کفر و ایمان، دنیا و آخرت، ظاہر و باطن، نیز ان کے تضادات کے بارے میں:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بندے پر بدقسمتی آتی ہے، جب اس کے ہاتھ یا زبان سے برائی ہوتی ہے:
۱۔ ماں باپ کے ساتھ،
۲۔ رشتہ داروں کے ساتھ،
۳۔ کمزوروں کے ساتھ،
۴۔ محسنوں کے ساتھ،
۵۔ بیوی کے ساتھ (بیوی کے ہاتھ یا زبان سے شوہر کے ساتھ)
۶۔ علماء کے ساتھ،
۷۔ مسلمانوں کے ساتھ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مندرجہ بالا بات کا تھوڑا سا وسیع تناظر بھی دیکھ لیجئے:
بندے پر بد قسمتی آتی ہے، جب اس کے قول و فعل سے، خیالات سے، جذبات سے، احساسات سے، کیفیات سے، رویوں سے، مزاجوں سے، طبیعتوں سے، کوئی برائی، یا نقصان، یا بے عزتی، یا تکلیف سرزد ہو جاتی ہے:
۱۔ ماں باپ کے ساتھ، بزرگوں کے ساتھ، ضعیفوں کے ساتھ،
۲۔ رشتہ داروں کے ساتھ، دوستوں کے ساتھ، ہمسائیوں کے ساتھ، رفقائے کار کے ساتھ،
۳۔ کمزوروں کے ساتھ، غریبوں کے ساتھ، بے سہاروں کے ساتھ، بچوں کے ساتھ،
۴۔ محسنوں کے ساتھ، مالکوں کے ساتھ، سینئرز کے ساتھ،
۵۔ بیوی کے ساتھ، بہن کے ساتھ، بیٹی کے ساتھ، دوسری نامحرم عورتوں کے ساتھ (اور عورتوں کے ہاتھ یا زبان سے شوہر کے ساتھ، بھائی کے ساتھ، بیٹے کے ساتھ، دوسرے نامحرم مردوں کے ساتھ)
۶۔ علماء کے ساتھ، مذہب کے ساتھ، مذہبی ارکان کے ساتھ، عبادات کے ساتھ،
۷۔ مسلمانوں کے ساتھ، انسانوں کے ساتھ، دوسری مخلوقات کے ساتھ،
نوٹ: اوپر میں نے جو بدقسمتی کی بات کی ہے، میں نے دین اور ایمان کے حوالے سے بات کی ہے، کہ بندے کا دین اور ایمان جاتا رہتا ہے۔ دنیا، دولت، عہدے، تحکم وغیرہ پر بدقسمتی آنے اور ان کے جاتے رہنے کا میرا کوئی مشاہدہ نہیں ہے، نہ تجربہ ہے۔
بلکہ تھوڑا سا مشاہدہ یہ ہے کہ ان سب رشتوں کے ساتھ ہاتھ اور زبان سے برائی کرنے والے دنیا میں خوب پھلتے پھولتے ہیں۔
دین سے شائد نکل جاتے ہیں۔
اور یہی وجہ ہے کہ دین و دنیا میں فرق بتایا گیا ہے گاہے گاہے۔
ویسے پڑھایا کچھ اور جاتا ہے، لیکن سمجھ یہی آتی ہے، کہ دین و دنیا دو علیحدہ علیحدہ ترجیحات ہیں، اور ان کو کمانے والوں کی ذہنیت، سمجھ بوجھ اور کردار بھی علیحدہ علیحدہ ہیں۔
دین کو ترجیح دینے والا اور ہے، اور دنیا کو ترجیح دینے والا اور۔
دین کو ترجیح دینے کے باوجود کسی کے پاس دنیا نظر آتی ہے، اور دنیا کو ترجیح دینے کے باوجود کسی کے پاس دین نظر آتا ہے، اس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔
عبد دیگر، عبدہ چیزی دگر
بندہ ہونا اور بات ہے، لیکن اللہ کا بندہ ہونا اور بات ہے۔
ویسے تو سب اللہ کی مخلوق ہیں، اللہ کے ہی بندے ہیں، لیکن وہ لوگ جو اللہ کے بندے ہیں، اور جنہیں عباد الرحمٰن کہا گیا ہے، اور جن کا اللہ ولی ہے، اور جو اللہ کے ولی ہیں، وہ اور ہیں۔
میں انہی کی بات کر رہا ہے۔
اور وہ جو اولائیک کالانعام، بل ہم اضل ہیں، وہ اور ہیں۔
انہیں دین اور دین کے ماننے والوں سے اسی طرح گریز آتا ہے، جس طرح دینداروں کو دنیا اور دنیا کے چاہنے والوں سے پرہیز محسوس ہوتا ہے۔
بہرحال دنیاداروں سے دنیا کا نظام چلتا ہے، دنیا کی اچھائی برائی، نیکی بدی، جو کچھ بھی ہے، اور دینداروں سے دین کا نظام چلتا ہے، اللہ کا پیغام پہنچتا ہے، اور اسی طرح کی اور باتیں۔ ایک طرح سے دیکھا جائے، تو کام سارے دنیا کا ہی کر رہے ہیں، لیکن دنیادار وہ ہیں جن کا مقصد، ہر صورت اور ہر حال میں دنیا کی زندگی، اور اس کی ترجیح ہوتا ہے۔
یہ لوگ اگر کسی اللہ والے کے پاس بھی جاتے ہیں، تو یہی سوچ کر جاتے ہیں، کہ اس سے مل کر دنیا کے کون کون سے فائدے مل سکتے ہیں، کون کون سی تکلیفوں سے نجات مل سکتی ہے، اور کون کون سی عزتیں حاصل ہو سکتی ہے۔
یہ لوگ اللہ والوں کے پاس بیٹھے رہتے ہیں، اور ان کا مقصد ہوتا ہے، کہ کسی طرح کوئی بات ہاتھ آ جائے، اور یہ کہہ سکیں، کہ یہ کوئی اللہ والا نہیں ہے، یہ بھی انہی کی طرح کا دنیا دار اور جھوٹا انسان ہے۔ یہ کسی ایسی بات کی تاک میں ہوتے ہیں کہ اللہ والا کوئی ایسی بات کہہ دے کہ جس سے ان کے آخرت میں کامیاب ہونے کا بھی کوئی راستہ نکل آئے، اور انہیں کوئی جدوجہد اور کوشش بھی نہ کرنی پڑے، کوئی قربانی بھی نہ دینی پڑے، کچھ خرچ بھی نہ کرنا پڑے۔ اور یہ جیسے دنیا میں مست ہیں ویسے ہی مست رہیں، اور آخرت بھی مل جائے۔
یہ کسی ایسی بات کی تلاش میں ہوتے ہیں، جو کوئی اللہ والا انہیں بغیر کچھ کیے، آخرت میں پاس ہونے کی خوش خبری سنا دے۔ انہیں نہ تو کسی پر رحم کھانا پڑے، نہ مال خرچ کرنا پڑے، نہ اپنے تکبر سے نیچے آنا پڑے۔
ان کی پوری کوشش ہوتی ہے، کہ یہ اپنے رعب اور تحکم سے، اللہ والے کی مرضی اور دعا، اور خوش خبری خرید لیں، یا دھوکے سے لے لیں، یا اس سے چھین ہی لیں۔ ان کی پوری کوشش ہوتی ہے، کہ یہ اللہ والے کو استعمال کر لیں کسی نہ کسی طرح۔
یہ اللہ والے کی کوئی اتنی عزت نہیں کر رہے ہوتے۔ یہ یا تو اسے آزما رہے ہوتے ہیں، یا اسے استعمال کر رہے ہوتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے ظالموں، فاسقوں، کافروں، منافقوں، مشرکوں، اور بدکردار لوگوں کا جتنا بھی ذکر کیا ہے، وہ انہی لوگوں کے بارے میں ہے۔
وَلَقَدْ ذَرَاْنَا لِجَہَنَّمَ کَثِیْرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ، لَہُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَہُوْنَ بِہَا، وَلَہُمْ اَعْیُنٌ لَّا یُبْصِرُوْنَ بِہَا، وَلَہُمْ اٰذَانٌ لَّا یَسْمَعُوْنَ بِہَا، اُولٰٓءِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ، اُولٰٓءِکَ ہُمُ الْغَافِلُوْنَ (الاعراف)
اور ہم نے دوزخ کے لیے بہت سے جن اور آدمی پیدا کیے ہیں، ان کے دل ہیں کہ ان سے سمجھتے نہیں، اور آنکھیں ہیں کہ ان سے دیکھتے نہیں، اور کان ہیں کہ ان سے سنتے نہیں، وہ ایسے ہیں جیسے چوپائے بلکہ ان سے بھی گمراہی میں زیادہ ہیں، یہی لوگ غافل ہیں۔
بہرحال تین احساسات سے انسان کا دل خالی نہیں ہونا چاہئے:
اگر خالی ہے تو وہ انہی لوگوں میں شامل ہے:
۱۔ اگر اس سے کوئی ظلم ہو جائے، چاہے انسان کے ساتھ یا کسی جاندار کے ساتھ، تو اسے دکھ ہو، اور وہ فوراً توبہ کرے،
۲۔ اگر اس سے کوئی فحاشی سرزد ہو جائے، عملی طور پر یا زبان سے، تو اس کا دل ملول ہو، اور اسے اس کا دکھ ہو،
۳۔ اگر اس سے دین یا دین کے کسی رکن کے خلاف کوئی بات ہو جائے، ہنسی مذاق میں یا سنجیدگی میں، تو اس کے دل کو اس پر ندامت ہو، اور وہ اس سے توبہ کرے۔
مزید یہ کہ انسان کو ظاہر اور باطن کی سمجھ ہونی چاہئے، تاکہ نفی اثبات کی سمجھ آ سکے، امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی سمجھ آ سکے۔ اگر نہیں سمجھ آئی تو وہ بھی انہی غافلوں میں شامل ہے:
عورت مرد کا باطن ہے، اور مرد عورت کا ظاہر ہے،
اگر کوئی مرد عورتوں کا احترام چھوڑ دے، تو اس کا باطن خراب ہو جاتا ہے، باطن خراب ہونے کا مطلب یہ ہے، کہ وہ روحانیت کے قابل نہیں رہا،
روحانیت کے قابل نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ دین سے نکل چکا ہے۔
اور اگر کوئی عورت مردوں کا احترام چھوڑ دے،
تو اس کا ظاہر خراب ہو جاتا ہے۔ ظاہر خراب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی عزت، گھر، رشتے جاتے رہتے ہیں، اور وہ دنیا میں رہنے کے قابل نہیں رہتی۔
مردوں کو چاہئے، کہ وہ ماں، بہن، بیٹی، بیوی کی عزت کریں، اور باہر کی عورتوں کا بھی گھر کی عورتوں کی طرح احترام کریں، تاکہ ان میں روحانیت اور دین کی سمجھ بوجھ باقی رہے۔
اور عورتوں کو چاہئے، کہ وہ باپ، بھائی، بیٹے، اور شوہر کا احترام کریں، اور باہر کے مردوں کے بارے میں بھی کوئی برا کومنٹ پاس نہ کریں، تاکہ دنیا میں عزت اور وقار کی زندگی گزار سکیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ایمان، آخرت، باطن، اور ان کے متضادات کی سمجھ عطا فرمائے، آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment