Image 1 Image 2 Image 3 Image 4
Pyara Islam

انسان جب کسی کے لئے کچھ کرنا چاہتا ہے



 انسان جب کسی کے لئے کچھ کرنا چاہتا ہے تو یہ اس کی خوش قسمتی ہے۔ اسے زندگی کا کوئی مقصد مل گیا ہے۔ وہ انسان جن کے پاس ایسا کوئی نہیں جن کے لئے وہ کچھ کرنا چاہتے ہوں، بدقسمت ہیں۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ انسان جب کسی کے لئے کچھ کرنا چاہتا ہے، کسی رشتہ دار کے لئے، کسی بہن بھائی کے لئے، کسی دوست کے لئے، کسی اجنبی کے لئے، تو پوسیسو ہو جاتا ہے۔ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ تو وہ بہت پوسیسو ہو جاتا ہے۔ اصل میں یہ محبت ہی ہوتی ہے، جو اسے کچھ کرنے پر آمادہ کرتی ہے۔ لیکن یہ محبت کچھ ان کہی پابندیاں بھی لگاتی ہے۔ یہ دوسرے کو محدود بھی کر دیتی ہے۔

انسان کے لئے سب سے مشکل کام کسی کا ممنون ہونا ہے۔ ہم احسان لے لیتے ہیں، لیکن احسانمند ہونا پسند نہیں کرتے۔
جب کوئی انسان کسی کے لئے کچھ کرتا ہے، تو ان سے خلوص کی وجہ سے، محبت کی وجہ سے کچھ کرتا ہے۔ ہونا تو یہی چاہئے کہ کوئی توقعات وابستہ نہ کرے، لیکن توقعات کے بغیر کچھ کر بھی نہیں پاتا۔ اصل میں توقعات مستقبل کا ایک تصور ہوتی ہیں، کہ آگے چل کر ہم اس اس طرح رہیں گے، ہم اس اس طرح کہیں گے، ایسے ایسے یاد کریں گے اس وقت کو۔
انسان جب کسی کے لئے کچھ کرتا ہے، تو اس کے ذہن میں ہوتا ہے، کہ دوسرا شکریہ بولے گا تو کس طرح بولے گا، اور میں شکریے پر کس طرح ریاکشن دوں گا۔ انسان کسی کے لئے کچھ کرتا ہے، تو یہ کہنا چاہتا ہے، کہ نہیں نہیں شکریے کی کوئی بات نہیں، یہ تو میرا فرض تھا۔ لیکن اگر کوئی شکریہ ہی نہ بولے، یا بولے تو اس طرح نہ بولے، جس طرح انسان سے اس سے تصور کیا ہو، تو چیزیں کسی اور رخ چل پڑتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں بات کر رہا تھا، کہ انسان جب کسی کے لئے کچھ کرتا ہے، تو محبت کی وجہ سے کچھ کرتا ہے، اور محبت بڑا پوسیسو جذبہ ہے، یہ کون نہیں جانتا۔ کہی ان کہی پابندیاں لگ ہی جاتی ہیں۔ چاہتے نہ چاہتے کوئی ممنون ہو ہی جاتا ہے۔
یہ ممنون اور احسانمند ہونے والی حالت انسان کی بہت ناپسندیدہ حالت ہوتی ہے۔ وہ زیادہ دیر تک اس میں رہ نہیں سکتا۔ اسے لگتا ہے اس کا دم گھٹ رہا ہے، وہ مر رہا ہے، اس کا کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ پرانے لوگ احسان نہیں لیتے تھے۔ کیونکہ احسانمند ہونا یا احسان فراموش ہونا، دونوں ہی مصیبتیں ہیں۔ دونوں ہی بڑی مشکل حالتیں ہیں۔
بہرحال جب انسان کسی کے لئے کچھ کرتا ہے، تو دوسرا انسان اس احسان سے نکلنے کے راستے ڈھونڈنے لگتا ہے۔ وہ سوچتا ہے، اس نے احسان کیا ہے تو کیا ہوا، میں بھی تو اس کے فلاں فلاں کام آیا ہوں، میں نے اس کو عزت دی ہے، میں نے اس کو وقت دیا ہے، میں نے اس کو برداشت کیا ہے۔ میں اس کے سامنے چھوٹا بنا ہوں۔ وہ ایسی ہی غیر محسوس چیزیں سوچ کر احسان کا بوجھ کم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ بوجھ کم نہیں ہوتا تو وہ ایک اور راستے کی طرف نکل جاتا ہے۔ وہ سوچتا ہے، ٹھیک ہے اس نے احسان کیا ہے، لیکن یہ انسان اندر سے ٹھیک نہیں ہے۔ اس نے یہ سب خود غرضی سے کیا ہے، دھوکے کی نیت سے کیا ہے۔ وہ اپنے محسن کے عیب تلاش کرنے لگتا ہے۔
بس ایسی ہی کوئی ذہنیت ہوتی ہے، جو اسے احسان فراموش بنا دیتی ہے ، اسے محسن کشی کے ایسے راستے پر ڈال دیتی ہے ، جس پر برائی ہی برائی ہے ، اچھائی کوئی نہیں ۔
اولاد والدین، دوست، مالک نوکر، رشتہ دار، کولیگز، ہمسائے، اجنبی، ہر تعلق میں احسان اور قربانی، اور ایثار یہیں تک لے جاتے ہیں۔
وہ جو احسان کا بدلہ احسان والی بات ہے، وہ کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔ اصل میں احسان کا بدلہ احسان بڑی عقل اور ہمت کا کام ہے۔ عام انسان اتنا عقلمندہوتا نہیں ہے۔ وہ کیا کرے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ ہمیں معاملات کی بہتر سمجھ بوجھ عطا فرمائے، آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم حاوی شاہ

No comments: