Image 1 Image 2 Image 3 Image 4
Pyara Islam

بعض دفعہ میں کچھ انسانی رویوں کو سوچتا ہوں

 بعض دفعہ میں کچھ انسانی رویوں کو سوچتا ہوں، 

کہ اگر میں یہی اللہ تعالیٰ کے لئے اپناؤں تو۔۔۔۔۔۔

کچھ دیر کے لئے ایک خیال ضرور آتا ہے، کہ نہیں، 

لیکن ان رویوں میں ایسی اپنائیت ہے، ایسی عبودیت ہے، ایسی عقیدت ہے، ایسی عاجزی ہے، ایسی انکساری ہے، کہ دل انہیں انسانوں پر استعمال کرنے، اور نا سمجھی میں ضائع کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔

مثلا، میرا دل کرتا ہے میں اللہ تعالیٰ کا فین ہو جاؤں۔ فین تو میں ہوں ہی، لیکن اس طرح ایکٹ بھی کرنے لگوں، اس طرح سوچنے، اور بولنے بھی لگوں۔ 

چلو کچھ دیر کے لئے ہی سہی، لیکن ایسے بنوں تو سہی۔

جیسے کسی زمانے میں میں کسی رائٹر کی کتاب پڑھتا، اور اس میں گم ہو جاتا، اسے ختم کرنے کو دل ہی نہ کرتا، اور جب ختم ہو جاتی تو دل کرتا، اس کے رائٹر سے ملاقات کروں، اس سے چھوٹا سا انٹرویو کروں، اس نے یہ یہ بات کیوں لکھی، اس اس موضوع پر اسے لکھنے کا خیال کیسے آیا، اور کیسے اس نے لوگوں کے عام سے رویوں کو آفاقی پیغام بنا دیا۔ میرا دل کرتا میں اس کی تعریف کروں، وہ کتنا خوبصورت سوچتا ہے، اور اس اس موضوع پر اس کی سوچ کتنی خوبصورت ہے۔ میرا دل کرتا میں اس سے ملوں، اور اسے بتاؤں، کہ وہ کتنا ڈفرنٹ اور یونیق ہے، اور مجھے اس کی کتاب نے کیا کچھ دیا ہے۔

آج بھی، میں کسی فین کا انٹرویو سنتا ہوں، جو اس نے کسی رائٹر کے بارے میں دیا ہوتا ہے، وہ اس سے کیسے ملا، کیسے باتیں کیں، کیا محسوس کیا، تو مجھے بڑا رشک آتا ہے، میرا بڑا دل کرتا ہے، کہ میں یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے لئے محسوس کر سکوں، اللہ تعالیٰ کے لئے کہہ سکوں۔ بالکل اسی لہجے میں، اسی عقیدت سے، اسی احترام سے، اسی محبت سے، جیسے وہ اپنے فیورٹ رائٹر کے لئے کہہ رہا ہوتا ہے۔ 

جس طرح کوئی اپنے فیورٹ رائٹر سے ملنے جاتا ہے، دھڑکتے ہوئے دل سے بیل دیتا ہے، پتہ نہیں وہ گھر ملے نہ ملے، پتہ نہیں اس کا موڈ کیسا ہو، پتہ نہیں وہ کس طرح رسیو کرے، پتہ نہیں وہ بیٹھنے کا کہے یا دروازے سے ہی چلتا کر دے، پتہ نہیں، پتہ نہیں اسے کسی اہمیت کے قابل سمجھے بھی یا نہ سمجھے،

میرا بڑا دل کرتا ہے اس سب سے گزرنے کو، اللہ تعالیٰ کے لئے اس سب سے گزرنے کو۔ 

کیسے بندہ ڈرتے ڈرتے بیل دیتا ہے، اور چھوٹا سا ہو کر ایک طرف کھڑا ہو جاتا ہے، ہاتھ باندھ کر، دھڑکتے دل کے ساتھ، لیکن محبت اور عقیدت سے، منتیں کرنے کا جذبہ لے کر، بس چند منٹ کی ملاقات کی عنائت مانگنے کے لئے، بس ایک آٹو گراف کا صدقہ لینے کے لئے۔

’وہ جی ان سے کہئے میں آیا ہوں، میں۔ بس تھوڑا سا وقت چاہئے ان سے۔ جی جی بات ہوئی تھی جی، انہوں نے کہا تھا آ جائیں‘ بندہ اپنے فیورٹ رائٹر کے عمر رسیدہ نوکر سے کہتا ہے۔

کتنا خوبصورت ہو گا یہ سب اللہ تعالیٰ کے لئے محسوس کرنا۔

ایسے ہی چھوٹا سا ہو کر، بے حیثیت سا ہو کر کھڑے ہونا، ایسے ہی دھڑکتے دل کے ساتھ اپنے فیورٹ رائٹر کے باہر نکلنے کا انتظار کرنا۔

اور پھر بندے کا فیورٹ رائٹر باہر نکلتا ہے، گیٹ پر آتا ہے، اور بندہ حیران رہ جاتا ہے، یہ وہی رائٹر ہے، یہ وہی شخصیت ہے، جسے وہ لحافوں میں لیٹ کر پڑھتا رہا، تنہائیوں میں سوچتا رہا، سیروں اور پکنکوں پر ڈسکس کرتا رہا، چائے کی پیالیوں، اور کافی کے مگوں کی لذت میں محسوس کرتا رہا۔ بندہ حیران ہوتا ہے، یہ وہی ہستی ہے، یہ وہی لافانی قوت تخلیق ہے، یہ وہی روشنی ہے، وہی خوشبو ہے، اس کی صبحوں اور شاموں کو مہکانے والی، اس کے خوابوں کو متاثر کرنے والی، اس کے پسند نا پسند کو نئی سمت پر ڈالنے والی، اس کے آئیڈیلز اور گولز کو یکسر تبدیل کر کے رکھ دینے والی، بندے کو یقین نہیں آتا۔

میں چاہتا ہوں میں کسی جامع مسجد کے دروازے پر ایسے ہی ملوں اللہ تعالیٰ سے، ایسے ہی محسوس کروں اسے۔

جس طرح بندہ اپنے فیورٹ رائٹر کو سامنے دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے، بندہ ہاتھ ملانا بھول جاتا ہے، بندہ ہاتھ ملا کر ہاتھ چھڑانا بھول جاتا ہے، ہاتھ چھوڑنا بھول جاتا ہے۔ اتنا پیارا لمس، اتنا پیارا انداز، اتنا نرم اور مخملیں احساس۔ 

میرا دل کرتا ہے میں کسی جامع مسجد سے اندر داخل ہوتے ہوئے ایسے ہی محسوس کروں، ایسے ہی دیکھوں۔

بندہ کس طرح چھوٹا سا ہو کر پیچھے پیچھے چلنے لگتا ہے اپنے فیورٹ رائٹر کے۔

کیسا خوبصورت لمحہ ہوتا ہے وہ اس کی زندگی کا۔

بندے کا فیورٹ رائٹر اسے اپنے گھر کے باغیچے کی راہداریوں سے پھراتا ہوا، بڑے دروازے تک لے آتا ہے، اسے اندر ایک جانب کر کے بنے ہوئے، اپنے خوبصورت سے ڈرائنگ روم میں بٹھاتا ہے، اور خود کچھ دیر کے لئے اوجھل ہو جاتا ہے، دوسرے کمرے میں چلے جاتا ہے، چینج کرنے کے لئے، تیار ہونے کے لئے، چائے پانی کا کہنے کے لئے۔ 

اور بندے کو یقین نہیں آتا، کہ وہ اپنے فیورٹ رائٹر کے گھر بیٹھا ہے۔ وہ ادھر ادھر دیکھتا ہے۔ اسے ڈرائنگ روم میں کتابیں ہی کتاابیں نظر آتی ہیں، الماریوں میں  رکھی ہوئی، قرینے اور سلیقے سے رکھی ہوئی، سائیڈ ٹیبلوں، اور میزوں پر آویزاں۔ اسے اپنے فیورٹ رائٹر کی انٹیقس نظر آتی ہیں، نوادرات۔ اور پھر کھڑکی کے خوبصورت پھولوں والے پردوں سے باہر وہ لان، جہاں سے وہ ابھی گزر کر آیا ہے، وہ گیٹ، وہ عمر رسید نوکر۔ اور بندہ سوچتا ہے یہ لان، یہ پودے، یہ ساری چیزیں اس کے فیورٹ رائٹر کی چھوئی ہوئی، اسی کی ترتیب دی ہوئی ہیں۔ بندہ ایک ایک چیز میں اپنے رائٹر کی مہک محسوس کرتا ہے، اس کا لمس محسوس کرتا ہے۔

میں چاہتا ہوں میں یہ سب اللہ تعالیٰ کی موجودگی میں محسوس کروں، اسی طرح محسوس کروں، ایسے ہی محسوس کروں، کسی جامع مسجد کے صحن میں، کسی منبر کے قریب، کسی قرآن شریف کی الماری کے پاس، خوشی اور طمانیت کے ساتھ، اپنائیت کے ساتھ۔ اپنے فیورٹ رائٹر کی چیزیں سمجھ کر۔ 

اور پھر بندے کا فیورٹ رائٹر آ جاتا ہے، گون پہنے، ہاتھ میں ایک کتاب پکڑے، آنکھوں پر عینک لگائے، اور بڑے پیار سے گفتگو کا آغاز کرتا ہے۔ 

بندہ حیران رہتا ہے، کہ اس کا فیورٹ رائٹر، اس کا آئیڈیل، اس کا خواب، اسے بولنے کا موقع دے رہا ہے، اور تھوڑی سی بات کر کے، اسے زیادہ سے زیادہ سنتا  ہے، دیر تک سنتا ہے۔ بندے کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہتا۔ بندہ بولنا شروع کرتا ہے، اور بولتا ہی چلا جاتا ہے۔ وہ کردار، وہ منظر، وہ ڈائیلاگ، وہ سب کیسے لکھ لیا تھا آپ نے۔ بندہ ایک طرح کے تھرل میں آ جاتا ہے۔

میں چاہتا ہوں ایسے ہی کسی دن اللہ تعالیٰ سے باتیں کرنے کا موقع مل جائے دیر تک، بغیر انٹرپشن کے۔ اور میں اس سے یہ بھی کہوں اور وہ بھی۔ 

اور پھر بندے کو بے شمار باتیں ایک ہی بار یاد آ جاتی ہیں، اور سب گڈ مڈ ہو جاتی ہیں، اسے معلوم ہی نہیں ہوتا، وہ کون سی پوچھے، اور کون سی رہنے دے۔ 

بندہ بے شمار باتیں کرتا ہے، پونے گھنٹے کی ملاقات میں دنیا جہان کی باتیں پوچھ لیتا ہے، اور بتا دیتا ہے۔ 

بندہ حیران ہوتا ہے اس کا فیورٹ رائٹر بالکل اسی طرح کا ہے، اسی طرح کے احساسات اور جذبات والا۔ لیکن اس سے بہت بہتر، اور بہت بڑٖا۔ 

میرا بڑا دل کرتا ہے یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے لئے محسوس کروں، اس کے بارے میں تصور کروں، اس سے کہوں۔ 

میرا بڑا دل کرتا ہے اللہ تعالیٰ مجھے کسی دن ایسے ہی رسیو کرے، ایسے ہی ملے، ایسے ہی بٹھائے، ایسے ہی بولے، ایسے بولنے دے۔ 

میرے تصور میں ہی سہی، ایسے ہی کرے۔

کیونکہ میرا فیورٹ رائٹر وہی ہے۔ 

میں اکثر تصور کرنے کی کوشش کرتا ہوں، کہ قرآن شریف لوح محفوظ میں موجود ہے۔ وہ لوح محفوظ میں رقم ہونے والا پروسس کیسے چلا ہو گا، کیسے مکمل ہوا ہو گا، کیسے وہاں سے جبرائیل علیہ السلام کو منتقل ہوا، کیسے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاں آیا ہو گا، اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے قلب و نظر کی زینت بنا ہو گا، اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان مبارک سے جاری ہوا ہو گا، اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے لحن اطہر سے ادا ہوا ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

آج میں جب اپنی لمبی زندگی کا تصور کرتا ہوں، تو سب سے پہلے یہی خیال آتا ہے، کہ چلو زیادہ سے زیادہ قرآن شریف پڑھنے کا موقع مل جائے گا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہم سب مسلمانوں کے دل و دماغ کو قرآن شریف کی محبت سے منور و مصور فرمائے، آمین۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments: