میں بس اتنا ہی کر سکتا ہوں،
میں موٹر سائیکل پر جا رہا ہوں، اچانک مجھے بائیں جانب اپنے قاری صاحب بیٹھے نظر آتے ہیں، سید غفران علی شاہ صاحب۔ سفید ریش مبارک، سفید لباس، اور سفید نورانی چہرہ۔
میں جب انہیں دیکھتا ہوں، اور پہچانتا ہوں، تو میری موٹر سائیکل آگے جا چکی ہے، اور میرے فیصلہ کرنے تک کہ مجھے مڑنا ہے، یا چلتے جانا ہے، میں اور آگے آ چکا ہوں، اور پھر میرا پاؤں میری موٹر سائیکل کی بریک پر سخت ہو جاتا ہے، اور میں ایک گلی سی میں سے موڑ کاٹ کر دوبارہ آتا ہوں، موٹر سائیکل روکتا ہوں، اترتا ہوں، انہیں سلام کرتا ہوں، ان سے پیار اور دعائیں لیتا ہوں، اور واپس آ جاتا ہوں۔
میں بس اتنا ہی کر سکتا ہوں۔
میں کوئی بڑی خدمت نہیں کر سکتا ان کی، لیکن میں چاہتا ہوں میں اتنا تو کرتا رہوں۔
اور ڈاکٹر صاحب نے بھی اتنا ہی کیا ہے ساری زندگی۔
اتنا ہی کرنے کو ہے۔
ڈاکٹر صاحب کے استادوں کا نام آنا، میٹرک، انٹر، ڈاکٹری کے، کرنل الہٰی بخش، یا کوئی اور، تو ڈاکٹر صاحب نے ’بسم اللہ الرحمٰن الرحیم‘ پڑھنا اور ان کی روح کو ایصال ثواب کر دینا۔
”یا اللہ ایک بار بسم اللہ شریف کا ثواب قبول فرما“۔
اپنے والدین کا ذکر آنا، تو اسی طرح ایک بار بسم اللہ شریف کا ثواب ایصال کر دینا۔ اسی وقت، فوراً۔
ویسے بھی پڑھتے تھے۔ کوئی نفل بھی پڑھتے تھے، اپنے والدین کے ایصال ثواب کے لئے، اپنے اساتذہ کے ایصال ثواب کے لئے، اور اسی طرح علمائے کرام، اور بزرگان دین کے ذکر پر ان سب کے ایصال ثواب کے لئے، لیکن بسم اللہ شریف کا ثواب ایصال کرنے والا طریقہ بہت اچھا لگتا تھا مجھے۔
سید غفران علی شاہ صاحب دامت برکاتہ ما شاء اللہ میرے بزرگوں میں سے ہیں، اور مجھے ان سے یسرنا القرآن، نورانی قاعدہ، اور بعد ازاں قرآن پاک ناظرہ پڑھنے کا شرف حاصل ہے۔
ڈاکٹر صاحب کی طرح مجھے بھی ایک خوشی سی محسوس ہونے لگی ہے، اپنے اساتذہ اور علماء کے لئے دعا کر کے، ان کی زیارت کر کے۔
کوئی تو ایسی چیز ہے نا ہمارے اندر، جو ان کے عزت و احترام سے خوش ہوتی ہے، ہماری روح، ہماری عاقبت، ہماری بخشش۔
میں کہتا ہوں کبھی اپنے اساتذہ کے لئے دعائیں مانگ کر دیکھیں، اکثریت نہیں مانگتی،
لیکن مانگ کر دیکھیں، کیسا سکون ملتا ہے ان دعاؤں سے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے ماں باپ اور اساتذہ کا احترام کرنے کی خوش قسمتی عطا فرمائے، آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment