Image 1 Image 2 Image 3 Image 4
Pyara Islam

سولہ سترہ سال کی عمر بڑی اہم ہوتی ہے

 

سولہ سترہ سال کی عمر بڑی اہم ہوتی ہے۔ بندے کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت جوش مارتی ہے، اور وہ اسے ڈھونڈنے، پانے، اور اس کے قریب کی ہونے کی خواہشات محسوس کرتا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں سوچتا ہے، وہ کون ہے، کیسا ہے، کہاں رہتا ہے، کیا وہ دعا سنتا ہے، کیا وہ کچھ مانگنے پر عطا کرتا ہے، کیا وہ ساتھ ساتھ رہتا ہے، کیا وہ مدد کے لئے آتا ہے، ایسے اور اس قسم کے اور بہت سے سوالات سر اٹھاتے ہیں، اور بندہ انہیں آزما کر دیکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ 

بعض دفعہ اسی عمر میں مجازی محبت کا غلبہ محسوس ہوتا ہے، اور بندہ اس سب کچھ کو بھول کر کسی اپنے جیسے انسان کی محبت میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ پھر اس طرح ہوتا ہے، کہ دونوں محبوب ایک دوسرے میں مدغم ہو جاتے ہیں، اور بندے کو محسوس نہیں ہوتا کہ وہ مجازی محبوب کو خدا جیسا، اور خدا کو مجازی محبوب جیسا سمجھنا شروع کر چکا ہے۔ 

بعض دفعہ اس کشمکش میں بندہ مجازی محبت سے نکل آتا ہے، اور اللہ تعالیٰ کی تلاش شروع کر دیتا ہے۔ 

یہ ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ بندے کو یہ بات سمجھنے میں ایک مدت لگ جاتی ہے، کہ تلاش کی خواہش، اسے پانے کا تصور بہت بڑی بڑی رکاوٹیں ہیں۔ 

بعض دفعہ بندہ بہت جلد سمجھ جاتا ہے، کہ دراصل اسے قرب کی خواہش ہے، دراصل وہ اللہ تعالیٰ کی دوری اور نزدیکی کے تصور میں مبتلا ہے۔ 

بعض دفعہ بندہ اس حالت میں نمازوں اور تلاوتوں کی طرف راغب ہوتا ہے، اور اسے محسوس ہوتا ہے، کہ اسے اپنا مقصود مل گیا ہے۔ 

بعض دفعہ بندے پر مجازی محبت کا غلبہ کچھ زیادہ ہو جاتا ہے، اور وہ اللہ تعالیٰ کے قرب کو نمازوں اور تلاوتوں کی بجائے، دنیا کے مختلف نیک کاموں میں تلاش کرنے لگتا ہے۔

بہرحال نمازوں اور تلاوتوں کے مقصود تک پہنچنے والا ایک بہت بڑی آزمائش میں گھر جاتا ہے۔ وہ اپنی آج کی حالت کا اپنے گزرے ہوئے کل کی حالت سے موازنہ کرنے لگتا ہے، اور آنے والے کل میں کسی بے مثال کامیابی کی امید لگا لیتا ہے۔ وہ آنے والے کل میں کسی ایسی حالت کا تصور کرنے لگتا ہے، جسے نہ آج تک اس نے پایا، نہ محسوس کیا۔ 

اپنی حالتوں کے موازنے سے نکل کر، وہ بعض دفعہ کسی گزرے ہوئے، یا ہم عصر بندے کے موازنے میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ وہ دیکھتا ہے ماضی میں اللہ تعالیٰ کے بندے کتنی کتنی جدوجہد کر چکے ہیں، کتنا کتنا نام کما چکے ہیں، اللہ تعالیٰ نے کیسی کیسی نعمتوں سے نواز ہوا ہے انہیں، وہ خود بھلا کیا ہے۔ ماضی کے بزرگ کتنے نیک تھے، اور وہ خود کتنا گنہگار ہے۔ بس یہ موازنے اسے کہیں کا نہیں چھوڑتے۔ وہ ماضی کے بزرگوں کی نقل کرنے نکلتا ہے، لیکن ناکام ہوتا ہے۔ وہ اپنے مزاج اور اپنی ہمت سے بڑا بوجھ اٹھا لیتا ہے، اور گر پڑتا ہے۔ اسے محسوس ہوتا ہے، وہ کچھ بھی نہیں کر رہا۔ نہ اسے ماضی کے بزرگوں جیسے خواب آتے ہیں، نہ ان جیسا محسوس ہوتا ہے۔ وہ کتنے قریب تھے، ان کی کتنی دعائیں قبول ہوتی تھیں، ان کی باتیں کتنی معرفت آموز ہوتی تھیں، وہ تو ویسے مقامات سے محروم ہے۔ 

بس پھر موازنے اور مقابلے اسے لے اڑتے ہیں۔ لیکن اس سے پہلے کہ وہ بھول جائے، گر جائے، کھو جائے، اللہ تعالیٰ اسے علم عطا کرتا ہے، اور بندہ اپنے آپ کو پہچانتا ہے۔ اسے پتہ لگ جاتا ہے کہ وہ کیا ہے۔ اسے پتہ لگ جاتا ہے، کہ وہ اللہ تعالیٰ سے کیسی پہچان رکھتا ہے۔ بس اسے اپنے دل، اپنے اعمال، اور تعلق کی سمجھ آ جاتی ہے۔ اسے اپنے حصے پر قناعت نصیب ہو جاتی ہے۔ 

وہ اپنے آپ کو صراط مستقیم یعنی استقامت والے راستے پر محسوس کرتا ہے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہمارے دل و دماغ کو صراط مستقیم پر چلنے کی خوش قسمتی عطا فرمائے، آمین۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ

 


No comments: