Image 1 Image 2 Image 3 Image 4
Pyara Islam

ایک بار ایک پبلشر مجھے کہتا ہے


 

ایک بار ایک پبلشر مجھے کہتا ہے، تاجر ایک نوکری پیشہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے قریب ہوتا ہے۔ مجھے اس کی بات پوری طرح سے سمجھ نہیں آئی تھی۔ لیکن میں جب بھی کوئی کام شروع کرتا ہوں، مجھے یہ بات یاد آ جاتی ہے۔

یہ بات تو طے ہے کہ ہر انسان اللہ تعالیٰ کو اپنے ہی ڈھنگ سے یاد کرتا ہے۔ لیکن تاجر جس طرح یاد کرتا ہے، وہ بھی بڑا انٹرسٹنگ ہے۔ ایک اور پبلشر کہتا ہے، پیسہ مارکیٹ میں پھینکنا اور پھر واپس نکالنا، بڑا بہادری کا کام ہے۔ بڑا حوصلہ چاہئے اس کام کے لئے۔
میں اس روزی رزق اور محنت اور کوشش، نصیبوں میں لکھے رزق کے فلسفے سے کچھ ڈسکور کرنا چاہتا ہوں۔ مجھے لگتا ہے بہت سی دوسری سچائیوں کی طرح، اس کے ارد گرد بھی حجابات ہیں۔
میرے ایک کولیگ ہیں، طاہر صاحب۔ بہت اچھے آدمی ہیں۔ بڑی امپریسو پرسنلیٹی ہے۔ موٹیویشنل سپیکر ہیں بہت بڑے۔
آج کہتے ہیں، ان دا اینڈ یہی پتہ چلتا ہے، کہ خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا، جو کچھ کہ سنا افسانہ تھا۔ کہتے ہیں، کچھ بھی نہیں ہے، سب کچھ سکرپٹڈ ہے۔ یہ کوششیں، یہ دوڑ دھوپ، یہ اچیومنٹس، سب سراب ہے۔
مجھے ایک دم جھرجھری سی آئی۔ میں نے معافی مانگتے ہوئے کہا، طاہر صاحب ہم ان رزلٹس سے آگے، یا ان سے مختلف کیوں نہیں پہنچتے۔ ہم کب تک اپنے بچوں کو یہ عقل و دانش کے موتی لٹاتے رہیں گے، کہ دنیا سراب ہے۔ کوشش فضول ہے۔ وہی ملتا ہے جو قسمت میں لکھا ہے۔
میں نے کہا یہ تین چار جملے ہم کہنا چھوڑ دیں، تو شائد ہمارے ملک، ہماری قوم، ہمارے بچوں کے حالات بہتر ہو جائیں۔
پہلا وقت اچھا تھا، آنے والا وقت بہت برا ہے۔
پہلے لوگ بہت اچھے تھے، اب تو۔۔۔۔۔
ہم فتنے کے دور سے گزر رہے ہیں،۔۔۔۔۔
ہمیں وہی ملتا ہے جو ہمارے مقدر میں لکھا ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”یار میں یہ بات نہیں کر رہا، کہ یہ سچ ہے یا نہیں۔ میں تو بس اتنا کہہ رہا ہوں کہ ہم یہ جملے کہنا چھوڑ دیں۔ آپس میں بھی اور بچوں کے سامنے بھی۔ آخر ہم کوئی اور ڈسکوری کیوں نہیں کرتے“۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے شک ہے طاہر صاحب ایسا نہیں کریں گے۔ ہم میں سے زیادہ تر لوگوں کے پاس بس ایسے ہی پانچ سات جملے ہوتے ہیں، اور وہ بڑے بڑے عقلمندوں کو مات دے آتے ہیں۔
پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں۔
کچھ پانے کے لئے کچھ کھونا بھی پڑتا ہے۔
روٹی دین کا چھٹا رکن ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہرحال، بات ہو رہی تھی، سٹوڈنٹس کو کوشش اور محنت کی زندگی کی طرف مائل کرنے کی۔ امید اور امکانات کا احساس دلانے کی۔ محنت سے وہ سب کچھ حاصل کر سکنے کی، جو انہیں ایڈوراٹائزمنٹس دکھا دکھا حاصل کرنے پر اکسایا جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے پہلے بھی بچوں پر یقین تھا، کہ یہ بہت ٹیلنٹڈ، بہت انٹیلیجنٹ لوگ ہیں۔ لیکن جب سے میں نے موبائل اور انٹرنٹ پر لیکچر دینے شروع کیے ہیں، ریپلیسمنٹ پیریڈز میں، مجھے بچوں کی شخصیت کے بہت خوبصورت پہلو دیکھنے کا موقع مل رہا ہے۔
ہمارا کوئی بچہ ویسٹ نہیں ہے، الحمد للہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے ملک و قوم کے لئے بہتر سے بہتر سوچنے اور کرنے کی خوش قسمتی عطا فرمائے، آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: حاوی شاہ

No comments: