونلائن پڑھ لیتا ہوں، لیکن میرا دل کرتا ہے، پیپر فارم میں بھی ہو میرے پاس۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خیر ہم اردو بازار سے انارکلی اور انارکلی سے نیلا گنبد نکل آئے۔ حسن نے ٹراؤزر ٹی شرٹ بھی لینی تھی۔ اور میرا خیال تھا مجھے ریڑھی سے سفید شرٹ مل جائے تو اچھا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
واپسی پر مال سے گزرتے ہوئے، میں اور حسن ایک طویل ڈسکشن میں چلے گئے۔ مزارات پر حاضری ہمارا موضوع تھا۔
”ہم کیسے کہہ دیں، کوئی انسان جو زندگی بھر عبادت کرتا رہا، قرآن پڑھتا رہا، نماز پڑھتا رہا، نیک اعمال کرتا رہا، ہم کیسے کہہ دیں، کہ ان سب کا اس کے ایموشنل سسٹم پر، اس کے جذبات اور خیالات پر اثر نہیں ہوا ہو گا۔ ہم کیسے کہہ دیں، کہ مرنے کے بعد اس زمین پر اثر نہیں ہوا ہو گا، جہاں وہ دفن ہے۔
”بات یہ ہے کہ حضور ﷺ کی آل اطہار کا وجود کس لئے تھا، کس لئے ہے۔ اگر اس وقت نہیں پتہ لگتا تھا، تو آج تو پتہ لگ سکتا ہے۔ یہ غوث اعظمؓ، یہ داتا صاحبؒ، یہ بی بی پاکدامنؒ، یہ حضور ﷺ کی آل پاک کے مزارات ہی تو ہیں۔ دنیا کے نوے فیصد سے زیادہ مزارات تو حضور ﷺ کی آل پاک کے ہیں۔ حضور ﷺ کی نسل پاک کے ہیں۔ اور دس فیصد شائد ان سے محبت رکھنے والوں کے۔ ان کو ماننے والوں، ان کے مریدوں کے۔
”یار ہم مزارات کو یکسر نظر انداز نہیں کر سکتے۔ اگر کوئی خلاف شرع کام ہوتے ہیں، تو انہیں پوائنٹ آؤٹ کیا جائے، لوگوں کو تعلیم دی جائے۔ یہ کہنا کہ وہاں جانے ہی نہیں چاہئے، ان کی کتابیں ہی نہیں پڑھنی چاہئیں، اور انتہائی صورت میں ان بزرگوں کو تنقید کا نشانہ بنانے لگنا، مجھے یہ رویے سمجھ نہیں آتے۔
”عجیب و غریب رویے ہیں حضور ﷺ کی آل کی طرف۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم باتیں کرتے کرتے، ڈیوس روڈ سے بوڑھ والے چوک کی طرف آ گئے۔ میں نے ریڑھی سے سفید شرٹ لینی تھی۔ راستے میں ہمیں بی بی پاکدامنؒ کے مزار کی طرف جاتی سڑک بہت اٹریکٹو محسوس ہوئی۔
”بھائی ابھی شرٹ لے کر آتے ہیں ادھر۔ یار کیسی پررونق سڑک ہے“۔
ہم پررونق اس جگہ کو کہتے ہیں، جہاں ہمیں روحانیت اور پاکیزگی محسوس ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
واپسی پر ہم بی بی پاکدامنؒ کے مزار کی طرف مڑ گئے۔ واقعی کمال سڑک تھی۔ ایسے لگ رہا تھا، جیسے کسی اور ہی دنیا سے گزر رہے ہوں۔ بہت ہی خوبصورت فضا تھی۔ بہت ہی خوبصورت۔ دل خوش ہو گیا۔ داتا صاحبؒ کے عرس پر ایسی ہی فضا محسوس ہوتی ہے مجھے۔ اور حج کے دوران سارے مدینہ پاک کی فضا اس فضا سے کئی گنا زیادہ، لیکن ایسی ہی محسوس ہوتی تھی۔ وہی نور ہے دنیا بھر کے مزارات سے پھوٹتا ہوا۔ اسی سرچشمے کی چھوٹی چھوٹی ندیاں۔
”یار کسی دن سپیشل آتے اس جگہ۔ یار کمال ہی ہو گیا ہے۔ کیسی فیلنگز ہیں۔ بھائی کوئی پروگرام بناؤ یار ادھر آنے کا۔ کوئی کتاب لینے، کسی اور بہانے۔ یار وہ آپ نے صحیفہ سجادیہ لینا تھا ایک بار۔ بھائی یہاں سے مل جائے گی وہ کتاب۔ کسی دن لینے آتے ہیں۔ اندر مزار پر حاضری بھی دے لیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم نے خالی ہاتھ آنا مناسب نہ سمجھا اور سو روپے کی شیرینی لے لی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”بھائی زندگی گزر گئی ہے مختلف تجربات میں۔ ایک بات بتاتا ہوں آپ کو آج۔ یہ جو اپوزٹ سیکس کی محبت ہے نا، اس کا کوئی نعم البدل ہو سکتا ہے۔ تلاوت اور نماز میں کچھ فیلنگز مل جاتی ہیں۔ لیکن بھائی سیکس کا کوئی آلٹرنیٹو، کوئی بدل نہیں۔ اور سیکس عقل سے عاری ہوتا ہے۔ وہ کسی مذہب، نسل، عمر، ایجوکیشن کو نہیں مانتا۔ بلکہ وہ کچھ مانتا ہی نہیں ہے۔ سیکس کو اگر کوئی چیز کنٹرول کر سکتی ہے، تو وہ کسی اللہ والے، کسی مرد صالح، کسی بزرگ کی صحبت ہے۔ اور اگر وہ میسر نہ آئے تو کسی مزار کی حاضری۔
”بھائی اس کے علاوہ مجھے اور کوئی سولوشن نظر نہیں آیا اس پرورشن کا۔ نماز روزہ ٹھیک ہیں، لیکن بگڑے ہوئے کیسز میں، مرد صالح کی صحبت ہی اصل علاج ہے۔ بعض دفعہ بندہ اتنا بگڑ چکا ہوتا ہے، سیکشؤلی اتنا گمراہ ہو چکا ہوتا ہے، اتنا وے وارڈ، اتنا پرورٹڈ، کہ مرد صالح کی صحبت بھی کچھ نہیں کرتی۔ مزار پر حاضری بھی بے سود ثابت ہوتی ہے۔ لیکن ایسا بہت رئیر ہے۔ لاکھوں کروڑوں میں کوئی ایک کیس ایسا ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں بہت بول چکا تھا، لیکن مجھے محسوس ہوتا تھا، جیسے اس موضوع پر جتنا بولنا چاہئے، میں نے اتنا نہیں بولا ابھی۔ بہرحال ہمارا گھر قریب تھا، اور ہم اپنی گفتگو سمیٹ کر، گھریلو موضوعات پر واپس آنے لگے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ ہمارے دل و دماغ کو صراط مستقیم کی پہچان اور آگاہی نصیب فرمائے، آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: حاوی شاہ
No comments:
Post a Comment