Image 1 Image 2 Image 3 Image 4
Pyara Islam

بہت سے لوگوں کا خیال ہے ، کہ مذہبی لوگ

 

بہت سے لوگوں کا خیال ہے، کہ مذہبی لوگ کسی خیالی دنیا میں رہتے ہیں، حقیقت کی دنیا سے دور، اپنی ہی کوئی دنیا بسائے۔ مذہبی لوگوں کا بھی دنیاداروں کے بارے میں یہی خیال ہے، کہ وہ کسی خیالی دنیا میں رہتے ہیں، حقیقت کی دنیا سے دور، اپنی ہی کوئی دنیا بسائے۔ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا اور اس کی آسائشوں کو، اس کی چکاچوند کر دینے والی رونق اور حقیقت کو، اور اس کی خوشیوں اور خوبصورتیوں کو محض کھیل تماشہ کہا ہے۔ جس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ 

آپ جسے اپنی دنیا کہتے ہیں، وہ آپ کے ارد گرد کے کچھ لوگوں کی دنیا ہے، جن سے آپ متاثر ہیں۔ جن سے آپ بندھے ہوئے ہیں۔  انسان کی فطرت ایسی ہے کہ اس کو کھیل کود اور لہو و لعب ہی حقیقت نظر آتے ہیں۔ 

ان کا تعلق جسم سے ہے۔ ظاہر ہے دنیا میں تو انسان کو جسم ہی ملا ہے۔ دماغ اور روح کا کس کو پتہ۔ وہ تو سب خیالی دنیا ہی محسوس ہوں گے۔ لیکن جنہیں دماغ اور روح کا پتہ ہے، ان کے لئے یہ جسم کی دنیا ایک خیال ہے۔ ان کے لئے اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بندہ بیمار ہو تو اس کا دل کرتا ہے صحتمند ہو جاؤں۔

گنہگار ہو تو دل کرتا ہے نیک بن جاؤں۔

بندہ صحتمند ہو رہا ہو، تو اسے ڈاکٹر کے بتانے کی ضرورت نہیں رہتی، کہ تم صحتمند ہو رہے ہو۔ اسے خود بھی اندازہ ہو جاتا ہے، کہ وہ صحتمند ہو رہا ہے۔ 

اسی طرح بندہ نیک ہو رہا ہو تو اسے کسی عالم یا صوفی کے بتانے کی ضرورت نہیں رہتی کہ تم نیک ہو رہے ہو، اسے خود بھی محسوس ہو جاتا ہے، کہ وہ پہلے سے بہتر ہو رہا ہے۔ 

بس یہی صلاحیت اصل چیز ہے۔

بندے کو اپنی حالت کا احساس کرنا آ جائے۔

اس کے بعد حلال حرام کا اندازہ ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ اسے اندازہ ہو جاتا ہے، کہ کون سی چیز کھانے پینے سے نماز اور تلاوت کی لذت ماند پڑ گئی، اور کون سی چیز کھانے پینے سے نماز اور تلاوت کی لذت زیادہ ہو گئی۔ اسے اپنے جسم اور روح، جسم اور دماغ کے بیلنس کا اندازہ ہونے لگتا ہے۔ وہ استقامت والے راستے پر سفر کرنے لگتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ جو ہم دیکھتے ہیں، کہ بزرگ لوگ ایک ہی جوڑے میں گزارہ کر رہے ہیں۔ یا دو جوڑے ہیں، ایک اتارا ایک پہن لیا۔ کئی پیوند لگے ہیں۔ لیکن نیا کپڑا نہیں پہنتے۔ پہنتے بھی ہیں تو اتار دیتے ہیں گریز کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے، کہ انہیں اپنی کیفیت بدل جانے کا ڈر لگا رہتا ہے۔ پتہ نہیں نئے کپڑوں کی کیفیت کیسی ہو۔ کم سے کم کھانے میں بھی گزارہ کر لیتے ہیں، کہ پتہ نہیں کس لقمے میں کیسی تاثیر ہو۔ پتہ نہیں پہلی کیفیت چھن نہ جائے۔ غرض یہ کہ لوگوں سے ملنے ملانے، رہائش اختیار کرنے، اٹھنے بیٹھنے میں محتاط ہو جاتے ہیں۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہم دیکھتے ہیں، کہ رسول اللہ ﷺ  کا طریقہ یہ تھا، کہ آپ ﷺ  ایک کام کو بس ایک ہی طریقے سے سرانجام دیتے تھے۔ ناخن تراشنے، نہانے دھونے، کھانے پینے، کپڑے اتارنے پہننے سے متعلق احادیث مبارکہ کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے، کہ آپ ﷺ  نے ہر کام سرانجام دینے کا ایک طریقہ رکھا ہوا تھا۔ شائد ہی ایسا ہوتا ہو کہ ایک کام ایک سے زائد طریقوں سے سرانجام دیا ہو۔ 

یہی استقامت کا راستہ ہے۔ 

رسول اللہ ﷺ  کی سنت مبارکہ استقامت کے راستوں کی دلیل ہے۔ آپ ﷺ  ایسا کوئی طریقہ وضع نہیں فرماتے ہوں گے، جو استقامت میں حائل ہو۔ 

ہمارے لئے یہ بہت بڑی نعمت ہے، کہ ہم سنت مبارکہ پر عمل پیرا ہو سکتے ہیں۔ دنیا ادھر کی ادھر ہو جائے، ہمیں یقین ہونا چاہئے کہ جوتے اتارتے وقت بائیں پاؤں سے اتارو، اور پہنتے وقت دائیں پاؤں سے پہنو، بس اسی میں بہتری ہے، اسی میں استقامت ہے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کو نیکی اور پرہیزگاری پہچاننے کی سعادت عطا فرمائے، آمین۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ


No comments: