خودکشی دنیا کے ہر ملک میں ہوتی ہے، لیکن خودکشی کرنے والے تقریبا ایک جیسے ہوتے ہیں۔ خودکشی کی وجوہات سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بہت سے دوسرے لوگ انہی وجوہات میں جی رہے ہوتے ہیں۔
بات صرف خودکشی کرنے والوں کی تربیت کی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں اپنی بات صرف اس لئے کرتا ہوں، کہ کوئی یہ نہ کہے، تمہیں اس سب سے گزرنا پڑے تو پتہ چلے۔ میں زندگی میں پانچ چھ بار ایسے حالات سے گزرا ہوں، کہ ان حالات میں کسی نہ کسی نے خودکشی کر لی ہو گی۔ میرے جیسا انسان بھی بہت قریب چلے جاتا تھا، لیکن میرے اندر کوئی ایسی چیز تربیت پا چکی تھی، کہ میں زندگی سے مایوس نہیں ہوتا تھا۔ پتہ نہیں مجھے کیوں لگتا تھا، کہ یہ سب کچھ گزر جائے گا، اور یہ سب کچھ ایسے بھی چلتا رہے تو زندگی بہت اچھی ہے۔
مختلف حالات میں مجھے بچانے والی قوتیں مختلف ہوتی تھیں۔ کچھ حالات ایسے ہوتے تھے، کہ لٹریچر کا کوئی کیریکٹر میرے سامنے آ جاتا، گون ود دا ونڈ کی ایشلے، اور میرے اندر ہمت پیدا ہو جاتی۔ میں کہتا، میں اس سارے ڈرامے کے آخری سین تک بیٹھوں گا۔ میں آخری سین دیکھ کر اٹھوں گا۔ میں سوچتا جب مرنا ہی ہے، تو خود کیوں مروں، انتظار کرتا ہوں خود بخود مر جاؤں، یا کوئی مار دے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انسان عام طور پر مایوسی میں خودکشی کرتا ہے۔ میں مایوس ہوتا تو میرے ذہن میں ”دا اولڈ مین اینڈ دا سی“ کا ہیرو سنٹیاگو آ جاتا۔ پچاسی چھیاسی دن مچھلی نہ ملنے کے باوجود سنٹیاگو پھر اٹھا، اور اگلے دن منہ اندھیرے سمندر میں نکل گیا۔ اور اس بار سمندر میں اتنی آگے نکل گیا، جہاں بھنور تھے۔
مجھے یہ سب سوچ کر بہت ہمت ملتی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کبھی کبھی حالات اس طرح کے ہوتے، کہ میں مایوس ہو کر کھڑکی میں کھڑا ہوتا، اور مجھے کچھ سمجھ نہ لگ رہی ہوتی کل کیا ہو گا، اور مجھے یاد آتا ”ما ودعک ربک و ما قلی“، اور یہ کال اتنی واضح ہوتی، جیسے کوئی بہت قریب بول رہا ہو۔ میری ہمت بندھ جاتی۔
زندگی میں بے شمار بار ایسے حالات آئے، کہ سمجھ نہیں آتی تھی، اگلے ہفتے یا اگلے مہینے تک کیسے پہنچوں گا۔ ہر طرف مایوسی محسوس ہوتی۔ لیکن اللہ تعالیٰ اس سچوایشن سے نکال لیتا۔ پتہ نہیں کیسے کوئی مدد آ جاتی، اور میں پھر بچ جاتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک دن میرا ایک دوست مجھے مشورہ دینے لگا، کہ ایسے ایسے کر لو۔
”میں نے کہا میں اپنی تقدیر پڑھ چکا ہوں۔ میری قسمت میں بھوک ننگ، تنگی، بدنامی، بے عزتی ہی لکھی ہے۔ کوئی ترقی، کوئی بہتری نہیں ہے۔ حالات ایک سے رہیں گے، ایک جتنی مشقت اور بے عزتی کے ساتھ۔ معذور، بیکار اور ریٹائرڈ لوگ آئیں گے زندگی میں۔ قرض، بھیک، رحم، ترس، سب مانگنا پڑے گا۔ وقت گزر جائے گا، لیکن کہیں سے کوئی پائیدار سپورٹ نہیں ملے گی۔ سب کچھ اکیلے دیکھنا ہو گا۔ کرچیوں جیسے دکھ، محرومیاں، خواب۔ کوئی کام مکمل نہیں ہو گا۔ کوئی کوشش، کوئی منصوبہ، کوئی ارادہ کامیاب نہیں ہو گا۔ کوئی سکسیس نہیں ملے گی۔۔۔۔۔“ میں پتہ نہیں کتنا بول جاتا، لیکن اپنے دوست کے چہرے پر کرب دیکھ کر خاموش ہو گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زندگی میں ایسے مواقع آئے، جیسے کل سب ٹھیک ہو جائے گا۔ جیسے آئندہ آسانی ہی آسانی ہو گی۔ لیکن کامیابی ہمیشہ چھو کر گزر گئی۔ جیسے لاٹری دیکھنے والے کو لگے، یہ میرا نمبر ہے، اور وہ خوش ہو اٹھے، لیکن اگلے ہی لمحے پتہ چلے یہ میرا نمبر نہیں ہے۔
بے حد زیادہ محنت، دماغ فیل کر دینے والی مصروفیت۔ پندرہ پندرہ اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کا دن۔ صبح منہ اندھیرے نکلتا، آدھی رات کو گھر آتا۔ بچوں سے بات تک نہ ہو پاتی چار چار چھ چھ دن۔
لیکن میکبتھ کا خیال آ جاتا۔ پتہ بھی ہے میکڈف کے ہاتھوں مرنا ہے، لیکن کہتا ہے، لڑ کر مروں گا۔ پھر اٹھتا ہے، پھر لڑتا ہے۔
اور یہ بھی نہیں کہ بہت خالص رشتے مل گئے ہوں۔ دوست ایک دوسرے کے دوست تھے، میرے نہیں تھے، لیکن میں نے ان میں سرواؤ کیا۔ بیوی بچوں اور بہن بھائیوں کے بارے میں بھی یہی فیلنگز ہیں، میں ہی تعلق رکھوں گا تو رہے گا، ورنہ انہیں کوئی ضرورت نہیں ہے میری۔
جہاں جہاں بھی کام کیا، اپنی طرف سے سر دھڑ کی بازی لگا دی۔ لیکن باس کی نظروں میں عزت نہ بن سکی کبھی۔ وہ یہی کہتا رہا، میں ویسے ہی تنخواہ دیتا ہوں، ترس کھا کر۔ جب تک کہیں اور کام نہیں ملتا تنخواہ لیتے رہو۔ صبح عید ہوتی اور میں رات دس گیارہ بجے تک پیسے لینے بیٹھا ہوتا، کبھی تنخواہ، کبھی دیہاڑی، کبھی ادھار۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن خودکشی کا ذہن سے نکل چکا تھا۔ میں نے آخری سین تک دیکھنا ہے اپنا ڈرامہ۔ بس یہی ہوتا تھا میرے ذہن میں۔ میری ماں فوت ہوئی، میرا بھائی فوت ہوا، لیکن میرے قریب ترین دوستوں کو بھی معلوم نہیں تھا۔ میں اگلے دن ان میں اسی طرح بیٹھا ہوا تھا، جیسے روز بیٹھتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بات کرنے کا مطلب یہ ہے، کہ خودکشی ایک انتہائی گھٹیا اور کمینی حرکت محسوس ہوتی تھی۔ کوئی ضرورت سے بھی زیادہ بزدلانہ فعل۔ یہ کسی ملتان کے نوجوان نے خودکشی کی ہے پچھلے دنوں۔ مجھے افسوس ہوا، لیکن مجھے اس پر غصہ بھی آیا۔ بزدل۔ اپنی ہی زندگی کو نہیں جی سکا۔ پھر میں نے سوچا اگر اس کی تربیت ہوئی ہوتی تو شائد ایسا نہ کرتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ٹھیک ہے کہ بعض دفعہ ہمیں لگتا ہے، اللہ بھی ہمارے ساتھ نہیں ہے، اس نے بھی ہمیں چھوڑ دیا ہے، لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے۔
مجھے نبی ﷺ کی حیات مبارکہ کے دو دن یا دو لمحے بہت تقویت دیتے ہیں۔ رات کے اندھیرے میں ایک جاں نثار دوست کے ساتھ ایک غار میں پناہ لئے بیٹھے ہیں۔ دشمن پیچھے ہیں، کوئی پتہ نہیں کس لمحے آن پہنچے۔ کیسا وقت ہو گا وہ۔
اور دوسرا طائف کا دن۔ بچے پتہ نہیں کیسی کیسی آوازیں لگاتے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔ پتھر برس رہے ہیں۔ جسم اطہر لہولہان ہے۔ اور پھر کسی ویرانے میں پناہ لئے بیٹھے ہیں۔
لیکن وہ وقت گزر گیا۔ اللہ تعالیٰ نے وہ کچھ عنایت فرمایا، جو نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کان نے سنا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے یہ پوسٹ ان لوگوں کے لئے لکھی ہے، جو بروکن ہارٹس ہیں، دل شکستہ ہیں۔ مایوس ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں، انہیں وہ سب نہیں مل سکا، جو وہ چاہتے تھے۔ ان کا کوئی آسرا نہیں ہے۔ انہیں کوئی سمجھتا نہیں ہے۔ فضول باتیں اور فضول لوگ۔ زندگی اس سب کے لئے نہیں ہے۔
بعض دفعہ چیزیں ہماری مرضی کے مطابق اس لئے نہیں ہوتی، کہ اللہ تعالیٰ کوئی معجزہ دکھانا چاہتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کو ایمان اور یقین کی مضبوطی اور حوصلہ عطا فرمائے، آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: حاوی شاہ
No comments:
Post a Comment