توبہ کے مراحل میں آنے والی خوشیاں اور خوبصورتیاں دیکھیں:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
توبہ بڑا مزیدار کام ہے، بہت ہی مزیدار۔
اور توبہ کرنے میں خوبصورتی بھی ہے، ایک طرح کی ایستھیٹک اپیل۔
لیکن بہت سے لوگ توبہ کرنے میں بڑی بڑی غلطیاں کر لیتے ہیں، اس لئے ٹھیک سے توبہ کر نہیں پاتے۔ پھر ٹوٹ جاتی ہے۔ وہ توبہ کو ایک تکلیف دہ عمل سمجھ لیتے ہیں، حالانکہ توبہ ایک بہت بڑی انجوائمنٹ کا پروسس یا سلسلہ ہے۔
دراصل توبہ کو پلان کرنا چاہئے۔
دراصل توبہ کو انجوائے کرنا چاہئے، انجوائے کرنے کی نیت سے کرنی چاہئے۔ لاکھ دل کہہ رہا ہو نہیں کر سکتے، پھر بھی کر لینی چاہئے۔ کہ چلو کچھ دن کی انجوائمنٹ ہی سہی۔ میں تفصیل سے ذکر کروں گا کسی دن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہرحال بڑھاپے کی توبہ اور بھی خوبصورت ہوتی ہے۔ بندہ جوان جوان سا محسوس کرتا ہے اپنے آپ کو۔ جیسے کوئی تھراپی لے رہا ہوں۔
توبہ کسی نئے کام کو شروع کرنے جیسی ہی خوبصورت چیز ہے، تھرل اور ایسائٹمنٹ سے بھری ہوئی۔ توبہ اپنی ول پاور کا ٹیسٹ ہے۔
لیکن توبہ کو پلان کرنا چاہئے، مینیج کرنا چاہئے۔
اگر آپ ایک غیر مذہبی زندگی گزار رہے ہیں،
نہ نماز نہ روزہ، نہ عید نہ شبرات،
طرح طرح کے نشے، طرح طرح کی آوارہ گردیاں، طرح طرح کے شوق اور دوست۔ نہ کوئی شیطانی چھوڑی ہے نہ بدمعاشی۔ لیکن آپ توبہ کرنا چاہتے ہیں۔ آپ اپنے بچوں کو اس راستے سے بچانا چاہتے ہیں۔ آپ اپنی بیٹیوں کو باعزت اور شریف انسانوں سے بیاہنا چاہتے ہیں۔
آپ توبہ کر کے ایک شریف اور مذہبی انسان بننا چاہتے ہیں۔ آپ ایک صاف ستھری اور باوقار زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ نیک نامی اور شرافت سے جینا چاہتے ہیں۔
آپ توبہ کرنا چاہتے ہیں۔
میں کہتا ہوں کبھی ایک دم سے مذہبی ہونے کی کوشش نہ کریں۔ لوگ ہونے ہی نہیں دیں گے۔ آپ بدظن ہو جائیں گے۔
کہیں ایک طرف سے شروع کریں۔
باوضو رہنے لگیں۔ داڑھی رکھ لیں۔ لباس مذہبی پہننا شروع کر دیں۔ ٹوپی پہننے لگیں۔ باقی سب کچھ ویسا ہی چلنے دیں۔
لیکن جو کریں وہ اس نیت سے کریں کہ مر جائیں گے، اب اس کام کو چھوڑیں گے نہیں۔
اچھا دوسری صورت یہ ہے کہ آپ سوچتے ہیں، پتہ نہیں جاری رکھ سکیں گے یا نہیں۔ شروع میں ہی اللہ تعالیٰ سے بات کر لیں، کہ یا اللہ، اچھا لگا، ہمت ہوئی، تو جاری رکھ لوں گا، ورنہ چھوڑ دوں گا۔
کسی چھوٹے سے چھوٹے، کسی معمولی سے معمولی کام کی توبہ کریں۔
ارادہ کر لیں کہ اذان کے وقت خاموش ہو جاؤں گا۔ جو مرضی کام کر رہا ہوں گا، کرتا رہوں گا، لیکن خاموش ہو جاؤں گا۔ کم از کم ایک اذان خاموشی سے سنوں گا۔
اذان کے دوران باتیں نہیں کروں گا۔
چاہے توجہ سے سنی جائے یا نہ سنی جائے، اذان کے دوران باتیں نہیں کروں گا۔
بس ایسے ہی کسی ایک کام سے توبہ کر لیں۔
اور پھر چلنے دیں۔ صبر کریں، اور چلنے دیں۔
فکر نہ کریں، بے چینی نہ آنے دیں۔ ایسے ہی چلنے دیں۔
اپنے اندر ایمان پیدا ہونے دیں۔ محبت پیدا ہونے دیں۔
توبہ ایک جذبے کا نام ہے، دماغی فیصلے کا نام نہیں ہے۔ جذبہ پیدا ہونے دیں۔ احساس پیدا ہونے دیں۔ نئے پیٹرن کو اپنے احساسات اور خیالات کا حصہ بننے دیں۔ چاہے کتنا بھی وقت لگ جائے، اطمئنان رکھیں۔ دل آواز دے تو کوئی دوسری توبہ کریں، ورنہ چپ کر کے چلتے جائیں۔
مطمئن رہیں، کہ توبہ کے راستے پر چل پڑا ہوں۔ منہ اللہ تعالیٰ کی طرف کر لیا ہے۔ اب مر بھی گیا، تو بخش دیا جاؤں گا۔
لالچ میں نہ پڑیں۔ حرص میں نہ آئیں۔ نیکی کا لالچ اور حرص بھی بڑی خطرناک ہوتی ہے۔ وہ بھی نفس کی آواز ہوتی ہے۔ اس لالچ اور حرص سے بھی بچیں۔ تھوڑی سی نیکی پر قناعت کر لیں۔ لیکن مستقل اختیار کریں۔ تھوڑی سی نیکی ہو، لیکن مستقل اختیار کریں۔ اس تھوڑی سی اور چھوٹی سی نیکی کو اگنے دیں، اس کی جڑ لگنے دیں، اسے پلنے پھلنے دیں۔ وہ تھوڑی سی نیکی ہی اگ آئی تو ساری برائیوں کو ختم کر دے گی، ان شاء اللہ۔
امید رکھیں، اور اللہ پر بھروسہ رکھیں۔ یہی صبر ہے، یہی قناعت ہے، اور یہی توکل ہے۔
اگر آپ نے زندگی میں کبھی قرآن شریف نہیں کھولا، کھول کر ہی نہیں دیکھا، اس کی خوشبو ہی محسوس نہیں کی، اسے طاق سے ہی نہیں اتارا، غلاف سے ہی نہیں نکالا، اور پھر ایک دن پڑھنے کا خیال آیا، اور ایک موٹی سی تفسیر لے آئے۔ یہ مشکل کام ہے، ایسا نہ کریں۔
ایک دو دن سوچیں۔ ایک دو دن قرآن پاک کو طاق میں ہی دیکھیں۔ پھر ایک دو دن باوضو ہو کر کھولیں، اور زیارت کر کے، چوم کے واپس رکھ دیں۔
اور پھر کوئی وقت مقرر کریں، کوئی فرصت کا وقت ڈھونڈیں، گھر سے نکلتے ہوئے، گاڑی میں جاتے ہوئے، صبح صبح دفتر پہنچ کر، گھر آتے ہوئے، گھر آ کر سوتے ہوئے، کوئی وقت نکالیں، چاہے پانچ منٹ ہی سہی۔
قرآن پاک کھولیں، دو تین آیات پڑھیں، اور واپس رکھ دیں، عزت و احترام سے۔ وقت ہو بھی تو مزید نہ پڑھیں۔ بس سوچیں، اپنی فیلنگز پر غور کریں۔ ان دو تین آئتوں کے پڑھنے کی لذت اور خوشبو محسوس کریں۔ اسے کسی خوبصورتی سے جوڑیں۔ اپنی جسمانی صفائی، اپنے کپڑوں کی خوشبو، اپنے ماحول کی خوبصورتی سے جوڑیں۔ اور اگر کبھی اگلے دن اسی لمحے کا انتظار محسوس ہونے لگے، تو اس انتظار کو انجوائے کریں۔ کوشش کریں، آیات مبارکہ تین ہی رکھیں، یا جتنی بھی پہلے دن طے کر لیں، کہ اتنی تو پڑھی ہی جائیں گی۔ لیکن کوشش کریں، پانچ چھ منٹ سے زیادہ نہ ہو۔
بس اس چیز کو چلائیں، اسے اپنے احساسات اور جذبات کا حصہ بننے دیں۔
بیس منٹ یا آدھے گھنٹے کی تلاوت تک پہنچنے میں کم از کم ایک سال لیں۔
دیکھیں سورۃ مزمل میں اللہ تعالیٰ اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و سلم سے ارشاد فرماتا ہے، کہ فاقراوا ما تیسر من القرآن۔ اور یہ کہ فاقراوا ما تیسر منہ۔
تلاوت سے دل لگائیں، ثواب کے لالچ میں نہ پڑیں۔ لطف اندوز ہوں، سرور حاصل کریں۔ سرخوشی اور سرمستی حاصل کریں۔ مسرت و انبساط کی کیفیت میں جائیں۔ کیف و حظ محسوس کریں۔
تمام عبادات کے ساتھ ایسا ہی معاملہ رکھیں۔
نماز شروع کریں تو تب بھی ایسے ہی کریں۔ محبت کا راستہ ایسا ہی ہے۔ اور قاضی صاحب، اور ڈاکٹر صاحب جیسے بزرگوں نے ایسا ہی بتایا ہے مجھے۔
ادخلوا فی السلم کافۃ، ایک سٹیج ہے۔ ایک مرتبہ ہے۔ ایک ہی چھلانگ میں داخل ہونے والے بھی ہوتے ہیں، لیکن اکثریت میرے جیسی ہی ہے۔ کم ہمت۔
ان کا طریقہ سہل اور آسان ہوتا ہے۔ آہستہ آہستہ کا مرہون منت ہوتا ہے۔
قاضی صاحبؒ فرماتے تھے، کہ باوضو رہنا شروع کریں پہلے۔ چاہے آدھے گھنٹے کے لئے، چاہے پندرہ منٹ کے لئے۔
آپ نماز نہیں پڑھتے، اور نماز شروع کرنا چاہتے ہیں، تو پہلے کچھ دن باوضو رہنے کی کوشش کریں۔ پھر جس وقت پر بھی موقع ملے، اس وقت کی قضا نماز پڑھ لیں۔
اور پھر اسی پر قائم رہیں۔
اللہ تعالیٰ کو علیم و خبیر جانیں، اور اپنے دل کا رازداں سمجھیں۔ وہ آپ کی نیت کے ماضی، حال اور مستقبل تینوں سے واقف ہے۔ اور وہ اپنے بندوں پر سختی نہیں کرتا۔ اور وہ انہیں اتنا ہی کرنے کا کہتا ہے، جتنی ان کی استطاعت ہے۔
اور اس سے محبت پیدا کریں، اسے عذر دیں۔
اگر آپ کا دل نہیں کرتا تو اسے بتائیں آپ کا دل نہیں کرتا۔ وہ آپ کے دل میں محبت بھر دے۔ وہ بھر دے گا۔
اگر خوف آتا ہے، تو اسے کہیں آپ کو خوف آتا ہے، آپ ڈرتے ہیں، کہ اتنی عبادتیں کیسے ہوں گی، وہ آپ کا خوف دور کر دے گا، اور آپ کو رغبت عطا کر دے گا۔
اللہ تعالیٰ سے بات کرتے ہوئے مت گھبرائیں، مت شرمائیں۔ جو کچھ بھی صورتحال ہے، اس کے گوش گزار کر دیں۔ وہ سب جانتا ہے۔ لیکن شائد اسے آپ کے منہ سے سننا، آپ سے وعدہ لینا اچھا لگتا ہے۔ اور کیوں نہ لگے۔ یہ لمحہ بھی بہت پیارا ہوتا ہے، یہ لمحہ ہی بہت محبت بھرا ہوتا ہے۔
جب بندہ اپنے اللہ سے کوئی وعدہ کر رہا ہوتا ہے، کوئی عذر دے رہا ہوتا ہے، کوئی وعدہ کر رہا ہوتا ہے، کوئی توبہ کر رہا ہوتا ہے، تو اس لمحے کی خوبصورتی جیسی تو خوبصورتی ہی نہیں ہے کسی لمحے میں۔
ذرا تصور کریں، کہ وہ ہستی جو ہر چیز کی خالق و مالک ہے، جس نے سوچیں بھی تخلیق کی ہیں، اور اعمال بھی، جس نے جذبات بھی بنائے ہیں، اور احساسات بھی، ذرا سوچیں، ذرا تصور کریں، بندہ اسے عذر دے رہا ہو۔ اپنی انڈرسٹینڈنگ دے رہا ہو۔
اس سے خوبصورت اور معصوم لمحہ اور کیا ہو گا۔ یہی تو اللہ تعالیٰ کی کبریائی کا لمحہ ہے، یہی تو اس کی خدائی کا لمحہ ہے۔ اور بندے کی بندگی کا لمحہ ہے۔
ایسے لمحوں کو ضائع مت کریں۔ ایسے لمحے تو قسمت سے ملتے ہیں۔ انہیں استعمال میں لائیں۔ اور یہ ذہن میں رکھیں، کہ آپ کو زندگی میں ایسے ہی ایک لمحے کی ضرورت ہے بس۔ ایک لمحے کی، ایک سیکنڈ کی۔ ایک پل کی۔
کوئی بہت لمبے چوڑے وقت کی ضرورت نہیں ہے آپ کو۔
بہرحال اللہ تعالیٰ کو عذر دیں، اور کوئی ایک وقت چن لیں۔ کوئی ایک نماز چن لیں۔ کہ یا اللہ میں یہ نماز پڑھ لیا کروں گا۔ اس طرح، اس وقت۔ تم اس میں برکت ڈال دینا۔ اس وقت، اس حالت میں میں سجدہ کیا کروں گا، تو اسے قبول کر لینا، اس میں برکت ڈال دینا۔
اور اگر آپ کو کسی مالی یا معاشرتی نقصان کا ڈر ہے تو آپ اللہ تعالیٰ سے کہہ دیں، کہ مجھے کوئی مالی اور معاشرتی نقصان پہنچائے بغیر، تمام حالات کو ایسے ہی رکھتے ہوئے، مزید توفیق عطا کر دے، میں مزید پڑھ لوں گا۔
اگر آپ یہاں تک پہنچ گئے، تو میرے خیال میں آپ پاس ہو گئے۔
اگر ایک سال آپ اس حالت پر ٹھہر گئے، تو آپ آگے بڑھنا شروع کر دیں گے۔ ان شاء اللہ۔
دو تین مہینوں بعد آپ کوئی ایک نماز بر وقت ادا کرنے لگیں گے۔
اور یہ یاد رکھیں، کہ فجر اور عشاء آپ کو سب سے آسان لگیں گی۔ آپ سب سے پہلے فجر اور عشاء میں رسوخ حاصل کریں گے۔
اللہ تعالیٰ سے محبت والے دل سب سے پہلے فجر اور عشاء پر فریفتہ ہوتے ہیں۔
پھر ہو سکتا ہے، دو تین سال بعد، آپ عشاء کے ساتھ، ظہر، عصر اور مغرب قضا کر کے پڑھنے لگیں۔
اور پھر اللہ تعالیٰ آپ پر اپنا فضل و کرم کرے گا، اور آپ پانچ نمازیں بر وقت پوری کرنے لگیں گے۔ لیکن بہت سی نمازیں مسجد اور جماعت سے محروم ملیں گی۔
جماعت اور مسجد کی نماز سب سے اونچا اور سب سے آخری درجہ ہے۔
بس صبر اختیار کریں، لالچ نہ کریں۔
اللہ تعالیٰ کو علیم و خبیر سمجھیں، اسے ہی اپنے دل کا حال بتائیں، اسے ہی عذر دیں، اسے ہی اعانت کے لئے پکاریں۔
جو چیز اللہ تعالیٰ نے آپ کی قسمت میں لکھ دی ہے، پھر وہ چاہے رزق ہو، یا صحت ہو، یا نیک اعمال ہوں، وہ آپ کو مل کر رہے گی، اور ساری دنیا بھی کوشش کر لے تو اسے آپ تک پہنچنے سے روک نہیں سکتی، اور جو چیز اللہ تعالیٰ نے آپ کی قسمت میں نہیں لکھی، پھر وہ چاہے، اللہ تعالیٰ کا فضل ہو یا اس کی رحمت ، یا اس کا کرم، وہ ساری دنیا بھی مل جائے، تو آپ تک نہیں پہنچا سکتی۔
بس اس چیز کو اپنی گرفت میں رکھو، اور تھوڑے سے ہی نیک اعمال سے خوش ہونا سیکھو۔
دیکھو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا خوف نکال دو دل سے۔
اس پوری کائنات میں تیرے اور اللہ کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے، وہ خالق ہے اور تو مخلوق، اور تو مخاطب کیا گیا ہے۔
جب اس کی طرف منہ کر لیا ہے، تو پھر اسے فاعل حقیقی مان، اور اپنے آپ کو اس طرح اس کے ہاتھ میں دے دے، جس طرح مردہ غسال کے، اور بچہ دایہ کے ہاتھ میں ہوتا ہے، اور پھر وہ جس طرح سے مرضی، جس طرف سے مرضی اسے گھماتے پھراتے ہیں، اور اسے اپنی حرکت پر چنداں کوئی اختیار نہیں ہوتا۔
اور دیکھو یہ محبت کا راستہ ہے۔ اور محبت کے راستے کا ہر قدم منزل ہی منزل ہے۔ اصل کام اس راستے پر رہنا ہے، کہیں پہنچنا نہیں ہے۔
اگر رغبت نصیب ہو گئی، تو سمجھ لو استقامت نصیب ہو گئی۔
فاذا فرغت فانصب، و الی ربک فارغب۔ (الشرح)
اور فرمایا کہ،
واستقم کما امرت، و لا تتبع اہواء ہم، (الشوریٰ)
اللہ تعالیٰ ہمارا شمار ان بندوں میں فرمائے، جن سے اسے محبت ہے، اور جنہیں اس سے محبت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ ہمارے دل و دماغ کو توبہ کے مراحل میں رکھی ہوئی لذتیں نصیب فرمائے، آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment