Image 1 Image 2 Image 3 Image 4
Pyara Islam

اوراد و وظائف کی حقیقت مجھے بس اتنی ہی سمجھ آ سکی ہے

 اوراد و وظائف کی حقیقت مجھے بس اتنی ہی سمجھ آ سکی ہے، کہ اس سے کچھ چیزیں ایگزیکٹ اور باقاعدہ ہو جاتی ہیں، اور کوئی بے ترتیبی سے ختم ہو جاتی ہے۔ 

آج حسن پوچھتا ہے، کہ پاپا کوئی وظیفہ بتائیں، 

میں نے کہا، میں نے تو کبھی کیا نہیں ہے، مجھے تو کوئی خاص نہیں پتہ۔ 

کہتا ہے نہیں پھر بھی کوئی پتہ تو ہو گا۔ 

میں نے کہا وہ تو کتابی باتیں ہیں، ان کا کیا فائدہ۔ 

کتابوں میں تو لوگوں نے اللہ تعالیٰ کو پانے کے طریقے، دعائیں مستجاب و مقبول ہونے کے طریقے، اور کشف و کرامات کے طریقے بھی لکھے ہوئے ہیں۔ 

اور حیرت کی بات یہ ہے کہ ان لوگوں نے لکھے ہوئے ہیں، جنہیں ان کا تجربہ نہیں ہے خود۔

”پاپا لوگ لکھی لکھائی باتیں کیوں کرتے ہیں، تجربے اور مشاہدے کی بات کیوں نہیں کرتے۔ پریکٹیکل اور پریکٹسز۔ دوسروں کو بتانے کے لئے کوئی اور اسلام ہے، اور خود سے عمل کرنے کے لئے کوئی اور، ایسا تو نہیں ہونا چاہئے نا“ زارا نے سم اپ کیا۔

بات کچھ کچھ ہنسی مذاق میں چلی گئی۔ میری بیوی اور بیٹیاں بھی انوالو ہو گئیں۔

لیکن میں فوکس لوز نہیں کرنا چاہتا تھا۔ 

اور انہیں پتہ تھا اب کوئی نہ کوئی کہانی آئے گی۔ 

اور وہی ہوا۔ 

میں نے کہا ایک بار میں نے تیرے دادا سے پوچھا تھا یہی، کہ کوئی وظیفہ بتائیں، اور انہوں نے جو وظیفہ بتایا تھا وہ بتایا ہی ہوا ہے، وہ میں نے اب تک نہیں کیا، آپ کر لو، آپ میں ہمت ہے تو۔ 

حسن کہتا ہے، کیا؟

میں نے کہا جب ہم اپنے بزرگوں سے اس طرح کا سوال کرتے تھے، تو انہوں نے ایک کہانی سنا رکھی ہوتی تھی بہت پہلے، اور وہ کہانی ہمارے ذہن میں ہوتی تھی۔ 

کہتا ہے، کون سی کہانی؟

میں نے کہا، کوئی بزرگ اپنے بزرگ سے پوچھتے ہیں، کہ کچھ پڑھنے کو دیجئے، ان کے بزرگ قرآن پاک کی کوئی آئت بتا دیتے ہیں۔ 

وہ بزرگ پوچھتے ہیں، کتنی دفعہ پڑھنی ہے؟

ان کے بزرگ کہتے ہیں، جتنی دفعہ آسانی سے پڑھی جائے، لیکن پھر روزانہ اتنی ہی مقدرار میں پڑھنی ہے، 

وہ بزرگ پوچھتے ہیں، نہیں پھر بھی کوئی مقدار بتا دیں۔

اب ان کے بزرگ ذرا غصے میں آ جاتے ہیں، اور کہتے ہیں، ایک لاکھ بار۔ 

اب پوچھنے والے بزرگ کو مصیبت پڑ جاتی ہے۔ کیسے پڑھیں ایک لاکھ بار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہانی آگے بھی چلتی ہے، لیکن مورل یہی ہے، کہ زیادہ تفصیل میں نہیں جانا چاہئے، اور جو بزرگ کہہ دیں، اسے اپنی سہولت سے کر لیں۔ 

سارے ہنسنے لگتے ہیں، اور حسن کو وارن کرنا شروع ہو جاتے ہیں۔ 

حسن پھر پوچھتا ہے، اچھا دادا جی نے کیا بتایا تھا آپ کو؟

میری بات سمجھ گئے ہیں نا آپ؟ آگے سے بحث نہیں کرنی، سوال نہیں کرنے پھر۔

کہتا ہے، نہیں کرتا۔ 

میں نے کہا، درود غوثیہ۔ 

اس نے تھوڑا سا سسپنس ضائع ہوتا محسوس کیا۔ کہ جیسے توقع تو بہت بڑی تھی، وظیفہ تو کوئی اتنا بڑا نہیں ملا۔ 

میں نے کہا، وظیفوں میں یہی شیطان کام کرتا ہے۔ 

دراصل یہاں بھی انسان کا تکبر کام کرتا ہے، جس طرح اور بہت سی چیزوں میں انسان کوئی نمایاں، کوئی سب سے انوکھی، کوئی سب سے بڑی چیز کرنا چاہتا ہے، وہ وظیفوں میں بھی کوئی انوکھا سا وظیفہ، کوئی بڑا جان جوکھوں والا وظیفہ کرنا چاہتا ہے۔ 

اور مقصد بھی اس کا یہی ہوتا ہے، کہ اس کے بعد اس کے پاس کچھ ایسی پاورز آ جائیں، جس سے وہ لوگوں کو حیران کر سکے، ڈرا سکے، نوکر بنا سکے۔ 

آسان وظیفوں میں اسے یہ سب ہوتا نظر نہیں آتا، اس لے وہ ان سے بھاگ جاتا ہے۔ 

”اسے کہیں، چالیس جمعراتیں، تاریک راتوں میں، کسی سو سالہ بزرگ کی قبر پر بیٹھ کر پڑھنا ہے، یہ یہ یہ، تو وہ پڑھ لے گا۔ اور ظاہر ہے جو اتنا مضبوط ہو گا، وہ تو پہلے ہی کسی نہ کسی شیطانی طاقت کا مالک ہے“۔ 

”بہرحال، تیرے دادا کہتے تھے، کہ جتنا آسانی سے، اور جتنا محبت سے پڑھ لو اتنا ہی ٹھیک ہے، اگر اکتاہٹ ہونے لگے، تو کوئی فائدہ نہیں ہے۔ 

ایک دن آپ نے شروع کیا، اگر تو دوسرے دن اس وقت کا انتظار رہے تو ٹھیک ہے، ورنہ کوئی فائدہ نہیں ہے“۔ 

میں نے حسن کو چار پانچ بار پڑھنے کا کہا تھا، اس کی ماں کہتی ہے، ایک بار ہی بہت ہے۔ میں نے کہا لو اب ماں کا حکم آ گیا ہے، کہ ایک بار۔ اب یہی ٹھیک ہے۔ 

صاف ظاہر ہے، حسن کو جو توقع تھی، جواب اس کے مطابق نہیں تھا۔ 

میں نے کہا، یار اللہ کو ڈھونڈنے، اللہ کو دعائیں کر کر کے، کسی بات پر لانے، اور کسی بات کے پورا ہونے کا انتظار کرنے والی ساری باتوں کی مجھے سمجھ نہیں آتی۔ 

”اور میں آپ کو بتاؤں یہ کوئی طریقہ بھی نہیں ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کو اپنے ساتھ محسوس نہیں کر سکا کوئی، تو اسے ڈھونڈنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اگر اللہ کی مرضی نہیں پڑھ سکا کوئی، تو اس سے دعائیں قبول کروانے کا بھی کوئی حق نہیں ہے اسے۔ اور اگر ہر لمحے میں شامل حال اللہ تعالیٰ کی رحمت کو نہیں پہچان سکا کوئی، تو اس کی رحمت کا انتظار کرنا بھی بیکار ہے“ میں کچھ دیر کے لئے خاموش ہو گیا۔ 

بات ہمیشہ کی طرح سیریس ہو چکی تھی، اور آسان بھی۔ 

”مجھے پتہ تھا، پاپا ایسے ہی کسی پوائنٹ پر لے آئیں گے باتوں کو“ زارا ہنستے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔ 

میری بیوی پہلے ہی کوئی چائے بنانے کی تیاری پکڑ چکی تھی۔ 

رہ گئے ہنستے مذاق کرتے میں، حسن اور سارا۔ 

”پاپا میں تو ویسے ہی پوچھ رہا تھا، آپ تو یونہی اتنی ڈیٹیل میں چلے گئے ہیں“ حسن مسکرا کر موبائل پر شروع ہو گیا۔ 

”بس ٹیسٹر لگاتا ہے، آپ کو، آپ کو پتہ تو ہے اس کا“ میری بیوی نے کچن سے آواز دی۔ 

”چلو کوئی بات نہیں۔ ایسے ہی سیکھتے ہیں بچے۔ لیکن ایک بات سن لیں۔ وظیفوں میں آنے والا شیطان ٹکنے نہیں دیتا کسی وظیفے پر۔ وہ ہر بار یہی کہتا ہے، یہ تو کچھ بھی نہیں، وہ پڑھتے تو اس کے بڑے اعلیٰ اثرات ملتے۔ نہ وہ قرآن پاک کی کسی سورۃ کو مستقل ورد میں آنے دیتا ہے، اور نہ کسی درود شریف کو۔ اور نہ ہی کسی اور اسم یا دعا کو۔ بس ایسے ہی گھمائے پھرتا ہے ساری عمر“۔

”پاپا آپ اس لائن کے بندے نہیں ہیں، اس لئے آپ ایسی باتیں کرتے ہیں“ اس نے اپنی ریڈنگ دی۔ 

”آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہو۔ اور میرا خیال ہے آپ بھی اس لائن کے بندے نہیں ہو“۔

”پاپا آپ کس لائن کے بندے ہیں؟“ سارا ہنسی۔

”میں بس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔“۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہمیں تمام اعمال صالحہ میں سے موافقت اور مطابقت والے اعمال صالحہ چننے کی خوش قسمتی عطا فرمائے، آمین۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


No comments: