ویسے تو میرا خیال ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان بہت زیادہ چیرٹی دیتے ہیں، صدقہ، خیرات، زکوٰۃ، فطرانہ، فی سبیل اللہ، قرض حسنہ، مدد، احسان، ویسے ہی۔
لیکن پاکستانی بھی کسی سے کم نہیں ہیں۔
جب میں اپنے ارد گرد دیکھتا ہوں، تو محسوس ہوتا ہے، کہ دنیا کی سب سے بڑی سخی قوم پاکستانی ہی ہیں۔ سب سے بڑھ کر نہ سہی تو، دنیا کی بڑی ترین سخی قوموں میں سے ایک ضرور ہوں گے۔
اور خوشی کی بات یہ ہے کہ یہ سب اللہ کے نام پر دیتے ہیں۔
رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت میں دیتے ہیں،
دین کی حمائت میں دیتے ہیں،
نیک کاموں کی ترویج کے لئے دیتے ہیں،
خدا خوفی، بندہ پروری، خوش خلقی کے نام پر دیتے ہیں،
نرم دلی، اور رحمدلی کے نام پر دیتے ہیں،
لاکھوں کروڑوں مسجدیں، مدرسے، مزار،
چھوٹی چھوٹی ڈسپنسریوں سے لے کر، بڑے بڑے ہسپتالوں تک،
سکول، فلاحی ادارے، تنظیمیں،
کوئی ایک ہو تو گنواؤں۔ آپ لسٹ بنائیں کبھی، آپ کے صفحے بھر جائیں گے، اور کیٹیگریز ختم نہیں ہوں گی۔
اور پھر ان کے علاوہ لاکھوں سٹریٹ بیگرز، بھنگی، چرسی، نشئی تک،۔۔۔۔۔۔۔
ہو سکتا ہے، میں اتنی گنتی نہ کر سکوں، جتنی قسم کے ضرورتمند، جتنی اقسام کے ادارے ہوں پاکستان میں، جو چیرٹی پر چل رہے ہیں۔ سو، پچاس، دو سو، پانچ سو، ہزار تو ایک عام پاکستانی دے دیتا ہے مہینے کا۔ اور یہ ایسا عمل ہے، کہ بیچارہ بات بھی نہیں کرتا کہیں۔
اس کے باوجود،
اس کے باوجود، خوشی کی بات یہ ہے، کہ جتنے دینے والے ہیں، شائد اس سے زیادہ ابھی اور ہیں، ابھی اور دینے والے ہیں۔
بے شمار لوگ نیت کر کے نکلتے ہیں، کہ آج کسی ضرورتمند کو سو روپے دینے ہیں، لیکن ان بیچاروں کو کوئی ضرورتمند نظر نہیں آتا۔
اگر آتا بھی ہے تو خود انہیں ہمت نہیں ہوتی، آگے بڑھ کر سو روپے دینے کی،
پانچ سو ہزار، دو ہزار دینے کی۔
بے شمار کو وہم لگا رہتا ہے، کہ کہیں وہ کسی غلط آدمی کو دے کر الٹا گناہ نہ کما لیں،
بہت سے لوگ کوئی مستحق ڈھونڈتے رہتے ہیں،
اور بہت سے شائد زیادہ ثواب والی جگہ۔
اور دینے والوں میں غریب زیادہ ہیں، اور دینے والوں میں خواتین زیادہ ہیں، اور دینے والوں میں بچے زیادہ ہیں، اور دینے والوں میں سٹوڈنٹس زیادہ ہیں،
اور دینے والوں میں چھپے ہوئے لوگ زیادہ ہیں، جو کسی کے سامنے نہیں آتے،
آپ کو ہر دوسرا تیسرا امیر آدمی کہیں نہ کہیں، کچھ نہ کچھ مدد دیتا ہوا ملے گا،
جس کا وہ نام بھی نہیں لیتا ہو گا کہیں،
میں نے صرف اردو بازار میں کئی عام دکاندار، اور بڑے بڑے تاجر دیکھے، جنہوں نے منتھلی لگائی ہوئی تھی، کئی بیواؤں اور یتیموں کی۔ کئی ضرورتمند آتے تھے، اور وہ چپکے سے، ان سے طے شدہ رقم دے دیتے تھے انہیں۔
میں نے ڈاکٹر صاحب سے کم فیس والے، کوالیفائڈ، ایم بی بی ایس، سپیشلسٹ ڈاکٹر نہیں دیکھے کوئی۔ اتنی کم فیس کے باوجود ڈاکٹر صاحب، غریبوں، بیواؤں، یتیموں، مدرسے کے بچوں، حافظوں وغیرہ سے فیس نہیں لیتے تھے۔ میں نے تو انہیں فیس مانگتے ہوئے دیکھا ہی نہیں ہے کسی سے۔ لوگ خود ہی رکھ جاتے تھے ٹیبل پر۔
ایسے کئی اور ڈاکٹرز ہیں، کئی اور ہوں گے۔
ہر پروفیشن میں ہوں گے۔ ڈاکٹرز کی ہی کیا بات کرتے ہیں، ہر پروفیشن میں ہوں گے۔ وکیل بھی ہوں گے، ٹیچرز بھی ہوں گے۔
بڑھئی، درزی، سبزی فروش، مزدور، ہر سطح پر ہوں گے۔
میں نے کنڈکٹروں کو بھی کرایہ چھوڑتے دیکھا ہے غریبوں کو۔
ہر دکاندار، ہر قسم کا دکاندار، کھانے پینے کی دکانوں سے لے کر، کپڑوں جوتوں کی دکانوں تک، کچھ نہ کچھ مدد کر دیتا ہے کسی کی، کم پیسے لے کر، مفت دے کر،
آپ دیکھنا شروع ہوں گے تو ختم ہی نہیں ہوں گے، اللہ کے فضل سے،
ایسے عام چھوٹے چھوٹے دکاندار،
بڑے تاجروں کی تو بات ہی اور ہے،
جو خاموشی سے دوسروں کی مدد کر دیتے ہیں، اور بائیں ہاتھ کو بھی معلوم نہیں ہونے دیتے۔
یہ وہ مدد ہے، جو صدقہ، خیرات، زکوٰۃ کے علاوہ ہے، جو ایک دوسرے کی مدد ہے، اور جسے ہم میں سے ہر کوئی دو چار بار دیکھ چکا ہے، کہیں نہ کہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ پیارے پاکستان کی ایک چھوٹی سی، لیکن خوبصورت سی تصویر ہے،
اور اگلے دنوں میں میں جب اسے گوگل کرتا ہوا، گوگل ارتھ کی طرح، اس کے چھوٹے چھوٹے گلی کوچوں تک پہنچوں گا، تو آپ کو اور بھی خوشی ہو گی، کہ آپ کا وطن اور آپ کے ہم وطن، کتنے عظیم لوگ ہیں، کتنی بڑی قوم ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ پیارے پاکستان کو تاقیامت سلامت رکھے، اور اس کے خوبصورت لوگوں کو تاقیامت آباد رکھے، آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment