میں ابھی مغرب کی نماز کے تشہد میں بیٹھا تھا، اور سوچ رہا تھا کہ نماز سے نکلنے کا وقت آ گیا ہے۔ مجھے ایک سوچ آئی، اب اس کے بعد کیا کرنا ہے۔
”یہ جو پورے دن کا مقصد تھا، وہ تو یہی تھا، وہ تو یہی نماز تھی۔ اس سارے دن کی دوڑ دھوپ کا مقصد تو نماز ہی تھا۔ اس سارے کھانے پینے، پہننے اوڑھنے کا مقصد تو یہی تھا، جو کر رہا ہوں۔ میں تو اپنی زندگی، اپنے وجود، اپنی موجودگی کے بہترین وقت میں ہوں۔ اس کے بعد کیا کرنا ہے، اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ ابھی جو کر رہا ہوں، اس کو توجہ سے کر لوں۔ چند لمحے رہ گئے ہیں۔ ابھی جو کر رہا ہوں توجہ سے کر لوں۔ کوئی پتہ نہیں ابھی ایک لمحے میں کام بن جائے۔
”میں چاہتا کیا ہوں، مجھے انتظار کس بات کا ہے“ میرے اندر کسی سوچ نے وضاحت چاہی۔
”مجھے اور کسی چیز کی سمجھ نہیں آئی۔ مجھے کسی احساس، کسی سوچ کا علم نہیں ہے۔ مجھے بس اتنا پتہ ہے، کہ نماز اور تلاوت میں کوئی خوشی ہے، کوئی خوبصورتی ہے۔ بس مجھے وہ تھوڑی سی اور مل جائے۔ بس میں چاہتا ہوں مجھے وہ خوشی اور خوبصورتی اور مل جائے، اتنی زیادہ مل جائے کہ مجھے کسی اور چیز کا احساس ہی نہ رہے۔ کسی اور چیز کے ہونے نہ ہونے کا احساس ہی نہ رہے۔ بس میری سب سے بڑی خواہش یہی ہے۔ بس میں اسی لئے زندہ ہوں۔ بس میں اسی امید پر نمازوں اور تلاوتوں میں آ کھڑا ہوتا ہوں۔ شائد اس بار وہ خوشی اور خوبصورتی مل جائے، اور مل جائے، اور مل جائے۔ مجھے اتنا تو پتہ چل چکا ہے، کہ کوئی ہے۔ وہ قرب ہے یا نزدیکی ہے، جو کچھ بھی ہے، کچھ اور مل جائے۔ بس مجھے اور کسی چیز کی خواہش نہیں ہے۔ کسی چیز کا ڈر نہیں ہے۔ یہ کپڑے لتے، یہ کھانے پینے، یہ سب اسی کے لئے ہیں۔ یہ نمازوں اور تلاوتوں کا انتظار اسی کے لئے ہے۔ یہ زندگی کے شب و روز اسی خوشی کے لئے ہیں۔ وہ جو وضو کی تازگی ہے۔ وہ جو صاف ستھرا ہونے کا احساس ہے۔ وہ جو نمازوں اور تلاوتوں کا انتظار ہے۔۔ میں چاہتا ہوں یہ اور بڑھ جائے، یہ اور مل جائے۔۔۔۔“
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں جب نماز سے باہر آیا تو ایک واضح فرق محسوس ہوا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ ہمارے دل و دماغ کو نمازوں اور تلاوتوں کا خضوع و خشوع عطا فرمائے، آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: حاوی شاہ
No comments:
Post a Comment