(بقیہ ۲)
اور پھر مئی جون کی ایک رات بہت بھاری گزرتی ہے بندے پر۔ وہ اپنے بیوی بچوں کو بیڈ روم میں سوتا چھوڑ کر چھت پر آ جاتا ہے۔ اے سی کی ہوا سے نکل کر چھت کی گرمی جہنم سے کم نہیں تھی کچھ۔ وہ پرانی سی ایک چارپائی باہر نکال لیتا ہے، اور اس پر لیٹ جاتا ہے، بغیر تکیے، بغیر بستر کے۔
اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہی وہ ایسے کیوں کر رہا ہے۔ اس نے اپنے باس کے کہنے پر اس کے ایک کلائنٹ سے جھوٹ بولا تھا، اور اس کے ایک کولیگ نے اس کلائنٹ کو بتا دیا تھا۔ اس کلائنٹ نے اسے خوب لعن طعن کی تھی، اور وہ ساری بے عزتی اپنے باس کی خاطر برداشت کر گیا تھا۔ اس کے باس نے اپنے کلائنٹ کو بچانے کے لئے سب اس پر ڈال دیا تھا، اور اس کی خوب بے عزتی ہوئی تھی۔
وہ یہ سب برداشت کر گیا تھا۔ اس نے اپنے باس کو شرمندہ ہونے سے بچا لیا تھا، لیکن وہ خود مر چکا تھا۔
اس نے اپنے باس، اس کے کلائنٹ، اور دفتر کے دوسرے لوگوں سے کوئی بات نہیں کی تھی۔
وہ بس خاموش ہو گیا تھا۔ وہ بس پچھلے پندرہ دن سے نہایا نہیں تھا، اور اس کی شیو بے ترتیبی سے بڑھی ہوئی تھی۔
اس وقت بھی وہ چھت پر لیٹا سیگریٹوں پر سیگریٹ پئے جا رہا تھا، اور اسے کچھ پتہ نہیں لگ رہا تھا وہ کیا سوچ رہا ہے۔
پتہ نہیں کس طرح وہ وضو کر لیتا تھا، پتہ نہیں کس طرح وہ نماز پ ڑھ لیتا تھا، پتہ نہیں کس طرح وہ دفتر چلا جاتا تھا۔ باقی اس کا کچھ کرنے کو دل نہیں کرتا تھا۔ اور تو اور اس نے پندرہ دن سے دانت بھی صاف نہیں کیے تھے۔
اس کی بیوی نے ساری شرٹس اور پینٹس ہینگ کر رکھی تھیں، لیکن وہ چار چار پانچ پانچ دن ایک ہی پینٹ شرٹ پہن کر جا رہا تھا۔
کھانے میں بھی اسے کوئی تمیز باقی نہیں رہی تھی۔ بچوں کی چھوڑی ہوئی روٹی کھانا شروع کر دیتا۔ اسی پیالی میں، اسی پلیٹ میں، اسی چمچ سے۔
اور پھر اس رات دیر تک سیگریٹ پی پی کر برا حال ہو گیا، تو اٹھ کر چھت کے نلکے سے کلی کر کے منہ پر چھینٹے مارنے لگا۔ رات گرمی کچھ پہلے بھی زیادہ تھی، ہوا بند ہونے کی وجہ سے اور بھی زیادہ لگ رہی تھی۔
بس بائیس تئیس تاریخ کا سرخ چاند تھا جو مختلف ممٹیوں اور مکانوں کے پیچھے سے نکلتا آ رہا تھا، آدھی رات سے بھی بعد کا چاند۔
کہیں اس کے دل میں ایک وہم سا تھا، کہ اس کی بیوی نہ آ جائے اوپر، لیکن وہ نہیں آئی۔ وہ وہیں ٹوٹی پھوٹی سی چارپائی پر لیٹا آسمان کو تکتا رہا۔
’فضول زندگی، کوڑے کرکٹ سے بھی فضول، ردی، کھدی، باسی، چولہے میں جھونک دینے والی، کوئیں میں پھینک دینے والی‘ وہ زندگی کے بارے میں سوچتا سوچتا کروٹ لے کر سو گیا۔
اور کیسا سویا کہ اس کا مقدر جاگ اٹھا۔
وہ کروٹ لیتے ہی ایک خواب میں پہنچ گیا۔
وہ دیکھتا ہے وہ ایک دائرے میں بیٹھا ہوا ہے، نو دس سال کی عمر ہے، اور اس نے سیاہ کپڑے پہن رکھے ہیں۔ اس دائرے کے درمیان میں ایک پندرہ سولہ سال کا لڑکا بیٹھا ہے، سفید کپڑوں میں ملبوس۔
وہ خود نو دس سال کا ہے لیکن موٹا تازہ ہے۔ اس کے سیاہ کرتے کا کالر پیچھے کو گرا ہوا ہے، اور وہ پھسک پھسک کر چل رہا ہے، جیسے موٹا تازہ سا، گول گول رانوں والا بچہ چلتا ہے۔ لیکن اس کے سامنے، اس جتنی عمر کے بچوں کے دائرے کے درمیان میں ایک پندرہ سولہ سال کا لڑکا بیٹھا ہے، تھوڑی تھوڑی مونچھیں نکلی ہوئیں ہیں اس کی، ہلکی ہلکی سی، اور وہ کافی دبلا پتلا ہے۔ اس نے سفید لباس پہنا ہوا ہے۔
وہ اسی طرح دائرے میں بیٹھے ہیں، کہ ایک جانب سے، اس کی دائیں جانب سے، ایک چالیس سال کا مرد، ننگ دھڑنگ، ملنگ سی شکل و صورت کا، سیاہ رنگ کا تہبند پہنے، اور گلے میں کوئی سیاہ چادر اوڑھے، بڑے بڑے سے بال، اور بے ترتیب سی داڑھی رکھے، ایک اور پچیس سالہ مرد کے ساتھ چلتا ہوا، قریب سے گزر جاتا ہے، اس نو نو دس دس سال کی عمر کے بچوں کے قریب سے، اور اس پندرہ سولہ سال کی عمر والے لڑکے کے دائرے کے قریب سے، اور بائیں طرف سامنے کھڑا ہو جاتا ہے، اور وہ پچیس سال کی عمر کا آدمی اس کے ساتھ ہے۔ پچیس سال کی عمر والے نے سفید لباس پہنا ہوا ہے، اور وہ چالیس سال کی عمر کے ملنگ نما مرد سے اس طرح باتیں کر رہا ہے، جیسے اس کے مرتبے سے مرعوب ہو، اور اس کی شان میں کسی گستاخی کا مرتکب ہونے سے ڈر رہا ہو۔ حالانکہ وہ پچیس سال کی عمر والا آدمی خود دیکھنے میں بڑا نفیس دکھائی دے رہا ہے۔
بندہ دس سال کی عمر والے بچے کے بھیس میں سوچتا ہے، کہ چالیس سال والے مرد نے اس کی طرف کیوں نہیں دیکھا، اسے تو ضرور دیکھنا تھا، اور پھر وہ یہ سب سوچ ہی رہا ہوتا ہے، کہ چالیس سال کی عمر والا پچیس سال کی عمر والے سے اشاروں کنایوں میں باتیں شروع کر دیتا ہے۔
بندہ اندازہ لگا لیتا ہے، کہ وہ دونوں اسی کی باتیں کر رہے ہیں۔
وہ پیچس سال والا آدمی، اس چالیس سال والے ملنگ نما مرد کو اس بچے کا کچھ بتاتا ہے، اور وہ ملنگ نما آدمی اس پچیس سال والے مرد کو بتاتا ہے، کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سارے خواب کا منظر ایک ویران سی جگہ ہے، جیسے کسی کوئیں کے قریب ہوں، اور جیسے کوئی قبرستان ہو، اور جیسے کوئی کچی پکی آبادیاں ہوں ارد گرد۔
بہرحال بندہ خواب سے بیدار ہو جاتا ہے، اور اس کی آنکھوں میں آنسو ہیں۔ اسے اس خواب کی تعبیر کا کچھ اندازہ نہیں ہو رہا، لیکن اس کا دل خوش ہے۔ سخت گرمی کے باوجود اسے ہلکی ہلکی سی خنکی محسوس ہو رہی ہے، اور اس کا دل کرتا ہے وہ خوب مل مل کر نہائے، اور خوب اچھی طرح سے دانت صاف کرے۔
وہ چارپائی پر پاؤں لٹکائے بیٹھا ہے، اور اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہی، اپنے خواب کی کیا تعبیر سوچے۔ جو چیز اسے حیران کر رہی تھی، وہ سیاہ اور سفید لباس تھے، اور بچوں اور بڑوں کی عمروں کے فرق تھے۔
اس کے علاوہ اگر کوئی چیز نمایاں تھی، تو لباس کی تراش خراش اور پہننے کا انداز۔
شائد وہ اپنے خواب کی کسی تعبیر تک پہنچ جاتا، لیکن اس کی بیوی چھت پر چڑھ آئی، اور بغیر کچھ کہے، ممٹی کے دروازے میں کھڑی ہو گئی۔
وہ بھی بغیر کچھ کہے اٹھا اور اپنی بیوی کے ساتھ نیچے اتر گیا۔
لیکن اس کا طوفان تھم چکا تھا، اور شور بالکل ختم ہو چکا تھا۔
صبح فجر بہت پر سکون تھی۔ اور اس نے خوب نہا دھو کر ادا کی تھی، نئے کپڑے اپہن کر، اور خوشبوئیں لگا کر۔
اگلے دن کافی دنوں بعد نہایا تھا وہ، اور اسے بڑی فریشنس محسوس ہو رہی تھی۔ اسے بار بار احساس ہو رہا تھا، کہ وہ مارچ اپریل کے کسی مہینے میں جا رہا ہے، اور باہر کسی قسم کی کوئی گرمی نہیں ہے۔
سب سے خوبصورت چیز اس دن کی نمازیں تھیں۔
اتنی خوبصورت، مزیدار، خوشبودار، نمازیں اس نے پچھلے ایک سال سے نہیں پڑھی تھیں۔
اسے بار بار محسوس ہو رہا تھا، اس کی سنی گئی ہے۔ اسے معاف کر دیا گیا ہے۔
اسے چن لیا گیا ہے۔
کیوں چن لیا گیا تھا، یہ سوچنے کے لئے اس کے پاس ساری زندگی پڑی تھی، اور ساری زندگی بہت کم تھی۔
دراصل اسے توبہ کا راستہ، اور توبہ کی لذت نصیب ہو گئی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(جاری ہے)
اللہ تعالیٰ ہمیں توبہ کے پروسس کو سمجھنے کی خوش قسمتی عطا فرمائے، آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment