توبہ کا کوئی پتہ نہیں ہوتا، کہاں، کس گھڑی آ لے،
توبہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے، اس کی آئتوں میں سے ایک آئت ہے،
میرا بڑا دل کرتا ہے توبہ کی کہانیاں پڑھنے کو، توبہ کے واقعات، توبہ کے لمحے، توبہ کے اسباب پڑھنے کو،
اور سب سے بڑھ کر توبہ کا ماحول، اور توبہ کے حالات پڑھنے کو،
بڑی بیکار سی زندگی جا رہی ہوتی ہے، غفلت سے بھری ہوئی،
بس یہ ایک دو کام ہو جائیں، چھوڑ دوں گا سب،
بس ایک دو سال کی بات ہے، سب ٹھیک ہو جائے گا،
بس روزی روٹی کا مستقل بندوبست ہو جائے ذرا،
بندہ ٹالتا آ رہا ہوتا ہے، ٹالتا جا رہا ہوتا ہے،
اور پھر ایک دن رات کو اسے نیند نہیں آتی، اس کا منہ کڑوا ہو جاتا ہے، وہ چھت پر پڑا ایک ڈبی سیگریٹ ختم کر چکا ہے، اس کے دانت گندے ہیں، اور کپڑے اس سے بھی گندے ہیں،
اور اسے یاد آتا ہے، جب نوجوانی میٰں وہ بہت صاف ستھرا انسان تھا،
اور اسے یاد آتا ہے پچیس تیس سال پہلے وہ نماز پڑھا کرتا تھا، قرآن پڑھا کرتا تھا، اور اس کا تصور تھا وہ ایک نیک اور پاکیزہ زندگی گزارے گا،
لیکن پھر حالات بدلتے گئے، اور وہ غربت اور گندگی میں دھنستا چلا گیا،
اس کی دوستیاں اور تعلقات اسے دین سے دور، کسی تنگ و تاریک غار میں لے گئے،
وہاں بہت گھٹن تھی، وہاں بہت گرمی تھی،
اس کی چھت کی گھٹن اور گرمی سے زیادہ بری،
نشہ، فحش گوئی، پھکڑ پن، اس کا وطیرہ بن گئے،
دو دو تین تین بجے تک گھر سے باہر رہنا، فضول سوچوں، اور فضول لوگوں میں وقت گزارنا،
اسے اپنے آپ سے گھن سی محسوس ہوتی ہے، اسے اپنے منہ اور جسم سے بدبو سی محسوس ہوتی ہے،
وہ کہاں ہے، وہ کون ہے،
اور پھر بندے کا رب اس پر مہربانی فرماتا ہے، اور اسے توبہ کی توفیق دیتا ہے،
بندہ وہیں ایک ستون کے ساتھ لگا اللہ تعالیٰ سے مخاطب ہو جاتا ہے،
”یا اللہ تو مجھے اس گندگی سے نکال لے، تو مجھے تھوڑی سی مہلت دے دے، تھوڑی سی طاقت دے دے۔ یا اللہ میں یہ سب نہیں کرنا چاہتا ہوں، جو میں کر رہا ہوں۔ یا اللہ میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں، جن میں میں رہ رہا ہوں۔ یا اللہ تو مجھے ان لوگوں سے نجات دلا دے، ان سے نکال لے۔ یا اللہ میں تیرا نیک بندہ بننا چاہتا ہوں، یا اللہ تو میری مدد فرما، انی مغلوب فانتصر، انی مغلوب فانتصر، انی مغلوب فانتصر۔
بندہ وہیں کھڑٖا کھڑا رونے لگتا ہے، اس کا سیگریٹ اس کے ہاتھ سے گر جاتا ہے، اور اسے اپنے آپ سے شرم سی محسوس ہوتی ہے،
”وہ رو رہا ہے“، اسے خیال آتا ہے۔
اسے اپنے آنسوؤں پر شرم آتی ہے۔
”اگر اس کی بیوی اوپر آ گئی تو“، وہ اپنے آنسوؤں پر قابو پا لیتا ہے۔
”ابھی وضو کر، اور نماز پڑھ“ اسے کوئی آواز جھنجھوڑ کر ہلاتی ہے۔
وہ چھت پر لگے نلکے کے پاس جاتا ہے، تھوڑا بہت اپنے کپڑوں کو دھوتا ہے، اور پھر وضو کر کے وہیں، چھت کی گرم گرم اینٹوں پر سجدے میں گر جاتا ہے۔
اسے کچھ پتہ نہیں چلتا وہ سجدے میں خاموش پڑا تھا، یا کچھ بول رہا تھا۔ بس وہ سجدے میں تھا۔
پتہ نہیں کتنی دیر وہ اسی طرح پڑا رہتا ہے، اور پھر اسے محسوس ہوتا ہے، اس کی ٹانگیں جواب دے گئی ہیں، اس کی جانگھیں اکڑ گئی ہیں، اور اس کے پاؤں کے انگوٹھے مڑ گئے ہیں۔
اور پھر اسی حالت میں، دور کسی مسجد سے کسی بوڑھے سے بابے کی آواز آتی ہے:
ادھی راتی رحمت رب دی کرے بلند آوازہ
بخشش منگن والیاں تائیں کھلا ہے دروازہ،
آواز اتنی دور سے آ رہی تھی، اور اتنی آہستہ آ رہی تھی، کہ اسے سمجھ نہیں لگتی، اسے سنائی کیسے دے گئی ہے۔ لیکن ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی اس کے بالکل قریب بول رہا ہو، اس کے کان میں بول رہا ہو۔
بس جب تک یہ لمحہ یاد رکھو گے، دوبارہ غفلت میں نہیں پڑو گے،
کوئی بار بار کہہ رہا تھا۔
”یہ لمحہ یاد رکھو گے، یہ لمحہ یاد رکھو گے، اس لمحے میں کیا ہے ایسا یاد رکھنے کو“ وہ بار بار سوچتا۔
”دوبارہ غفلت۔۔۔۔۔“ اور پھر اسے سب سمجھ آ گیا۔
اس کے اور اس کے رب کے درمیان اس وقت اور کوئی نہیں تھا۔ اس کا مطلب ہے آئندہ بھی اور کوئی نہیں آنا چاہئے۔
جس طرح وہ اس وقت اپنے رب سے مخاطب تھا، اس کا مطلب ہے آئندہ بھی اسے اسی طرح اپنے رب سے مخاطب ہونا ہے۔
جس طرح اس وقت اس کے رب نے اس کی پکار سنی ہے، اسی طرح آئندہ بھی وہ اس کی پکار سنے گا۔
وہ سوچتا گیا، اور اسے اس لمحے کی سمجھ آتی گئی۔
”توبہ کے بغیر کچھ سمجھ نہیں آ سکتی، توبہ ہی سب کچھ ہے۔ اللہ تعالیٰ انسان کو توبہ تک لاتا ہے، اسے توبہ سمجھاتا ہے“۔
اللہ تعالیٰ اپنے اور اپنے بندے کے درمیان اور کسی کو برداشت نہیں کرتا۔ وہ اپنے بندے کو توبہ تک لاتا ہے، اور سمجھاتا ہے، کہ دیکھ جس طرح، اس وقت تو صرف مجھ سے مخاطب ہے، آئندہ بھی مجھ سے ہی مخاطب ہونا، جس طرح اس وقت تو اپنے تمام گناہوں کا معاف کرنے والا صرف مجھے ہی سمجھ رہا ہے، آئندہ بھی صرف مجھے ہی سمجھنا۔
توبہ ہی تو وہ لمحہ ہے جب بندے کو اللہ تعالیٰ کی حکمتیں سمجھ آتی ہیں، اس کا نظام سمجھ آتا ہے۔ توبہ ہی تو وہ لمحہ ہے جب بندے کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے علم عنائت ہوتا ہے۔
توبہ کے لمحے کو بھولنا نہیں چاہئے۔
جس طرح توبہ کے وقت سب سے اہم چیز گزشتہ گناہوں سے معافی اور آئندہ بچنے کی توفیق ہوتی ہے، اسی طرح آئندہ بھی یہی ہونا چاہئے۔
جس طرح توبہ کے وقت صرف نیکی اور بدی کی جنگ چھڑی ہوتی ہے، کہ نیکی اختیار کرنی ہے، اور بدی چھوڑنی ہے، اسی طرح آئندہ بھی یہی کچھ ہونا چاہئے۔
جس طرح توبہ کے وقت کوئی شرط نہیں رکھی گئی ہوتی، بس معافی مانگی ہوتی ہے، اسی طرح آئندہ بھی کوئی شرط نہیں رکھنی ہوتی، اور معافی ہی مانگنی ہوتی ہے۔
توبہ کا لمحہ بہت اہم ہوتا ہے۔ اسے نہیں بھولنا چاہئے۔
وہی تو بندے اور اس کے رب کے عہد و پیمان کا لمحہ ہوتا ہے۔ وہی تو زمین پر الست بربکم کا اقرار و اظہار ہوتا ہے۔
اور پھر انہی سوچوں میں، انہی سجدوں میں فجر کی اذان ہو جاتی ہے۔
بندہ اٹھتا ہے، اور چھت کی گرد آلود اینٹوں سے کپڑے جھاڑتا ہوا نیچے چلا آتا ہے۔ اس کی بیوی فجر کی تیاری کر رہی ہوتی ہے۔ وہ اسے چھت سے اترتا دیکھ کر حیران رہ جاتی ہے۔ شائد وہ اسے ابھی تک باہر ہی خیال کر رہی تھی۔
وہ اپنے آنسوؤں سے بھیگے چہرے کو اپنی بیوی سے چھپاتا ہوا، واش روم میں گھس جات ہے۔ خوب اچھی طرح سے نہاتا ہے، دھلے ہوئے کپڑے پہنتا ہے، اور باہر آ کر اپنی بیوی کے قریب ایک کونے میں جائے نماز بچھا کر نماز پڑھنے لگتا ہے۔
وہ نماز پڑھ چکتا ہے، تو اس کا دل جیسے منوں بوجھ سے ہلکا ہو جاتا ہے۔ اسے بچپن کی کوئی نماز یاد آ جاتی ہے، ایسا ہی محسوس ہوا تھا اس وقت بھی۔
لیکن وہ اپنی بیوی کو دیکھ رہا ہے، وہ ابھی تک نماز پڑھ رہی ہے۔
اسے سمجھ نہیں آتی، آج اس کی بیوی کے سجدے اتنے لمبے کیوں ہو گئے ہیں، اور اس کی رکعتیں اتنی زیادہ کیوں ہو گئی ہیں۔
اسے خوشی ہوتی ہے کہ اسے اتنے سالوں بعد بھی نماز یاد ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ ہمیں توبہ کے لمحوں کو یاد رکھنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment