Image 1 Image 2 Image 3 Image 4
Pyara Islam

قرآن پاک لکھا ہو، اعراب سے لکھا ہو



 قرآن پاک لکھا ہو، اعراب سے لکھا ہو، خوبصورت کتابت میں لکھا ہو، اسے دیکھنے میں بھی ایک اپنا ہی مزہ ہے۔ مجھے کیلیگرافی کا شوق تھا، تو بچپن سے قرون وسطیٰ کے لکھے ہوئے مخطوطات دیکھنے کا بھی شوق رہا ہے۔ آج بھی کہیں قرآن پاک کی کیلیگرافی دیکھنے کو ملے تو نظر آگے نہیں بڑھتی، ٹھہر سی جاتی ہے۔ بڑا مزہ آتا ہے حروف کی خوبصورتی دیکھ کر۔ کہاں سے کیسے کس طرح موڑا ہے قلم کو۔ بعض دفعہ تو ایسا ہوتا ہے، کہ دل کرتا ہے ابھی قلم اٹھا کر  ویسا لکھنے کی کوشش کروں۔ مجھے ”ر“ کا ایک انداز ہے لکھنے کا، خط ثلث میں لکھتے ہیں شائد، مجھے وہ انداز بہت پسند ہے۔ اور زندگی بھر جہاں کہیں بھی ”ر“ اس طرح سے لکھنے کا موقع ملا ہے، بڑا لطف آیا ہے۔ لیکن ایک بار ایک کاتب نے ایسے خوبصورت انداز میں لکھا ہوا تھا، کہ میں نے اسی وقت کہیں سے مارکر ڈھونڈا اور ویسا ”ر“ لکھنے کی کوشش کی۔ مجھے اسے وقت تک سکون نہیں ہوا، جب تک میں قریب قریب ویسا ہی لکھ نہ پایا۔ بڑا خوبصورت انداز تھا کاتب کا۔ ”ع“ ”ع“ ”ح“ اور  ایسے ہی دوسرے حروف بہت کشادگی سے لکھتا تھا، اور ”ر“ ”ہ“ اور دوسرے کچھ کفایت سے۔ 

بہرحال، قرآن پاک پڑھنے اور حفظ کرنے والے جانتے ہوں گے، کہ دیکھ کر پڑھنے میں بھی ایک لطف ہے۔ اور کیسا خوبصورت لطف ہے۔ ایک دو دن صرف زبانی پڑھتے رہو اور دیکھ کر نہ پڑھو تو کچھ کمی سی محسوس ہونے لگتی ہے زندگی میں۔ دل کچھ مانگتا سا محسوس ہوتا ہے۔ میری تو وارفتگی کے زیادہ تر تجربے دیکھنے سے متعلق ہیں۔ پچھلے دنوں کچھ مصروفیت کی وجہ رہی، اورمیں بس زبانی پڑھتا رہا۔ آج مغرب میں یاد آیا تو دل دھڑکنا شروع ہو گیا۔ مجھے بڑا افسوس ہوا۔ 

کوئی بولا ”کانوں کو، زبان کو، دل کو، سب کو اپنی غذا مل گئی ہو گی، نظروں کا کیا قصور ہے۔ نظریں کیسے زندہ رہیں۔ انہیں بھی تو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ وہ بھی تو دیکھنا مانگتی ہیں قرآن پاک کو“۔  

زبانی سننے کی تو بات ہے ہی ہے، زبانی سنانے کی بھی بات اور ہے۔ تجوید سے سنانے کی بھی بات اور ہے۔ میں اکثر سوچتا ہوں، وہ بندہ کیسا جینئس ہو گا، جس نے تجوید کے اصول دریافت کیے۔ آپ جہاں جہاں بھی ”میم“ پر جزم آتی ہے، ”ہم“ ”کم“ والے الفاظ میں خاص طور پر، آپ دیکھیں گے پوری ”لے“ ہی بدل گئی ہے۔ آپ نے اپنا لہجہ دریافت کرنا ہے، بغیر زبان کی تھکاوٹ محسوس کیے پڑھنا ہو، تو ”ہم“ ”کم“ کی جزم پڑھنا سیکھ لیں، اسے صحیح بلانا سیکھ لیں۔ پوری جزم بولیں ”ہمْ“ ”کمْ“۔ بڑے بڑے راز ہیں۔ اور یہ کیسی بات ہے کہ مولوی صاحب پہچان لیتے ہیں، کہ یہ بچہ تجوید سے پڑھنے کی صلاحیت رکھتا ہے، اور اگر اسے سکھایا جائے تو جلدی سیکھ جائے گا۔ اور یہ کیسی بات ہے کہ قاری صاحب یہ جانتے ہیں، کہ فلاں بچے کا لحن اور لہجہ قرأت کے لئے بہترین ہے۔ بڑے بڑے جینئس ہیں ہمارے ان سادہ سادہ سے قاری حضرات میں۔ مجھے بڑا مزہ آتا ہے یہ باتیں دیکھ کر، سن کر، پڑھ کر۔ بدقسمتی سے اس فیلڈ کا، یا مذہب کا تعلق سائنس اور ٹیکنالوجی سے نہیں جڑ سکا، ورنہ بڑی بڑی انونشنز اور ڈسکوریز پوسیبل تھیں۔ 

آپ قرآن پاک کی تلاوت کر رہے ہوں، اور مگن ہو کر کر رہے ہوں، تو اس کا بھی ایک اپنا ہی لطف ہے۔ بندہ دنیا و مافیہا سے دور نکل جاتا ہے کہیں۔ بعض دفعہ اسے پتہ ہی نہیں لگتا اس کی آواز کتنی اونچی ہو چکی ہے۔ آپ قرآن پاک سن رہے ہوں تو قاری کے ساتھ ساتھ پڑھتے ہوئے محسوس کرتے ہیں اپنے آپ۔ آپ کو محسوس ہوتا ہے، کہ ایک سے دوسرے قاری صاحب کے درمیان کیا فرق ہے۔ اور یہ کہ کون سی خوبی ایک قاری صاحب کو دوسرے قاری صاحب سے ممتاز کرتی ہے۔ 

مجھے سب سے مزیدار بات یہ لگتی ہے، کہ بندہ سمجھتا ہے میری آواز تو میرا ساتھ ہی نہیں دیتی، میں کیسے تلاوت کر سکتا ہوں۔ میں نے دیکھا ہے، بندہ کسی کی نقل نہ کر رہا ہو، تو بہت اچھا پڑھ لیتا ہے۔ اپنی آواز میں پڑھ رہا ہو، اپنے زیروبم پر پڑھ رہا ہو، تو بڑا مزہ آتا ہے۔ تجوید کے اصولوں میں اتنی لچک رکھی ہے اللہ تعالیٰ نے کہ ایک قاری کو دوسرے کی نقل کی حاجت نہیں رہتی۔ دونوں اپنی انفرادیت برقرار رکھ سکتے ہیں۔ 

بڑی خوش نصیبی ہے مسلمانوں کی کہ انہیں اتنی خوبصورت کتاب ملی۔ 

آپ قرآن پاک کی کتابت کو ہی لے لو۔ قدیم فن ہے۔ لیکن آج بھی کوئی محبت اور خوبصورتی کے لئے اپنائے تو قرآن پاک کا ہی ہو جاتا ہے۔ 

میں تو سمجھتا ہوں محبت کے انداز ہیں۔ بندہ کسی بھی حوالے سے محبت کرنے لگے۔ خوش قسمتی ہی خوش قسمتی ہے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہمارے دل و دماغ کو قرآن پاک کی محبت سے منور و معطر فرمائے، آمین۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ





No comments: