Image 1 Image 2 Image 3 Image 4
Pyara Islam

میرے لئے یہ ایسے ہی ہے

 میرے لئے یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی لاہور سے اسلام آباد جانے والی بس پر بیٹھے، وہ پہلی بار اسلام آباد جا رہا ہو، اسے راستے کا کچھ علم نہ ہو، اسلام آباد کی کوئی پہچان نہ ہو، لیکن اسے اتنا یقین ہو، کہ وہ صحیح اڈے سے صحیح بس پر بیٹھ گیا ہے۔ 
بس کا ڈرائیور، کنڈکٹر، ٹکٹ، سواریاں، ہر چیز اسے یقین دلا رہی ہو، کہ وہ صحیح بس پر سوار ہوا ہے، اور جتنا ٹائم اسے بتایا گیا ہے، اس میں وہ اسلام آباد پہنچ جائے گا۔ 
اسلام آباد جاتی رہتی سواریوں کے چہروں کا اطمئنان بتا رہا ہے، کہ کوئی مسئلہ نہیں ہے، یہ سب روٹین کا کام ہے۔ وہ بھی ایک بار جائے گا، تو ٹھیک ہو جائے گا، ساری تشویش، ساری پریشانی ختم ہو جائے گی۔ 
میرے لئے یہ سب کچھ ایسے ہی ہے۔ 
میں بس میں سوار ہو چکا ہوں، اور مجھے لگتا ہے سب کچھ ٹھیک ہی ہوا ہے اب تک۔ مجھے بس اڈے، بس کمپنی، بس ڈرائیور، کنڈکٹر، ٹکٹ، سواریوں میں سے کسی پر بھی کوئی شک نہیں ہے۔ بس میں نے اپنی سیٹ تک پہنچنا ہے، سیٹ پر بیٹھنا ہے، اور کھڑکی سے باہر دیکھنا شروع کر دینا ہے۔ 
میں نے جان بوجھ کر کھڑکی والی سیٹ لی ہے۔ مجھے بس کی اندر والی سواریوں سے کوئی دلچسپی نہیں ہے، اور نہ مجھے سفر میں خاموشی سے گھبراہٹ ہوتی ہے۔ مجھے پتہ ہے، میں نے اندر والی سواریوں سے کوئی بات چیت نہیں کرنی سارا راستہ۔ اسی لئے میں نے کھڑکی والی سیٹ لے لی ہے۔ 
یہ سب میری اندر کی کیفیت کا علامتی اظہار ہے۔ 
حقیقت یہ ہے، کہ مجھے محسوس ہوتا ہے، اور جب بھی میں کوئی کام اپنے اس احساس سے مخالف کرتا ہوں، مجھے یاد آ جاتا ہے، کہ مجھے یہ سب کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ 
مجھے محسوس ہوتا ہے کہ انسان کی ساری تکلیفیں اور پریشانیاں، ساری خواہشیں، اور کوششیں، سارے ارادے اور منصوبے، اور ان کے علاوہ بھی سب کچھ، محض اس کی روح کی کمزوری ہے، محض اس میں روح کی کمی ہے، محض اس کی سوچوں، یا اس کے نفس کے غالب آنے کی ایک شکل ہے، اور ان کا حل محض اور محض روحانی دلچسپیوں، روحانی مصروفیات، روحانی مشاغل، وغیرہ میں ہے۔
انسان کی روحانی ترقی ہی اس کے تمام مسائل کا حل ہے۔
مسائل تو ہیں ہی نہیں، ایک واہمہ ہے۔ اور جس طرح انسان ان مسائل کو حل کرتا ہے، ان پر توجہ دے کر، اور ان کا حصہ بن کر، اس طرح تو یہ مسائل اور بڑھ جاتے ہیں۔ ان کا حل صرف یہ ہے، کہ ان پر توجہ دینے کی بجائے، روح پر توجہ دی جائے، روح کی کمی یا کمزوری کو پورا کیا جائے،
مذہبی مصروفیات کو زیادہ سے زیادہ بڑھایا جائے۔ 
دوسرے لفظوں میں، انسان کے تمام مسائل، خواہ وہ سوچ سے متعلق ہوں، یا احساسات اور جذبات سے، اس کے روح کے خلا، یا روح میں کمی کی نشانی ہیں۔ انسان کی روح جتنی کمزور ہو گی، اتنی ہی اس کی یہ نفسانی چیزیں زیادہ ہوں گی۔ نفس پر قابو پانے کا مطلب یہی ہے، کہ نفس کے بارے میں سوچنا چھوڑ کر، روح کو مضبوط کیا جائے، اور اپنی ساری توجہ روح پر مرکوز کی جائے۔ 
مجھے یہ محسوس ہونے لگا ہے، اور بار بار محسوس ہونے لگا ہے، کہ مجھے پیسے کی ضرورت نہیں ہے، مجھے خوشیوں کی ضرورت نہیں ہے، مجھے لوگوں سے توقعات کی ضرورت نہیں ہے، مجھے دوسروں کے شکریے کی ضرورت نہیں ہے، مجھے ایسی کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے۔ مجھے ضرورت ہے، تو اپنی روح کی بالیدگی کی، اپنی روح کی لطافت کی، اپنی روح کی پاکیزگی کی، روح کے تزکیے کی، روح کی مضبوطی کی، روح کی ترقی کی، وغیرہ وغیرہ۔
اور اس کے لئے ضروری ہے، کہ میری ہر کوشش، ہر سوچ، ہر تصور، ہر ارادہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی طرف ہو، 
میری مصروفیت نماز اور تلاوتیں ہوں، اور میری غذا ان سے حاصل ہونے والا لطف و سرور ہو۔ بس۔ 
مجھے معلوم ہے، یہ ایک دم سے نہیں ہو گا۔ مجھے معلوم ہے شروع شروع میں بس آہستہ آہستہ چلے گی، رک رک کر چلے گی، لیکن ایک بار بڑی سڑک پر آ کر، ایک بار شہر کی آبادیوں سے نکل کر، موٹر وے پر چڑھ کر، اسلام آباد کی طرف دوڑ پڑی، تو راستہ کچھ بھی نہیں ہے۔ سفر بہت جلد گزر جائے گا، اور بڑا اچھا بھی۔ اور پھر یہ کہ میں نے کون سا رات کے سفر کی ٹکٹ کٹوائی ہوئی ہے۔ میں تو پہلے صبح فجر پڑھ کر نکلا ہوا ہوں۔ اللہ نے چاہا تو ظہر اسلام آباد پڑھوں گا۔ اور پھر سارا وقت راستے کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہوتا جاؤں گا۔ طرح طرح کے مناظر اور احساسات۔ ہو سکا تو ویڈیوز  بھی بناؤں گا، اور ڈائری بھی لکھوں گا۔ 
فیس بک پر شیئر کروں گا سب کچھ۔ بڑا مزہ آئے گا۔ بیوی بچے بھی پڑھیں گے، اور دوست احباب بھی۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو روحانی سفر پر نکلنے کی خوش نصیبی عطا فرمائے، آمین۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


No comments: