Image 1 Image 2 Image 3 Image 4
Pyara Islam

عبادات سے سکون کیوں نہیں ملتا؟

 عبادات سے سکون کیوں نہیں ملتا؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک تو یہ ہے کہ ہمیں نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ ادا نہ کر کے سکون نہیں ملتا، 

دوسرا یہ ہے کہ ہمیں یہ سب ادا کر کے بھی سکون نہیں ملتا، 

بہت سے لوگ یہ سب اس لئے بھی نہیں کرتے، اور اس لئے بھی کر کے چھوڑ دیتے ہیں، کہ انہیں یہ سب کر کے بھی سکون نہیں ملتا،

ایک مسلمان کو اسلام پر عمل کر کے سکون کیوں نہیں ملتا؟

اس کی ایک سادہ سی وجہ ہے، 

اسے اسلام کی تمام انفارمیشن نفی سے شروع کر کے ملی ہوئی ہے، اسے اثبات کا بتایا ہی آخر میں گیا ہے، 

اسے بتایا ہی اس طرح جاتا ہے، کہ کون کون سا مسلمان دائرہ اسلام سے نکل جاتا ہے، 

کون کون، کس کس حالت میں قرآن شریف کو نہیں چھو سکتا، نماز کے قریب نہیں جا سکتا، وضو کا محتاج ہے،

کون کون سی چیزیں نماز مکروہ اور غیر مقبول بنا دیتی ہیں، 

کون کون سی چیزوں سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، 

کون کون سی باتیں، صدقہ خیرات اور دوسرے نیک اعمال ضائع کر دیتی ہیں،

کون کون سی کمائی ناجائز ہے، 

کون کون سے لوگوں کا حج اور قربانی قبول نہیں ہوتے،

اسے بتایا ہی نفی کے بارے میں جاتا ہے۔ 

نفی کا یہ علم اتنا زیادہ ہے، کہ لوگوں کو یقین ہی نہیں آتا، کہ ان کا کوئی عمل قبول بھی ہو سکتا ہے، ان کی توبہ قبول بھی ہو سکتی ہے، 

وہ سب کچھ کر کے بھی بے یقینی کا شکار رہتے ہیں، 

انہیں حج کر کے بھی یقین نہیں آتا، کہ ان کے گزشتہ گناہ معاف ہو گئے ہیں، 

انہیں درود شریف پڑھ کر بھی یقین نہیں آتا، کہ ان کی اسی سال کی عبادت قبول ہو گئی ہے، اور گناہ معاف ہو گئے ہیں،

انہیں صدقہ، خیرات دے کر بھی یقین نہیں آتا، کہ ان کا مال قبول ہو جائے گا، ان کا مال جائز تھا، 

انہیں روزہ رکھ کر بھی یقین نہیں آتا، کہ ان کا روزہ قبول ہو جائے گا، 

اعمال کی قبولیت کے بارے میں یہ ساری بے یقینی انہیں اس سکون سے محروم کر دیتی ہے، جو ان اعمال کا مقصد تھا۔ 

وہ سمجھتے ہیں ہم مسلمان ہیں، وہ رو رو کر کہتے ہیں ہم مسلمان ہیں، لیکن انہیں بار بار بتایا جاتا ہے کہ وہ مسلمان نہیں ہیں، مکمل مسلمان نہیں ہیں، کافر ہیں، مشرک ہیں، منافق ہیں، پتہ نہیں کیا ہیں۔ ہر خطبے، ہر تقریر میں، ہر عالم دین کہہ رہا ہوتا ہے، کہ وہ مسلمان نہیں ہیں، سچے مسلمان نہیں ہیں، مکمل مسلمان نہیں ہیں۔ 

وہ اپنی طرف سے پوری کوشش کرتے ہیں، لیکن انہیں کسی طرف سے کوئی سرٹیفکیٹ نہیں ملتا، 

جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے، کہ وہ بے یقینی کا شکار ہو جاتے ہیں، 

اور یہ بے یقینی انہیں عبادات کی لذت اور سکون سے محروم کر دیتی ہے،

وہ چاہتے ہیں وہ غور ہی کرنا چھوڑ دیں، وہ سوچنا ہی چھوڑ دیں کہ لذت اور سکون بھی کوئی چیز ہوتی ہے عبادتوں میں، 

وہ چاہتے ہیں عبادتیں ادا کر دی جائیں بس، بغیر غور کیے، 

لیکن وہ ایسا نہیں کر پاتے، 

وہ اپنے آپ کو چھوڑتے ہیں تو دوسروں پر غور کرنا شروع کر دیتے ہیں، 

دوسروں کی عبادات اور نیک اعمال پر،

اور مزید سخت مزاجی کی حالت میں وہ دوسروں کو بھی تنقید کا نشانہ بنانے لگتے ہیں، اور دل ہی دل میں یا کھلم کھلا کہنا شروع کر دیتے ہیں، کہ ان کے اعمال قبول نہیں ہوں گے، ان کی یہ یہ خرابی کی وجہ سے۔

اس ساری صورتحال میں ایک خاموش طبقہ ہوتا ہے، اس خاموش طبقے میں دین سے لا تعلقی بڑھتی جاتی ہے، اور جو عمل کر بھی رہے ہوتے ہیں، وہ ان سے متاثر نہیں ہوتے، اور انہیں اپنے سے بھی برا خیال کرتے ہیں،

اکثر دین سے دور لوگ، اپنے آپ کو دین کے قریب لوگوں سے بہتر بیان کرتے ہوئے ملیں گے آپ کو، 

اس کی وجہ یہی ہے، 

کہ انہوں نے دیکھا ہوتا ہے، کہ کوئی کسی کو سوچنے نہیں دیتا، کوئی کسی کو توبہ نہیں کرنے دیتا، کوئی کسی کے ماضی پر پردہ نہیں ڈالتا،

کوئی کسی کو عبادات کی لذت اور طمانیت تک جانے ہی نہیں دیتا،

ورنہ قرآن پاک میں تو آتا ہے کہ:

قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ، اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا، اِنَّہ ہُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ (زمر) 

کہہ دو اے میرے بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، بے شک اللہ سب گناہ بخش دے گا، بے شک وہ بخشنے والا رحم والا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہونا تو یہ چاہئے تھا، کہ ہم خوش خبری سناتے، وعید نہ سناتے، 

ہم قبولیت کی بات کرتے، نہ قبولیت کی بات ہی نہ کرتے، 

لیکن ہم نے عمل کو بہتر بنانے کے لئے، ناقبولیت کو اتنا راسخ کر دیا ہے، کہ قبولیت پر یقین ہی نہیں آتا، 

اور یہ سب دانستہ طور پر نہیں ہوا، نادانستہ طور پر ہوا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایسی صورت میں بندے کو صرف ایک چیز کا دھیان رکھنا چاہئے، 

کہ اس کا  منہ اللہ تعالیٰ کی طرف ہی ہے، اس کی ترجیح آخرت ہی ہے، اس کی نیت آخرت میں بخشش  ہی ہے،

اگر ایسا ہے، تو اطمئنان رکھے، اور جو ہو سکتا  ہے کرتا جائے۔

بس شیطان سے کنارہ کرے، دنیا کو ترجیح نہ دے، اور آخرت میں بخشش کی امید رکھے۔

اللہ تعالیٰ کو اپنے ساتھ محسوس کرے، اور اپنے اعمال مقبول تصور کرے۔ 

اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھے، 

اور ہر ایک کے لئے دعا کرے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اثبات اور معروف کا علم حاصل کرنے کی سعادت عطا فرمائے۔ آمین۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


No comments: