مزہ تو بڑا آتا ہے اس سارے کام میں۔ نماز کا لطف تو آتا ہی آتا ہے، ساتھ میں جو اس سارے وقت میں ایک ایسائٹمنٹ اور تھرل رہتی ہے، اس کا ایک اپنا ہی حسن ہے۔ بعض دفعہ مجھے لگتا ہے میں کوئی سائنٹسٹ ہوں، کوئی رسرچر ہوں، کوئی انونٹر ہوں، کوئی ڈسکورر ہوں، جو کسی بہت بڑی فائنڈنگ کے کنارے پر کھڑا ہے، جو کوئی بہت بڑا براعظم دریافت کر رہا ہے۔
علم کی جستجو کا مزہ، روح کے حجابات اٹھنا، جذبات کی نت نئی پرتیں سامنے آنا، کتنا کچھ مل جاتا ہے، اس ایک ایکٹوٹی میں۔
ہو سکتا ہے آنے والے دور میں ان تجربات اور مشاہدات کی مدد سے کوئی دنیا دریافت ہو ہی جائے۔ یا کسی پرانی دنیا کو ری ڈیفائن کرنے میں آسانی ہو جائے۔
میں توبہ کا پروسس لکھ رہا تھا، اور قرآن پاک سے توبہ، تاب، تابوا، یتوبوا، یتوبون، تواب، اتوب، توابین، اور اسی روٹ کے دوسرے الفاظ ڈھونڈ کر مطالب کے مختلف پیرائے نوٹ کر رہا تھا۔ اچانک کسی کام سے اٹھ کر اوپر آیا تو دیکھا اذان کا ٹائم ہو رہا ہے۔ میں نے سوچا تھوڑا سا انتظار کر لیتا ہوں، اذان بڑی مزیدار ہوتی ہے عصر کی، سن کر نماز پڑھتا ہوں، اور دوبارہ بیٹھ جاؤں گا کمپیوٹر پر۔
کھڑکی کھولی اور گلی میں جھانکنے لگا۔
اذان شروع ہوئی، اور اذان کی خوبصورتی نے جیسے باندھ لیا ہو اپنے ساتھ۔
اذان خوبصورت تو لگتی ہی ہے، اور خاص طور پر عصر کی اذان، اور خاص طور پر یہ پہلے پہلے والی اذان، اور خاص طور پر اس معصوم سے موذن کی اذان، لیکن اذان اس طرح باندھ لے گی اپنے ساتھ، اس کا اندازہ نہیں ہوتا مجھے۔
اور آج بھی ایسا ہی ہوا۔
میں نے سوچا پوری اذان سنتا ہوں پہلے۔
دل آہستہ آہستہ محبت کے جذبات سے لبریز ہونا شروع ہو گیا۔ خیال آیا بوڑھ والی مسجد چلتا ہوں، وہیں جا کر نماز پڑھتا ہوں۔
میں کافی دنوں سے کسی ایسی مسجد کی تلاش میں ہوں، جہاں صحن ہو، جہاں دھوپ اور سائے ہوں، جہاں کچی کچی جگہ ہو کوئی، جہاں وضو خانے سوکھے سوکھے سے ملیں دوپہر کی لو میں، جہاں لمبے صحن سے جوتے اتار کر برآمدے تک آتے ہوئے پاؤں جلیں تھوڑے تھوڑے سے، جہاں وضو کر کے برآْمدے کے سائے میں آتے آتے، آنکھیں چندھیا سی جائیں کچھ۔
مجھے اپنے ارد گرد کی پندرہ بیس مسجدوں میں ایسی کوئی مسجد بھی نظر نہ آئی۔
مسجدیں ساری خوبصورت ہیں، ہر مسجد کی اپنی فضا ہے، لیکن ایسی مسجد بھی ہونی چاہئے کوئی جیسی آپ کے تصور میں ہو۔
بہت سوچ سوچ کر میرے ذہن میں بوڑھ والی مسجد کا نام آیا۔ پوری طرح تو نہیں، لیکن چالیس پچاس پرسنٹ تک میری ریکوائرمنٹ پوری ہو ہی رہی تھی۔ مجھے لگتا تھا میری روح کی تسکین ہو جائے گی کچھ نہ کچھ۔
بس ایک ہی بات تھی، کہ بوڑھ والی مسجد میرے گھر سے کچھ دور تھی۔ اتنی دور نہیں تھی، لیکن اتنی دور ضرور تھی، کہ میں گھر سے نکل کر سیدھا مسجد جانے کا نہیں سوچ سکتا تھا۔ مجھے تین چار سڑکوں، دو چار گلیوں میں سے گزر کر جانا تھا۔
بہرحال اس وقت میرے دل کی لہر موج پر تھی، اور مجھے ہر چیز سازگار محسوس ہو رہی تھی۔ میں نے وضو کر رکھا تھا، اور بس عمامہ باندھنا تھا، اور نکل جانا تھا۔
لیکن میں چاہتا تھا، میں وہیں بوڑٖھ والی مسجد کے وضو خانے سے وضو کروں۔ میں مسجد میں کیے جانے والے وضو کی لذت سے محروم نہیں رہنا چاہتا تھا۔ راستے میں جاتے جاتے میں نے فیصلہ کر لیا، کہ نئے سرے سے وضو کر کے نماز پڑھوں گا۔
لیکن کرنی کچھ اس طرح کی ہوئی، کہ ٹونٹیاں بالکل خشک پڑی تھیں، اور پانی کا ایک قطرہ ٹپکتا نظر نہیں آ رہا تھا۔
خیر میں ابھی کسی فیصلے پر نہیں پہنچا تھا، کہ ایک نوجوان سا آیا اور کہتا ہے، پانی اندر مدرسے کے نلکوں میں آ رہا ہے، وہاں سے وضو کر لیں۔
باقی سب کچھ ٹھیک تھا۔ میں جیسا سوچ کر گیا تھا ویسا ہی ملا تھا سب کچھ۔
مسجد میں ایک دو نفوس کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا۔ بڑا سا صحن، دھوپ، سائے، عصر کی خوشبو، اور مسجد کی فضا۔ کہیں سے کچھ چھوٹے چھوٹے سے پتے اڑتے پڑتے گرے ہوئے تھے، اور انہوں نے ایک اپنی ہی خوبصورتی قائم کر رکھی تھی۔
میں نے دیکھا، دور ایک کونے میں، ایک خالی سے کونے میں، کوئی دودھ جیسے سفید کپڑے پہنے، سر پر ٹوپی رکھے، قرآن پاک پڑھنے میں مصروف ہے۔
میں نے سوچا چلو اس کے قریب کھڑا ہو کر نماز پڑھ لیتا ہوں، دوسرا پنکھا نہیں چلانا پڑے گا۔
بہت اچھا فرش تھا، بہت اچھا کونہ تھا، اور اللہ اکبر کے ساتھ ہی جیسے کسی بہت بڑے ہال میں داخل ہو گیا تھا میں۔
مجھے کنکھیوں سے نظر آ رہا تھا، وہ شخص مسلسل پہلے صفحے کو کھولے ہوئے، اسے ہی پڑھتا جا رہا تھا، یا دیکھتا جا رہا تھا۔ الحمد، اور الم والے پہلے دو صفحوں کو۔ بھورے صفحوں والا قرآن پاک تھا۔ مجھے اپنی کمزور نظروں کے باوجود محسوس ہو رہا تھا، کہ اس کے حروف جلی ہیں، اور کسی نے اچھی تختی پر لکھا ہوا ہے۔
لیکن یہ شخص ایک ہی صفحے کو کھول کر کیوں بیٹھا ہوا ہے۔
اس شخص کے بیٹھنے کا انداز اس طرح کا تھا جیسے وہ بہت غور سے پڑھ رہا ہو۔ ایک دفعہ تو میں نے سوچا شائد اسے اونگھ آئی ہو، لیکن ہوا سے صفحہ اڑا تو اس نے فوراً سیدھا کر لیا، اور پھر اسی طرح ان صفحوں کو دیکھنے میں کھو گیا۔
شائد یہ میری طرح قرآن شریف کی لکھائی سے متاثر ہو، اسے لکھائی پسند ہو، اسے قرآن شریف کا لکھا ہوا صفحہ پسند ہو، قرآن شریف کا لکھا ہوا تصور پسند ہو۔
مجھے بھی بڑا اچھا لگتا ہے بعض دفعہ۔ میں کچھ بھی نہ پڑھوں، کچھ بھی نہ سمجھوں، مجھے قرآن شریف کا لکھا ہوا صفحہ ہی بہت اچھا لگتا ہے۔ حروف کی بناوٹ، صفحے کا تاثر، سیاہی اور الفاظ کی خوبصورتی، اعراب کا حسن۔ بعض دفعہ تو بندہ ویسے ہی صفحے پلٹتا جاتا ہے، بس لکھائی کو دیکھ دیکھ کر خوش ہوتا رہتا ہے۔
میں نے سوچا شائد یہ شخص ایسا ہی کر رہا ہو۔
لیکن وہ تھا کوئی اللہ کا بندہ۔ اس کے خوبصورت سفید کپڑے، اس کے بیٹھنے کا انداز، اور قرآن پاک کو دیکھتے چلے جانے کا شوق، سب کچھ کمال خوبصورت اور محبت سے بھرا ہوا تھا۔
’شائد اسے پڑھنا نہیں آتا، اور یہ بس محبت سے دیکھ رہا ہے‘ میں نے اسے کچھ اندر کے صفحے الٹتے پلٹتے دیکھ کر سوچا۔
’لیکن نہیں، ایسا کیسے ہو سکتا ہے‘ میں نے اپنی سوچ جھٹک دی۔
میرا تو دل کیا نماز پڑھ کر میں بھی کوئی قرآن پاک چوم کر کھولوں، اور اسی طرح بیٹھ کر دیکھتا جاؤں۔ قرآن پاک کو دیکھنا بھی تو عبادت ہے۔
میں نے کیا بھی، لیکن مجھے یاد آیا میں نے پیپسی لے کر جانی ہے گھر، اور کچھ کھجوریں، جو میری بیوی نے میرے نکلتے وقت مجھے پیسے پکڑا کر کہا تھا۔
بس اب میں نے قرآن پاک کی زیارت کی، اور اس طرح بیٹھ کر دیکھتے جانے کا خواب پھر کسی دن پر اٹھایا، قرآن پاک واپس الماری میں رکھا، اور بوہڑ والی مسجد کے لمبے سے صحن سے گزرتا ہوا، اپنے جوتے اٹھا کر مسجد سے باہر نکل آیا۔
گھر آتے آتے، سارا راستہ مجھے بار بار احساس ہو رہا تھا، کہ میں نے جس مقصد کے لئے بوڑھ والی مسجد کا رخ کیا تھا، وہ مقصد پورا ہو چکا تھا۔ میں نے نماز پڑھ لی تھی بڑے مزے سے، اور اگلی نماز تک خوب سکون سے بیٹھ سکتا تھا۔
باقی جس نے پیدا کیا ہے، وہ اگلی نماز کا لطف بھی دلا ہی دے گا کہیں سے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ ہمارے دل و دماغ کو مسجدوں کی خوشبوؤں سے معطر و معنبر فرمائے، آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment