Image 1 Image 2 Image 3 Image 4
Pyara Islam

کچھ باتیں توبہ اور توبہ کے اثرات کے بارے میں:

 کچھ باتیں توبہ اور توبہ کے اثرات کے بارے میں:

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

توبہ اور ہدائت زندگی کی آخری سانس تک آ سکتی ہے۔ جب تک علم میں اضافہ ہو سکتا ہے، توبہ اور ہدائت آ سکتی ہے۔ جب تک کوئی گناہ باقی ہے، توبہ کی ضرورت باقی ہے۔ 

ہر گناہ کی توبہ علیحدہ ہے۔ 

ہم سمجھتے ہیں نماز شروع کر لی، تلاوت شروع کر لی، داڑھی رکھ لی، ٹوپی پہن لی، تو اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو گئے، توبہ مکمل ہو گئی۔ باقی سب کچھ اپنے آپ چلتا جائے گا، یا نہ بھی چلتا جائے تو کوئی بات نہیں ہے۔ 

ایسا نہیں ہے۔ 

صٖغیرہ گناہ ہی کبیرہ میں بدلتے ہیں۔ اور چونکہ ہر گناہ کا شعور علیحدہ ہے، اس لئے  ہر گناہ کی توبہ علیحدہ ہے۔ 

اللہ تعالیٰ معاف کر دے، تو اس کی مہربانی ہے، اور ہم معافی ہی مانگتے ہیں، لیکن اگر شعور حاصل ہو جائے، تو توبہ کرنے میں حرج کوئی نہیں ہے۔ 

اور اللہ تعالیٰ نے جو توبہ میں لذت اور خوشی رکھی ہے، جو خوبصورتی اور خوشبو رکھی ہے، اس کا مقصد بھی یہی لگتا ہے، کہ توبہ زیادہ سے زیادہ کی جائے۔ 

توبہ بھی اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا انعام ہے۔ 

توبہ انسان کو بڑھاپے کے احساس سے بچاتی ہے، اور نوجوان رکھتی ہے۔ 

توبہ ایک تھراپی ہے جو انسان کو بہت سی دماغی بیماریوں سے محفوظ کرتی ہے۔ 

بڑھاپے کی بہت سی بیماریاں توبہ سے ختم ہو سکتی ہیں۔ 

جو گناہ جس عمر میں شروع کیا تھا، توبہ کرنے سے انسان اسی عمر میں دوبارہ پہنچ جاتا ہے، اسی دماغی اور قلبی حالت میں۔ 

گناہوں کی قسمیں ہیں۔

جتنی سینسز ہیں اتنی ہی قسمیں ہیں۔ پانچ حواس ہیں، ایک چھٹی حس ہے، ایک حس جمالیات ہے۔ اگر کامن سینس بھی شمار کرنی ہے تو کر لیں۔ 

سارے گناہ انہی حسیات سے متعلق ہیں۔ 

یہی حسیات، احساسات، جذبات اور خیالات کو پیدا کرتی ہیں، اور وہی سب آگے، کیفیات اور رویوں کی شکل اختیار کرتے ہیں۔ انہی سے مزاج بنتے ہیں، اور طبیعتیں جنم لیتی ہیں۔ 

مجموعی طور پر یہ سب وقت کی قید میں ہوتے ہیں، اور وقت یادداشت کا حصہ بنتا جاتا ہے۔ 

جب انسان کسی گناہ سے توبہ کرتا ہے، تو اسی وقت میں، اسی عمر میں، اسی ماحول میں پہنچ جاتا ہے، جب وہ گناہ شروع کیا تھا۔ 

توبہ ایک بڑا دلچسپ اور مزیدار پروسس ہے۔ 

اس میں خوشی اور خوبصورتی اتنی ہی زیادہ ملتی ہے، جتنی قوت ارادی مضبوط ہوتی ہے۔ جتنی ایکسائٹمنت اور تھرل زیادہ ہوتی ہے، جتنا تجسس زیادہ ہوتا ہے۔ سسپنس زیادہ ہوتا ہے۔ 

بہرحال توبہ کے ان سب جسمانی اور ذہنی پہلوؤں کے علاوہ، توبہ ایک بہت بڑی روحانی ایکسرسائز ہے۔ ایک بہت بڑا روحانی دروازہ ہے۔ 

میں نے عبادتوں کو بھی رزق ہی سمجھا ہے ہمیشہ، اور شائد یہی اصل رزق ہے، روح کا رزق، روح کی غذا۔ 

جسم کا بھی رزق ہے بہرحال، روٹی پانی۔ 

اور جسم کے رزق کا معیار یہ ہے، کہ گری پڑی، گلی سڑی چیزیں کھا کر بھی لوگ پیٹ بھر لیتے ہیں، بچا کھچا کھا کر بھی، اور مانگ کر بھی۔ 

جسم کے رزق کے بارے میں ایک بڑی مشہور سٹیٹمنٹ ہے، کہ پیٹ ہی بھرنا ہے۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ کیا کھایا ہے، اور کیسے کھایا ہے۔ 

اور پھر یہ سٹیٹمنٹ ہے، کہ کھانے کا مزہ تو بھوک میں ہے، کھانے میں تو نہیں ہے۔ اور پھر یہ سٹیٹمنٹ ہے، کہ پیٹ میں جا کر تو سب ایک ہی ہو جاتا ہے، ذائقہ تو سارا گلے تک ہے۔ 

اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے حلال کھانے پر بہت زور دیا ہے، طیبات پر۔ 

حلال کھانے کے لئے حلال کمانے پر بہت زور دیا ہے۔ 

حلال کمانے کے لئے محنت ہی نہیں، دماغ کی اچھی صلاحیتوں کے استعمال پر زور دیا ہے۔ دل و دماغ کی جن صلاحیتوں کو استعمال کر کے رزق کمایا ہو گا، ویسی ہی صلاحیتیں بیوی بچوں میں پیدا ہو جائیں گی۔ 

جھوٹ، چالاکی، عیاری، مکاری جیسی صلاحیتیں استعمال کر کے رزق کمانے سے گریز ہی بہتر ہے۔ 

بہرحال اگر صرف پیٹ بھرنا مقصد ہوتا تو حلال رزق پر اتنا زور نہ ہوتا۔ طیبات کی اتنی فضیلت نہ ہوتی۔ 

اسی طرح روح کے رزق یعنی عبادتوں کا مقصد اگر صرف ادائیگی ہوتا، تو وضو، غسل، طہارت، پاکیزگی پر اتنا زور نہ دیا جاتا۔ اگر صرف سجدہ ہی مطلوب ہوتا تو ذہنی اور جسمانی پاکیزگی، اور اہتمام پر اتنا زور نہ دیا جاتا۔ 

جس طرح جسمانی رزق کو بہتر سے بہتر بنانے پر زور دیا گیا ہے، اسی طرح روحانی رزق کو بھی بہتر سے بہتر بنانے پر زور دیا گیا ہے۔ 

سادگی کو مدنطر رکھنا اچھی بات ہے، اسراف سے بھی بچنا ضروری ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا استعمال، کوئی اتنا غیر ضروری بھی نہیں ہے۔ 

اچھے سے اچھا کھانا، اچھے سے اچھے اہتمام کے ساتھ، اچھے سے اچھے برتنوں میں، اچھے سے اچھے ماحول میں، کوئی بری بات نہیں ہے۔ 

پیسہ خرچ کرنے کا مطلب پیسہ دوسروں تک پہنچانا بھی ہے۔

امیر آدمی اگر پیسہ خرچ کرتا ہے، تو بہت سے لوگوں تک پہنچاتا ہے، بہت سے لوگوں کا گھر چلاتا ہے۔ 

یہی حال روح کی غذا کا یعنی عبادات کا ہے۔ 

نماز کو اچھے سے اچھے اہتمام سے ادا کیا جائے، اچھی سے اچھی جگہ پر، خوبصورت سے خوبصورت مسجد میں، بہترین سے بہترین لباس پہن کر، تو کوئی حرج نہیں ہے۔ 

سادگی بہت اچھی چیز ہے، لیکن زیب و زینت بھی بری نہیں ہے۔ 

مسکراتے، اور متبسم چہرے بے نہیں ہیں۔ 

وجوہ مستبشرہ کا ذکر ہے۔ چمکتے، جگمگاتے سفید چہروں کا ذکر ہے۔ 

ہر نماز کو نماز جنازہ بنانے کی ضرورت نہیں ہے، اور نہ ہر تلاوت کو بستر مرگ پر پڑھی جانے والی سورہ یس بنانے کی ضرورت ہے۔ 

بہت قہقہے نہ لگاؤ، لیکن ہشاش بشاش رہنا، چہرے پر مسکراہٹ سجائے رکھنا، خوش باش اور خوش مزاج ہونا، حسن ظن رکھنا، مثبت سوچ سوچنا، اور اچھے جذبات رکھنا، مومن کے کردار کا خاصہ ہے۔ 

مومن کا کیا کام ہے کہ وہ حزن و ملال، غمگینی، اداسی، پریشانی کی حالت میں ہو۔ ذہنی یا جسمانی طور پر گندہ اور پراگندہ ہو۔ مومن کا کیا کام ہے کہ وہ مایوس ہو۔ 

پریشانی، مایوسی، اداسی، سستی، گندگی، مومن کے قریب بھی نہیں پھٹک سکتیں۔ 

یہی تو وہ ذہنیت ہے جو شیطان کا مسکن ہے، جو منفی سوچوں کو جنم دیتی ہے، اور جو مزید ایسی کیفیات پیدا کرتی ہے۔ 

یہی تو وہ ذہنیت ہے جو انسان کو جھوٹ، چغلی، خوشامد، لالچ، مکاری، وغیرہ کی طرف لے کر جاتی ہے۔ 

مومن کا کیا کام ہے وہ اس ذہنیت میں آئے۔ 

مومن تو ہشاش بشاش چہرے والا، ہنستا مسکراتا انسان ہے۔ 

مومن تو شکر کی لذتوں سے سرشار انسان کا نام ہے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہمارے دل و دماغ کو، ہماری روح کو ایمان اور شکر کی تازگی نصیب فرمائے، آمین۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

     

No comments: