کچھ فرائض کی ادائیگی ہی کافی سمجھتے ہیں، کچھ سنت موکدہ بھی پڑھتے ہیں، اور کچھ سنت غیر موکدہ اور نوافل بھی پڑھتے ہیں۔ کچھ صرف پانچ نمازوں تک رہتے ہیں، اور کچھ تہجد گزار ہو جاتے ہیں۔ کچھ ان سب کے بعد بھی نوافل پڑھتے ہیں۔
یہ جو بعد والے نوافل ہیں یہ بڑی مزیدار عبادت ہے۔ نمازوں کی حلاوت اور لذت محسوس کرنی ہو تو ان نوافل میں محسوس کی جا سکتی ہے۔
آپ تصور کر سکتے ہیں، اللہ تعالیٰ اس عبادت کا کتنا اجر عطا فرماتا ہو گا۔ شائد تصور بھی نہیں کر سکتے۔ یہ محبت ہی محبت ہے۔ ظاہر ہے محبت کا جواب تو محبت ہی ہو گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تقویٰ بھی ایسی ہی خوبصورت فیلنگ ہے۔ بلکہ بہت ہی خوبصورت فیلنگ ہے۔ مجھے تقویٰ کا واقعہ جہاں بھی کسی بزرگ سے مرقوم ملے میں پڑھ لیتا ہوں۔ ایسے واقعات بہت انسپیریشنل ہوتے ہیں۔ بندے کا دل کرتا ہے اس دنیا میں قدم رکھنے کو۔
تقویٰ کے زیادہ تر واقعات حرام اور حلال سے متعلق ہیں، کہ بندہ کتنا چوکنا، کتنا ہوشیار،کتنا باریک بین ہو سکتا ہے اپنے معاملات اور عادات کے بارے میں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج میں نے ایک واقعہ پڑھا ہے:
حضرت امام احمد بن حنبلؒ کے بیٹے حضرت عبداللہ بن احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں اپنے والد گرامی کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ اس دوران ایک بوڑھی عورت آئی اور اس نے میرے والد صاحب سے ایک مسئلہ پوچھا:
ذرا توجہ سے سنئے گا!
یہ مسئلہ پوچھا کہ میں روئی کاتتی ہوں۔
میں ایک رات چھت کے اوپر بیٹھ کر روئی کات رہی تھی۔
حکومتِ وقت کی پولیس کا داروغہ گلی میں سے گزرا، اس کے ساتھ روشنی کا بڑا انتظام تھا، وہ وہاں کسی سے بات کرنے کے لیے رک گیا، جب روشنی بہت زیادہ ہو گئی اور مجھے روئی اچھی طرح نظر آنے لگی تو میں نے سوچا کہ میں ذرا جلدی کات لوں۔
چنانچہ میں نے جلدی جلدی روئی کاتی۔
جب وہ داروغہ ابنِ طاہر چلا گیا تو بعد میں مجھے خیال آیا کہ ان کا پیسہ تو مشتبہ قسم کا ہوتا ہے اور میں نے اس کی روشنی سے فائدہ اٹھایا ہے، اب یہ روئی میرے لیے جائز ہے یا نہیں؟
امام احمد بن حنبلؒ نے جواب دیا:
تم اس ساری روئی کو صدقہ کر دو، اللہ تمہیں اور رزق عطا فرما دے گا۔
حضرت عبداللہؒ کہتے ہیں کہ میں یہ سن کر بڑا حیران ہوا کہ یہ کیا جواب ہوا۔
جواب تو یہ ہونا چاہیے تھا کہ جتنی مقدار اس روشنی میں کاتی اتنا صدقہ کرو، لیکن ابا جی نے فرمایا کہ ساری روئی صدقہ کر دو۔
اس کے بعد وہ عورت چلی گئی۔
کہتے ہیں کہ دو چار دن بعد پھر وہی بوڑھی عورت آئی اور کہا:
جی میں نے امام صاحب سے مسئلہ پوچھنا ہے۔ چنانچہ وہ امام صاحب کے پاس جا کر مسئلہ پوچھنے لگی کہ میں رات کو چراغ کی روشنی میں روئی کاتتی ہوں تو کبھی کبھی چراغ کا تیل ختم ہو جاتا ہے، تو چاند کی روشنی میں کاتنے بیٹھ جاتی ہوں، چراغ کی روشنی میں روئی صاف نظر آتی ہے اور چاند کی روشنی میں صاف نظر نہیں آتی۔
تو اب بتائیں کہ جب میں گاہک کو روئی بیچوں تو کیا مجھے بتانا پڑے گا کہ یہ چراغ کی روشنی میں کاتی گئی ہے یا چاند کی روشنی میں کاتی گئی ہے؟
امام صاحب نے فرمایا، ہاں تمہیں بتانا پڑے گا۔
اس کے بعد وہ دعا دے کر چلی گئی۔
فرماتے ہیں کہ جب وہ چلی گئی تو امام صاحب بھی اس کا تقویٰ دیکھ کر حیران ہوئے، اور مجھے فرمایا کہ اس عورت کے پیچھے جاؤ اور دیکھو تو سہی کہ یہ کس گھر کی عورت ہے۔ حضرت عبداللہؒ فرماتے ہیں کہ جب میں پیچھے گیا تو وہ بشر حافیؒ کے گھر میں داخل ہوئی،
پتہ چلا کہ یہ بشر حافیؒ کی بہن تھی جس کو اللہ نے اتنی تقویٰ بھری زندگی عطا فرمائی ہوئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی زمانے میں، میں ان واقعات سے بہت متاثر ہوتا تھا۔ میں ڈھونڈ ڈھونڈ کر پڑھتا تھا ایسے واقعات۔ میں یہ نہیں کہتا یہ ہر ایک کو پڑھنے چاہئیں، لیکن یہ کہتا ہوں، جو متاثر ہوتا ہے اسے ضرور پڑھنے چاہئیں۔ بس وہ اللہ تعالیٰ کا خاص بندہ ہے۔
مجھے بڑا مزہ آتا ہے ان واقعات میں۔ ایک عجیب سی خوشی اور خوبصورتی ہوتی ہے۔ میں تھوڑا تھوڑا اس کیفیت کو محسوس کر سکتا ہوں، جو حضرت بشر حافیؒ کے گھر کی اس بڑھیا کی ہوتی ہو گی۔ بندہ ایسے محسوس کرتا ہے جیسے اللہ تعالیٰ میرے دل میں بسا ہے، اور میں لمحہ لمحہ اس کے قرب میں زندگی بسر کر رہا ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کو تقویٰ کی حلاوت نصیب فرمائے، آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: حاوی شاہ
No comments:
Post a Comment