میں صرف یہ گزارش کر رہا تھا، کہ بندے کو چاہئے کہ وہ کسی بھی حالت میں نماز چھوڑنے کا فیصلہ نہ کرے۔ سفر میں قصر، یا پانی نہ ہونے کی صورت میں تیمم سے نماز پڑھنے کا حکم اسی لئے ہے، کہ بندہ اگر کسی ایسی حالت میں ہے، جو بظاہر نماز کے لئے مناسب نہیں لگ رہی، ذہنی طور پر یا جسمانی طور پر، تب بھی نماز چھوڑنے کا خیال نہ کرے۔ اگر کسی ایسے گھر میں رہائش ہے، جہاں ٹھیک سے جائے نماز بچھانے کی بھی گنجائش نہیں، ٹھیک سے وضو اور غسل کرنے کی بھی سہولت نہیں، تب بھی جیسے تیسے کر کے نماز ادا کرتا رہے۔ چاہے لاکھ وسوسے گھیریں، کہ ایسی جگہ پر تو نماز قبول ہی نہیں ہو سکتی، تب بھی کوشش کر کے، نماز ادا کرتا رہے۔ اگر کسی ایسی جگہ پر نوکری یا دکان ہے، جہاں ارد گرد پاکیزگی کا معیار محال ہے، تب بھی کچھ نہ کچھ کر کے، نماز ادا کرتا رہے۔ اگر اپنے رزق کے بارے میں بھی معلوم ہو جائے، کہ مشکوک ہے، تب بھی نماز ادا کرتا رہے۔ اگر دوست رشتہ دار بھی بے نمازی ہوں، تب بھی نماز ادا کرتا رہے۔ نماز نہ چھوڑے۔
بعض دفعہ کوئی کہتا ہے، جب رزق کا وسیلہ ہی مشکوک ہے، تو نماز کا کیا ادا کرنا۔ یا پیشہ ہی ناپاک اور حرام ہے، تو نماز کیسے قبول ہو گی۔ بالکل ٹھیک ہے، لیکن اگر پیشہ یا وسیلہ چھوڑنے پر قدرت نہیں رکھتا، تو نماز بھی نہ چھوڑے۔ اگر ماحول اور لوگوں کو نہیں چھوڑ سکتا، تو نماز بھی نہ چھوڑے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کافروں اور مشرکوں کو اسلام یا نماز کی دعوت دینا۔ بعض لوگ لوگوں کو ٹھیک کرنے پر لگائے جاتے ہیں، اور بعض ماحول کو۔
دیکھیں نماز وقت پر اور ہر حالت میں پڑھنے کی بات ہوئی ہے۔ جگہ یا جسم کا پاک ہونا، روزی روٹی کے وسیلے کا جائز ہونا، پیشے کا حلال ہونا، یہ سب باتیں بھی ٹھیک ہیں، لیکن اگر ان سے جان چھڑانے کی ہمت نہیں ہے، یا حالات نہیں ہیں، تو نماز بھی نہ چھوڑو۔ نماز نے ہی ان چیزوں کو ٹھیک کرنا ہے۔ اگر ان کی وجہ سے نماز چھوڑ دی تو پھر کچھ نہیں کہہ سکتے، یہ چھوٹیں یا نہ چھوٹیں۔
بعض دفعہ تو لگتا ہے، جیسے ہر بندے کی نماز کے ساتھ کچھ نہ کچھ ایسا جڑا ہوا ہے، جو اسے نماز پڑھنے سے روکتا ہے، اور وہ اس کی مان لیتا ہے۔ جیسے مصروفیت۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کو نمازوں سے وفا نبھانے کی خوش قسمتی عطا فرمائے، آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: حاوی شاہ
No comments:
Post a Comment