Image 1 Image 2 Image 3 Image 4
Pyara Islam

جب سے یہ آنلائن کام شروع کرنے



https://www.digistore24.com/redir/526734/aalasha/


جب سے یہ آنلائن کام شروع کرنے، اور کچھ اضافی انکم جنریٹ کرنے کا خیال آیا ہے، کچھ نہ کچھ بدل ضرور گیا ہے۔ میں بڑے پہلوؤں سے سوچنے کی کوشش کرتا ہوں، لیکن کچھ واضح نہیں ہوتا۔ بس یہی محسوس ہوتا ہے، کہ کچھ بدل گیا ہے۔ یہی محسوس ہوتا ہے کچھ بدل رہا ہے۔ دل کی حالت اب ویسی نہیں رہی۔ تلاوتوں میں وہ مزہ نہیں آ رہا۔ نمازوں میں وہ دھیان اور رغبت نہیں آ رہی۔ شائد یہ سب ترجیح اول نہیں رہے۔ اس وقت تو یہی لگتا تھا، کہ بہت کچھ سے بہت دور ہوں، لیکن اب محسوس ہوتا ہے، وہی بہت کچھ تھا۔ وہ سب کچھ بکھر رہا ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے دل میں تاریکی سی اترتی آ رہی ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے تازگی سی ختم ہو رہی ہے۔ ایک بوسیدہ پن ہے، جو محسوس ہوتا رہتا ہے دل و دماغ کو۔ کوئی تعفن سا۔ بڑی عجیب وہ غریب فیلنگز ہو رہی ہیں آج کل۔
نمازوں اور تلاوتوں کے لئے وقت بھی نہیں نکل رہا اور توجہ بھی کم ہوتی جا رہی ہے۔ بس ہر وقت یہی سوچتا رہتا ہوں، کہ کس طرح کوئی کام بن جائے، کس طرح کوئی اور ذریعہ معاش ساتھ مل جائے۔ ہو بھی کچھ نہیں رہا۔ پندرہ پندرہ، اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے، بیس بیس گھنٹے کمپیوٹر پر بیٹھا رہتا ہوں۔ لیکن کچھ سمجھ نہیں آ رہا کیا کرنا ہے۔ کیا کرنا چاہئے۔
ایسے میں یاد آتا ہے تو دل غمگین سا ہو جاتا ہے۔ کہاں آٹھ آٹھ دس دس گھنٹے قرآن پاک پڑھتا رہتا تھا۔ ڈیڑھ ڈیڑھ دو دو گھنٹے کی نماز ہوتی تھی۔ اور اب۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ٹھیک ہے، اللہ تعالیٰ بندے کی حالتیں بدلتا رہتا ہے، اسے ایک حالت سے دوسری حالت میں گھماتا رہتا ہے، جیسے فٹبالر فٹبال کو، لیکن یہ دور ہوتا بڑا مشکل ہے۔ کچھ سمجھ نہیں لگتی مزید گرنا ہے، مزید نکلنا ہے، یا بس۔
میں سوچتا ہوں میرے جیسے عمر رسیدہ لوگوں کا یہ حال ہے، تو نوجوانوں کا کیا حال ہوتا ہو گا۔ ویسے تو میں نے ساری زندگی ہی معاشی فراغت نہیں دیکھی، اور ایک اندھی سٹرگل میں ہی زندگی گزاری ہے، لیکن اس عمر میں تو کچھ اور سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ سوچا تھا بڑھاپے میں پینشن لوں گا، بچے برسر روزگار ہوں گا، تھوڑا بہت سکون مل جائے۔ لیکن۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خیر یہ سب تو ٹھیک ہے، لیکن فکر والا پہلو یہ ہے، کہ اب پہلے جیسی حالت نہیں رہی۔ سارے سوالات تو اس مسئلے پر اٹھ رہے ہیں۔ کیا واقعی پیسے یا دنیا کی کوشش انسان کو اللہ تعالیٰ سے دور کر دیتی ہے۔ اس کا دل سخت ہو جاتا ہے۔ اسے اپنے علاوہ سوجھتا ہی کچھ نہیں ہے۔ مسئلہ تو یہ ہے۔ ٹھیک ہے، ضرورتیں بھی ہیں۔ لیکن میں تو اس یقین سے نکلا تھا، کہ پیسہ کمانے کی کوشش بھی کوئی بری بات نہیں ہے، اس سے دل کی حالت بدلنے، یا غفلت میں گرنے کا کیا گمان ہو سکتا ہے بھلا۔ لیکن غفلت لپیٹ رہی ہے آہستہ آہستہ۔ غفلت غلاف جیسی ہے۔ بندے کی دلچسپی ہی نہیں رہتی، نمازوں اور تلاوتوں میں۔ وہ بس یہی سوچتا رہتا ہے، کہ یہ وقت بھی لگا دوں دوڑ دھوپ میں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور ابھی ایک دو مہینے ہوئے ہیں، سالہا سال بعد تو اللہ ہی حافظ ہے، کیا حال ہو گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اچھا مسئلہ کیا ہے۔ کیا توازن مسئلہ ہے۔ توازن کیسے قائم ہو۔ وقت میں توازن قائم ہو سکتا ہے۔ نیت میں توازن کیسے قائم ہو۔ جب پیسے نہیں ملیں گے، تو توجہ تو جائے گی۔ نیت تو بدلے گی۔ ضرورتیں بڑھ رہی ہوں، اور پیسے کم ہو رہے ہوں، تو توجہ میں توازن کیسے قائم ہو۔ بات یہ ہے کہ کوششیں بار آور ثابت ہوں گی، جو سوچا ہے، وہ ہو جائے گا، ایسا تو نہیں ہوتا۔ اتنی کوشش، اتنی توجہ، اتنی نیت، اتنے وقت سے اتنا پیسہ مل جائے گا یہ طے تو نہیں ہے کسی جگہ۔ اتنی ضرورتیں پڑیں گی، اور اتنے پیسے ملیں گے، یہ لکھا تو نہیں ہوا کسی جگہ۔ اور پھر آپ کے ارد گرد کے لوگ آپ سے اتفاق کریں گے، آپ کا ساتھ دیں گے، صبر کریں گے، یہ بھی تو کوئی پکا پتہ نہیں ہوتا کسی کو۔ ہر چیز تو غیر یقینی ہوتی ہے۔ نمازوں اور تلاوتوں پر استقامت کیسے اختیار ہو۔ اور ایک جیسا لطف و سرور اور انبساط کیسے آتا رہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور پھر مصیبت یہ کہ ایسی باتوں کو لب پر بھی نہیں لانا۔ کسی سے شئیر بھی نہیں کرنا۔ اور کر بھی لو تو کون سا کوئی سمجھتا ہے۔ اس کی توجہ اور ترجیح اتنی نہیں ہوتی۔ اور توجہ، ترجیح، نیت بدلے تو سب کچھ بدل جاتا ہے۔ خلوص انہیں باتوں سے تو بنتا ہے۔ اور بندے کو اپنی حالت کا علم اپنے خلوص سے ہی تو حاصل ہوتا ہے۔ جیسا خلوص ویسا علم۔ یا یوں کہیں جتنا خلوص اتنا علم۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے تو یہ سب سوچ کر اپنے ارد گرد کے لوگ اور بھی معصوم نظر آنے لگتے ہیں۔ ایسے لگتا ہے جیسے سب پھنسے ہوئے ہیں کسی زنجیر میں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب وجہ تلاش کرتا ہوں، تو مجھے اس کی ایک وجہ نظر آتی ہے۔ پتہ نہیں کب ہمارے معاشرے میں ایک عادت شروع ہو گئی۔ ہم بنیادی طور پر اچھے لوگ ہیں، لیکن وقت کے تقاضے جتنا مانگتے تھے، ہم اتنا پڑھے لکھے نہیں ہیں۔ شائد اسی وجہ سے ہمارے اندر یہ عادت پیدا ہو گئی۔
میں نے دیکھا ہے ہمارے معاشرے میں پیسے سے اوپر کچھ نہیں ہے۔ ضروری نہیں کہ آپ پیسے کے اوپر آخرت کو ہی رکھیں، اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کو ہی رکھیں، کوئی اور چیز بھی رکھ سکتے ہیں پیسے سے اوپر۔ انسانیت، ملک و قوم کا درد، علم سے محبت، دنیا کو بہتر جگہ بنانے کی جدوجہد، اپنے ارد گرد کے لوگوں کی بھلائی، اپنا پیشن، ہنر، فن، کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ اور بھی بہت سی چیزیں ہیں جنہیں پیسے سے اوپر رکھا جا سکتا ہے۔ اور میرے خیال میں مغربی معاشروں نے ایسا تجربہ کیا بھی ہے۔ میں تو حیران ہوں، دہریے بھی پیسے کو سب سے اوپر نہیں سمجھتے۔
لیکن ہمارے ہاں شائد ہم اتنے پڑھے لکھے نہیں ہیں۔ ہم اچھے لوگ ہیں، لیکن شائد ادھر دھیان نہیں گیا ہمارا۔
میں نے دیکھا ہے پیسے دینے والا اپنے آپ کو اوپر ہی سمجھتا ہے ہمیشہ۔ چاہے باس ملازم کو دے، چاہے شوہر بیوی کو دے، باپ اولاد کو دے، دوست دوست کو دے، کولیگز، رشتہ دار، ہمسائے، کوئی بھی کسی کو پیسے دے، تو وہ اپنے آپ کو اوپر ہی سمجھتا ہے۔ بدلے میں پیسے لینے والا جو مرضی کر لے۔ جتنی مرضی تابعداری کر لے، جتنی مرضی تعریف اور خوشامد کر لے، جتنی مرضی برداشت کر لے، جتنا مرضی کام کر دے، وہ پیسے دینے والے سے اوپر تو کیا برابر بھی نہیں ہو پاتا۔
ہم کسی سے پیسے لیتے ہیں، تو بہت کچھ دیتے ہیں اسے، اور بعض دفعہ اس کے پیسے سے کہیں زیادہ دیتے ہیں، لیکن ہم اس کی خام خیالی سے اوپر نہیں اٹھ پاتے، کہ اس نے ہمیں پیسے دیے ہیں۔ اس نے تو کیا سمجھنا ہے، ہم اپنے آپ کو بھی اپنے اندر قائل نہیں کر پاتے، کہ ہم نے بھی بہت کچھ ریٹرن میں دیا ہے۔ عزت دی ہے، ممنون ہوئے ہیں، شکریہ بولا ہے۔ اور اکثر اوقات اسے بہت زیادہ برداشت بھی کیا ہے۔
میں یہ نہیں کہتا کہ ہم ایک اینڈ پر ہیں۔ ہم میں سے ہر کوئی لینے والا اور دینے والا ہاتھ ہے۔ ہم کہیں سے لیتے ہیں، اور کہیں دے دیتے ہیں۔ ہم جہاں پیسے دیتے ہیں، وہاں ہمارا رویہ بھی ایسا ہی ہوتا ہے، جیسا ہمیں دینے والے کا تھا، کہ سامنے والا جو مرضی کر لے، وہ ہمیں اپنے آپ سے نیچے ہی نظر آتا ہے۔
ہم کسی چیز کو پیسے سے اوپر نہیں سمجھتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شائد یہیں کہیں کوئی غلطی ہے، کہ ہم پیسہ کمانے کا سوچیں تو ہمیں محسوس ہوتا ہے، ہم اللہ تعالیٰ سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ اور ہو بھی رہے ہوتے ہیں۔ نمازوں اور تلاوتوں کے لئے وقت نکالنا محال ہو جاتا ہے۔ ان میں کوئی لطف و سرور باقی نہیں رہتا۔ کوئی دلچسپی، توجہ، نیت، خلوص باقی نہیں رہتا۔ ان سے کوئی علم حاصل نہیں ہوتا معرفت کا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمیں کسی نہ کسی چیز کو پیسے سے اوپر سمجھتے رہنا چاہئے۔ کسی رشتے، کسی جذبے، کسی لفظ، کسی چیز کو۔ کسی مقصد کو۔ بس یہی سمجھ لگتی ہے مجھے تو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کو ہر ہر حالت میں نماز اور قرآن کی محبت عطا فرمائے، آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: حاوی شاہ

یہ افیلیئیٹ لنک ہے ، یہ پیسیو انکم جنریٹ کرنے کا ایک طریقہ ہے ۔ اگر اس لنک سے کوئی کچھ خریدتا ہے ، تو مجھے کچھ شئیر مل جائے گا ۔ اللہ آپ کو خوش رکھے ۔ آمین ۔

No comments: