۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان واقعات کی صحت بھی مل جائے گی۔ تھوڑے بہت ردوبدل کے ساتھ، جو ایسے واقعات کا خاصہ ہے، حوالہ بھی مل جائے گا۔ میں کہتا ہوں، یہ واقعات کہانیاں ہی کیوں نہ ہوں، آپ انہیں آزما کر دیکھ لیں۔ لوگ کہتے ہیں، اصل بات یقین کی ہے، میں کہتا ہوں آزما کر دیکھ لیں۔ ان کہانیوں کا کونسپٹ غلط نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عراق میں ایک سید گھرانہ تھا۔ گھر میں ایک سید زادی اور اس کے بچے تھے۔ خاوند کا انتقال ہوچکا تھا۔ سید زادی بچوں کو ساتھ لے کر روزی اور پناہ کی تلاش میں عراق سے ثمر قند آگئی۔ ثمرقند اجنبی شہر تھا، کوئی جاننے والا نہ تھا۔ شام ہو گئی۔ سید زادی نے لوگوں سے دریافت کیا کہ شہر میں کون زیادہ سخی ہے جو ہم کو پناہ دے۔ لوگوں نے بتایا کے شہر میں دو ہی سخی ہیں، ایک حاکم وقت جو مسلمان ہے، اور دوسرا ایک مجوسی، جو آگ کی عبادت کرتا ہے۔ سید زادی نے سوچا کے مجوسی تو مسلمان نہیں وہ کیا پناہ دے گا، حاکم کے پاس چلتی ہوں، شائد وہ کچھ کرے۔ سید زادی بچوں کو لے کر مسلمان حاکم کے پاس آئی اور کہنے لگی، میں آل رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے ہوں، میرے خاوند کا انتقال ہوگیا ہے، میں بے بس ہوں، مجھے پناہ چاہئیے حاکم وقت نے جواب دیا تمہارے پاس کوئی ثبوت کوئی سند ہے کہ تم آل رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہو، آج کل ہر کوئی کہتا ہے، میں سید ہوں؟ سید زادی نے جواب دیا، میرے پاس تو ایسا کچھ بھی نہیں ہے آپ کو دکھانے کے لئے۔ حاکم وقت بولا، میرے پاس بھی کوئی پناہ نہیں ہے ہر ایرے غیرے کے لئے۔ جواب ملنے پر سید زادی مجوسی کے دروازے پر آئی۔ سید زادی نے بتایا، کہ میں سید زادی ہوں، آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوں۔ میرا خاوند انتقال کر گیا ہے۔ میرے ساتھ میرے بچے بھی ہیں۔ مجھے پناہ چاہئیے۔ مجوسی نے اپنی بیوی کو آواز دی، اور کہا ان کو عزت کے ساتھ گھر لے آؤ۔ مجوسی نے سید زادی اور اسکے بچوں کو کھانا کھلایا، رہنے کہ لئے چھت دی۔ آدھی رات ہوئی، حاکم وقت جب سو گیا تو خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو ایک سونے کے محل کے سامنے تشریف فرما دیکھا۔ حاکم وقت نے پوچھا، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم یہ کس کا محل ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا، یہ ایک ایمان والے کا گھر ہے۔ حاکم وقت کہنے لگا، میں بھی ایمان والا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا تیرے پاس ایمان کا کوئی ثبوت کوئی سند ہے تو دکھا دو۔ حاکم وقت کانپنے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا، میری بیٹی تیرے پاس آئی اور تو نے اس سے سند مانگی۔ اب چلے جاؤ میرے پاس سے۔ حاکم وقت اسی وقت بیدار ہو گیا۔ وہ غصے اور افسوس سے اپنے بال نوچنے لگا، منہ پر طمانچے مارنے لگا۔ جلدی سے ننگے سر، ننگے پاؤں باہر آیا، دربانوں سے پتہ کیا، اور آدھی رات کو ہی مجوسی کے گھر جا دستک دی۔ مجوسی جب باہر آیا تو حاکم وقت کہنے لگا، اپنے وہ مہمان مجھے دے دے۔ میں تجھے تین سو دینار دیتا ہوں۔ مجوسی نے کہا، تم مجھے ساری دنیا کی دولت بھی دے دو، تب بھی نہیں دوں گا۔ اور تم جو خواب دیکھ کر آئے ہو، وہی خواب میں نے بھی دیکھا ہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں اپنی نظروں سے دور کیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری طرف متوجہ ہوئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے میری بیٹی کو سر ڈھانپنے کے لیے جگہ دی اور کھانا کھلایا آج میں نے تمہیں اور تمہارے خاندان کو بخش دیا۔ میرا سارا خاندان کلمہ پر ایمان لا چکا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے مجھ سے فرمایا، اے مجوسی تم نے میری بیٹی کو پناہ دی۔ جا تمہارا سارا خاندان جنتی ہے۔ مجوسی نے حاکم وقت سے کہا۔ جا چلا جا دیکھے ہوئے اور اندیکھے میں بہت فرق ہوتا ہے۔ میں نے بند آنکھوں سے سودا کیا تھا۔ (خطبات مفتی جلال الدین امجدی رحمۃ اللہ علیہ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت ربیع بن سلیمانؒ کا واقعہ تو سب جانتے ہیں۔
حضرت ربیع بن سلیمان رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں حج کے لیے جا رہا تھا، میرے ساتھ میرے ساتھی بھی تھے۔ جب ہم کوفہ پہنچے، تو میں وہاں ضروریاتِ سفر خریدنے کے لیے بازاروں میں گھوم رہا تھا کہ دیکھا، ایک ویران سی جگہ میں ایک خچر مرا پڑا ہے تھا اور ایک عورت جس کے کپڑے بہت پرانے اور بوسیدہ تھے، چاقو لیے ہوئے اُس خچر کا گوشت کاٹ کر ایک زنبیل میں رکھ رہی ہے۔ مجھے یہ خیال ہوا کہ یہ مردار گوشت لے جا رہی ہے، اس پر سکوت ہر گز نہیں کرنا چاہیے، شاید یہ عورت لوگوں کو یہی پکا کر کھلاتی ہو۔ سو میں چپکے سے اس کے پیچھے ہو لیا، اس طرح کہ وہ مجھے نہ دیکھ سکے، وہ عورت ایک بڑے سے مکان پر پہنچی جس کا دروازہ بھی بہت اونچا تھا۔ اس نے جا کر دروازہ کھٹکھٹایا، اندر سے آواز آئی کون ہے؟ اس نے کہا، کھولو، میں ہوں بد حال۔ دروازہ کھولا گیا اور گھر میں چار لڑکیاں نظر آئیں، جن کے چہرے سے بد حالی اور مصیبت کے آثار ظاہر ہو رہے تھے۔ وہ عورت اندر آ گئی اور زنبیل اُن لڑکیوں کے سامنے رکھ دی۔ میں کواڑوں کی درزوں سے جھانک رہا تھا۔ میں نے دیکھا اندر سے گھر بالکل برباد اور خالی تھا۔ اُس عورت نے روتے ہوئے لڑکیوں سے کہا ”اِس کو پکا لو، اور اللہ کا شکر ادا کرو“۔ وہ لڑکیاں گوشت کاٹ کاٹ کر، آگ پر بھوننے لگیں۔ مجھے بہت تکلیف ہوئی۔ میں نے باہر سے آواز دی ”اے اللہ کی بندی، اللہ کے واسطے اِس کو نہ کھا“۔ وہ کہنے لگی، تُو کون ہے؟ میں نے کہا، میں ایک پردیسی ہوں۔ اُس نے جواب دیا، تُو ہم سے کیا چاہتا ہے؟ تین سال سے نہ ہمارا کوئی معین، نہ مدد گار۔ تو کیا چاہتا ہے؟“ میں نے کہا، مجوسیوں کے ایک فرقہ کے سِوا مردار کا کھانا کسی مذہب میں جائز نہیں۔ وہ کہنے لگی ”ہم خاندانِ نبوت کے شریف (سید) ہیں، اِن لڑکیوں کا باپ بڑا شریف آدمی تھا، وہ اپنے ہی جیسوں سے اِن کا نکاح کرنا چاہتا تھا، لیکن نوبت نہ آئی، اُس کا انتقال ہو گیا۔ جو ترکہ اس نے چھوڑا تھا، وہ سب ختم ہو گیا۔ ہمیں معلوم ہے کہ مردار کھانا جائز نہیں، لیکن اضطرار میں جائز ہوتا ہے۔ ہمارا چار دن کا فاقہ ہے“۔ ربیع کہتے ہیں، اس کے حالات سُن کر میں بے چین ہو گیا اور اپنے ساتھیوں سے آکر کہا ”میرا تو حج کا ارادہ نہیں رہا“۔ سب نے سمجھایا، لیکن میں نے کسی کی نہ سنی۔ میں نے اپنے کپڑے اور احرام کی چادریں اور جو سامان میرے ساتھ تھا، وہ سب لیا اور نقد چھ سو درہم تھے، وہ لیے اور ان میں سے سو درہم کا آٹا خریدا اور باقی درہم آٹے میں چُھپا کر اُس بڑھیا کے گھر پہنچا۔ اور یہ سب سامان اور آٹا وغیرا اس کو دے دیا“۔ اس نے شکریہ ادا کیا اور کہنے لگی، اے ابنِ سلیمان، اللہ تیرے اگلے پچھلے گناہ معاف کرے اور تجھے حج کا ثواب عطا کرے اور اپنی جنت میں تجھے جگہ عطا فرمائے اور ایسا بدل عطا فرمائے جو تجھے بھی ظاہر ہو جائے“ ربیع کہتے ہیں، حج کا قافلہ روانہ ہو گیا، میں اُن کے استقبال کے لیے کوفہ ہی رُکا رہا تا کہ اُن سے اپنے لیے دعا بھی کرواؤں۔ جب حجاج کا ایک قافلہ میری آنکھوں کے سامنے سے گزرا تو مجھے اپنے حج سے محروم رہ جانے پر بہت افسوس ہوا اور رنج سے میرے آنسو نکل آئے۔ میں اُن سے ملا تو میں نے کہا ”اللہ تعالٰی تمہارا حج قبول کرے اور تمہارے اخراجات کا تمہیں بہتر بدلہ عطا فرمائے“ اُن میں سے ایک نے کہا، کہ یہ کیسی دُعا ہے؟۔ میں نے کہا، اُس شخص کی دعا ہے، جو دروازہ تک کی حاضری سے محروم رہا۔ وہ کہنے لگے، بڑے تعجب کی بات ہے، اب تُو اِس سے بھی انکار کرتا ہے کہ تُو ہمارے ساتھ عرفات کے میدان میں نہ تھا؟ تُو نے ہمارے ساتھ رمی جمرات نہیں کی؟ تُو نے ہمارے ساتھ طواف نہیں کیے؟ میں اپنے دل میں سوچنے لگا، یہ اللہ کا لُطف ہے۔ اتنے میں میرے شہر کے حاجیوں کا قافلہ آ گیا۔ میں نے کہا، اللہ تعالٰی تمہاری سعی مشکور فرمائے، تمہارا حج قبول فرمائے۔ وہ بھی کہنے لگے، تُو ہمارے ساتھ عرفات میں نہیں تھا؟ رمی جمرات نہیں کی تُو نے ہمارے ساتھ؟ اب تو انکار کر رہا ہے۔ اُن میں سے ایک شخص آگے بڑھا اور کہنے لگا، بھائی انکار کیوں کرتے ہو؟ تم ہمارے ساتھ مکہ میں نہیں تھے یا مدینہ میں نہیں تھے؟ جب ہم قبر اطہر کی زیارت کر کے بابِ جبرئیل سے باہر کو آ رہے تھے، اُس وقت اژدہام کی کثرت کی وجہ سے تم نے یہ تھیلی میرے پاس امانت رکھوائی تھی جس کی مہر پر لکھا ہوا ہے… مَن عَاملَنَا رَبَحَ (جو ہم سے معاملہ کرتا ہے، نفع کماتا ہے)“۔ اس نے کہا، یہ لو اپنی تھیلی واپس۔ ربیع رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں، میں نے اُس تھیلی کو کبھی اس سے پہلے دیکھا بھی نہیں تھا۔ اس کو لے کر میں گھر واپس آیا، عشاء کی نماز پڑھی، اپنا وظیفہ پورا کیا، اور اِسی سوچ میں جاگتا رہا کہ آخر یہ قصہ کیا ہے؟ اِسی کشمکش میں آنکھ لگ گئی، تو میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خواب میں زیارت کی، حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے تبسم فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا…”اے ربیع، آخر ھم کتنے گواہ اِس پر قائم کریں کہ تُو نے حج کیا ہے؟ تُو مانتا ہی نہیں، بات یہ ہے کہ جب تُو نے اُس عورت پر جو میری اولاد میں سے تھی، خرچ کیا اور اپنا حج کا ارادہ ملتوی کیا، تو اللہ نے اس کا نعم البدل تجھے عطا فرمایا۔ اللہ نے ایک فرشتہ تیری صورت بنا کر، اُس کو حکم دیا کہ وہ قیامت تک ہر سال تیری طرف سے حج کیا کرے اور دنیا میں تجھے یہ عوض دیا کہ چھ سو درہم کے بدلے چھ سو دینار (اشرفیاں) عطاء کیں“۔ ربیع رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں، جب میں سو کر اٹھا تو اس تھیلی کو کھول کر دیکھا تو اس میں چھ سو اشرفیاں موجود تھیں۔ (رفیق الحرمین)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ ہمیں نبی ﷺ ، اور نبی ﷺ کو عزیز ہر شئے سے عقیدت و احترام رکھنے کی سعادت عطا فرمائے، آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: حاوی شاہ
No comments:
Post a Comment