ایک حدیث شریف کا مفہوم ہے، کہ اپنے آپ کو مسافر سمجھو۔
کیسی پیاری حدیث مبارکہ ہے۔
مجھے لگتا ہے مجھے اس کی کچھ کچھ سمجھ آ گئی ہے۔ میں نے اسے کئی بار تصور کرنے کی کوشش کی ہے، کئی بار اپلائیڈ فارم میں دیکھنے کی کوشش کی ہے۔
دنیا کو سرائے سمجھو، اور اپنے آپ کو مسافر، یعنی اتنا ہی سامان ساتھ رکھو، جتنا ایک مسافر کی ضرورت ہوتی ہے۔
میرا دل اس حقیقت پر متفق ہو گیا ہے کہ میں ایک مسافر ہوں،
اور یہ دنیا ایک سرائے ہے،
اور میں آخرت کے سفر پر ہوں،
اور مجھے یہ سرائے چھوڑ کر جانا ہے ایک دن،
اور میرے پاس اتنا ہی سامان ہونا چاہئے، جتنے کی مجھے سفر میں ضرورت پڑ سکتی ہے،
کیسی خوبصورت تشبیہ ہے۔
اور یہ ہے کہ مجھے اپنی منزل کو یاد رکھنا ہے،
اور جو سامان اپنی منزل تک لے کر جانا ہے، اس کی حفاظت کرنی ہے،
الست بربکم والا وعدہ، معصومیت،
ایمان، نور،
اور اب میں سوچنے لگتا ہوں، انسان سفر میں نکلے تو اسے کتنے کپڑوں کی ضرورت پڑ سکتی ہے، کتنے پیسوں کی ضرورت پڑ سکتی ہے،
کتنے کھانے پینے، کتنے نہانے دھونے کی ضرورت پڑ سکتی ہے،
کتنے تعلقات کی ضرورت پڑ سکتی ہے،
کتنے تعلقات بڑھانے کی ضرورت پڑ سکتی ہے،
میں بس سوچتا جاتا ہوں،
میں مسافر ہوں، میں سفر میں ہوں،
مجھے رہائش کے لئے کتنی جگہ کی ضرورت ہے،
مجھے اس رہائش کو کتنا بنانے سنوارنے کی ضرورت ہے، کتنا دل لگانے کی ضرورت ہے اس سے،
مجھے اس سفر میں کچھ مسافروں سے میل جول کی ضرورت ہے، لیکن کتنی، اور کس نظر سے؟
سچ تو یہ ہے، کہ بہت کچھ کلئیر ہوتا جاتا ہے،
اپنی حقیقت، اس دنیا کی حیثیت، بہت کچھ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ ہمیں احادیث مبارکہ کے معانی و مطالب کو محسوس اور متصور کرنے کی خوش قسمتی عطا فرمائے، آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment