Image 1 Image 2 Image 3 Image 4
Pyara Islam

ایک بندہ ساری عمر نماز نہیں پڑھتا

 ایک بندہ ساری عمر نماز نہیں پڑھتا، سوچتا بھی نہیں ہے۔ بچپن میں کبھی یاد کی تھی، وضو کرنا سیکھا تھا، نمازیں بھی پڑھی تھیں، ڈائریاں بھی بنائی تھیں، قاری صاحب سے سائن بھی کروائے تھے، پھر پتہ نہیں کیا ہو گیا۔ مڈل سکول، ہائی سکول، کالج، یونیورسٹی، کمپنی، صبح نکلنا، شام کو آنا، ہفتہ دو ہفتے بعد کسی دوسرے شہر کا ٹؤر، کچھ پتہ ہی نہ چلا زندگی کہاں لے گئی، کہاں لے جاتی گئی۔ 

شادی پر مولوی صاحب کے پیچھے پیچھے کلمے اور نکاح کے جملے دہرائے، ایک دو جگہ پر اٹکا، صحیح کیا، اور اللہ اللہ خیر سلا۔ کبھی کبھی کمپنی کے دو چار لوگوں نے اصرار کیا تو جمعہ پڑھنے چلا گیا، ورنہ وہ بھی نہیں۔ عید کی نماز بھی کئی بار چھوٹ گئی۔ 

بیوی نماز پڑھنے والی مل گئی، لیکن کبھی خوشی نہ ہوئی اس کی نمازوں سے، کبھی متاثر نہ کیا اس کے جائے نماز نے۔ بس ٹھیک ہے۔ 

اکثر لوگوں کو جمعہ کی نماز پڑھتے دیکھ کر عجیب سا محسوس ہوتا، لیکن اکثر سے بھی اکثر سوچتا ہی نہیں۔ ٹھیک ہے جو کوئی کر رہا ہے۔ 

اور پھر ایک دن شدید گرمیوں کی دوپہر کو واش روم کی حاجت ہوئی، تو سمجھ نہ آئی بیچ سڑک کے واش روم کہاں سے ڈھونڈے۔ ایک مسجد نظر آئی، اور باہر بنے واش روم بھی۔ گاڑی روکی، کچھ دیر انتظار کیا، اور پھر ایک واش روم میں جانے کا موقع پا کر گھس گیا۔ 

دل نے ملامت کی، کہ ویسے کبھی مسجد میں آیا نہیں، اور واش روم استعمال کرنے کے لئے چلا آیا۔ اللہ تعالیٰ سے شرمندگی کا سا احساس طاری ہو گیا۔ باہر نکلا اور گاڑی میں بیٹھنے لگا، تو بچپن میں سنی ہوئی مولوی صاحب کی بات یاد آئی، کہ نماز کا وقت ہو، اور بندہ مسجد سے بغیر نماز پ ڑھے نکل آئے، تو اس سے بڑی بدنصیبی اور کیا ہے۔ 

اللہ تعالیٰ سے شرمندگی کا احساس اور پھر بچپن کی بات، بندہ سوچتا ہے، میری کوئی لڑائی تو نہیں ہے اللہ تعالیٰ سے نعوذ باللہ۔ زندگی کی مصروفیات میں موقع ہی نہیں ملا۔ چلو آج موقع مل گیا ہے، جمعہ پڑھ لیتا ہوں، کیا فرق پڑتا ہے۔ ٹائم بھی ہے، اور اتنی گرمی میں کچھ دیر آرام بھی مل جائے گا۔ 

یونہی سوچتے سوچتے مسجد میں داخل ہو گیا۔ 

بچپن کی محبت جیسے جاگ اٹھی ہو۔ ایک دم سے بچپن میں پہنچ گیا۔ وہی خوشبو، وہی فضا، وہی ہم مکتب، وہی قاری صاحب، وہی قرآن پاک، وہی اماں کے ہاتھ کی سلی ہوئی ٹوپی، وہی یسرنا القرآن، وہی رحل، وہی سب کچھ۔ آن کی آن میں سب کچھ تازہ ہو گیا۔ 

’پتہ نہیں کہنیاں پہلے دھوتے ہیں یا چہرہ‘ وضو کرتے ہوئے خیال آیا۔ ناک میں پانی ڈالتے ہوئے تھوڑی سی شرمندگی محسوس ہوئی، کیسے سڑکنا ہے۔ کلی بھی بڑے دھیمے سے، بڑے چپکے سے کی۔ کہیں کوئی کہہ نہ دے کہ بھائی کیا کر رہے ہو۔ 

’کئی سال ہو گئے ہیں نماز پڑھے ہوئے غالباً‘ سوچا۔ 

ادھر ادھر دیکھے بغیر جیسا یاد آیا، چپکے سے وضو کیا، اور سر پر رومال باندھ کر ایک برآمدے سے میں بیٹھ گیا۔ بے چینی تو بہت ہوئی، پتہ نہیں جوتے محفوظ بھی ہیں یا نہیں، چوری سے ایک نظر ریک پر بھی ڈال لی، لیکن خوشی سی بھی ہو رہی تھی اندر اندر۔ 

مولوی صاحب نماز کے فضائل پر بات کر رہے تھے، نماز کی برکتوں اور رحمتوں کا بیان فرما رہے تھے، اور بندہ شرمندگی سے اور نیچے، اور نیچے، اور نیچے ہوتا جا رہا تھا۔ 

آنکھوں میں نمی سی اتر آئی۔

’یا اللہ تو مجھے تھوڑی سی فرصت، تھوڑی سی مہلت دے دے۔ یا اللہ میں پانچ وقت کی نماز پڑھوں گا۔ یا اللہ تو مجھے معاف کر دے، بس ایک بار معاف کر دے‘۔ 

دل میں ہزار طرح کے وسوسوں کے باوجود بندہ یہی کہتا رہا۔ دل نے بار بار کہا، کہ تو نہیں کرے گا، تو بھول جائے گا، تو جھوٹا وعدہ کر رہا ہے، لیکن بندہ کہتا رہا۔ 

زندگی میں ایک لڑکی سے محبت ہوئی تھی، ایک بار لاعلمی میں اس کا ہاتھ چھو لیا تھا، پھر اس لڑکی کی یاد میں دو تین لڑکیوں سے باتیں کی تھیں، پھر اپنی کمپنی کے باس کو خوش کرنے کے لئے جھوٹ اور خوشامدوں سے کام لیا تھا، پھر اپنی انا کو بچانے کے لئے اپنے سسرال والوں سے بدتمیزیاں کی تھیں، اپنی بیوی کو جھٹلایا تھا، اور پھر اس طرح کے ہی کئی اور گناہ یاد آتے رہے۔ 

کالج کے زمانے میں ماں باپ سے جھوٹ بول کر فلم دیکھی تھی، دوستوں کے ساتھ مل کر چرس پی تھی، ایک دکان سے کچھ پھل چرا کر کھائے تھے، اور ایک دکاندار کو پیسے دیے بغیر نکل آئے تھے کھانا کھا کر۔

بندہ نماز پڑھ رہا تھا، اور اپنے گناہ یاد کر رہا تھا۔ 

’لیکن اتنے سالوں کے بعد بھی نماز یاد ہے، نماز نہیں بھولی‘ بندے کو تھوڑی سی خوشی ہوئی۔ بندہ سمجھتا تھا نماز بھول چکی ہو گی، لیکن کچھ نہ کچھ کر کے، اسے نماز آ گئی تھی۔ 

مولوی صاحب نے جماعت کروا دی، تو بندے نے سوچا، اب باقی کی نماز بھی پڑھ لوں، آیا تو ہوا ہی ہوں۔ پھر بڑی مشکل سے یاد کیا، کتنی سنتیں کتنے نفل پڑھتے ہیں۔ ظہر کے فرض پتہ نہیں پڑھنے ہیں کہ نہیں۔ کتنی رکعتیں ہوتی ہیں ظہر کی۔ 

اسی طرح کی باتیں سوچتے ہوئے بندہ باقی نماز پڑھ کر، مولوی صاحب کے ساتھ دعا مانگ کر، اور دس پندرہ لوگوں کے دائرے میں کھڑا درود و سلام پڑھ کر مسجد سے باہر آ گیا۔ 

گاڑی میں بیٹھ کر محسوس ہوا جیسے میں وہ انسان نہیں ہوں، وہ پہلے والا، وہ ایک گھنٹہ پہلے والا۔ کچھ کچھ نیا تھا، اور کچھ کچھ بہت ہی نیا تھا۔ 

’مسجد میں بیٹھ کر وعدہ تو کر لیا ہے، اب پڑھنی پڑیں گی تو پتہ چل جائے گا‘ کوئی اندر ہی اندر ہنسا۔ 

بندے نے ایک دم اپنا آپ کمزور پڑتا محسوس کیا۔ اسے لگا وہ واپس آ رہا ہے، نیند سے جاگ رہا ہے، خواب سے نکل رہا ہے۔ 

اپنی کمپنی میں آتے آتے وہ پوری طرح واپس آ چکا تھا، لیکن عصر پڑھنے جاتے کچھ لوگوں کو دیکھ کر وہ دروازے سے باہر کھڑا ہو گیا۔ 

”سر آپ چلیں گے نماز پڑھنے؟“ 

”ہاں، ہاں، کیوں نہیں“۔

کسی کے معمولی سا پوچھنے پر بندہ خوش ہو کر ساتھ چل دیا۔

اور پھر گھر آتے ہی مغرب ادا کر لی۔ 

کوئی خاص مزہ تو نہ آیا، لیکن یونہی مسجد میں کیا ہوا وعدہ نبھانے کے لئے پڑھ لی۔ 

بیوی سے شرمندگی تو ہوئی، لیکن کوئی بات نہیں۔ وہ بھی تو پڑھتی ہے۔ 

بچوں نے شائد زندگی میں پہلی بار نماز پڑھتے دیکھا تھا پاپا کو۔ 

عشاء بھی کچھ اسی طرح پڑھ لی، بادل نخواستہ، اور پھر بیوی کو فجر کی نماز کے لئے اٹھنے پر ساتھ اٹھانے کا کہہ کر سو گیا۔ 

بندہ دیکھتا ہے خواب میں وہ کسی بہت ہی خوبصورت مسجد میں وضو کر رہا ہے، اور جماعت کھڑی ہو رہی ہے۔ بندہ حیران ہوتا ہے کہ اس نے پوری نماز کیسے پڑھ لی۔ 

صبح فجر پڑھ کر بندے نے قرآن پاک کھولا، کچھ دیر کے لئے، اور محسوس کیا، کہ قرآن پاک تو جیسے بھول چکا ہے۔ بہت سے لفظ زبان پر ہی نہیں چڑھ رہے تھے۔ اور حیرانی کی بات یہ تھی، کہ کچھ لفظ اپنے آپ بولے جا رہے تھے۔ 

سارا بچپن یاد آ گیا۔ مسجد، قاری صاحب، یسرنا القرآن، رحل، قطاریں، ایک ایک کر کے مولوی صاحب کو سبق سنانا، اور پھر سپیکر میں نماز پڑھ کر گھر لوٹ آنا۔ 

دفتر جاتے ہوئے بندے کو یاد آیا، میں نے پانچ نمازیں پوری کر لی ہیں، تو اسے عجیب سی خوشی محسوس ہوئی۔ 

’لیکن بس پوری ہی کی ہیں، وہ جمعے والے کیفیت نہیں ملی پھر‘ کوئی اندر ہی اندر بولا ۔ 

’لیکن یہ بھی شکر ہے، کہ پوری کر لیں‘ کوئی اور بولا۔ 

اور پھر دوسرا دن بھی مکمل ہو گیا، اور پھر تیسرا، اور پھر چوتھا، اور پھر ایک ہفتہ، اور پھر دو ہفتے، اور پھر دو مہینے، اور پھر تین مہینے، اور پھر ایک سال۔ 

بندہ کچھ نہ کچھ کر کے پانچ نمازیں پوری کرتا رہا۔ خیالات سے بھری ہوئیں، ٹینشنوں، اور الجھنوں کے درمیان پڑھی ہوئیں، جلدی جلدی اور افراتفری میں پڑھی ہوئیں، لیکن پڑھی ہوئیں۔ بہرحال پڑھی ہوئیں۔ 

’یا اللہ میں نے کوشش تو کی ہے نا، کچھ نہ کچھ کوشش تو کی ہے نا‘ بندہ بیچارگی سے سوچتا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (جاری ہے)

اللہ تعالیٰ ہمیں توبہ کے راستے لی لذتیں نصیب فرمائے ، آمین ۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


No comments: