Image 1 Image 2 Image 3 Image 4
Pyara Islam

میری پہلی سوچ یہی تھی

 میری پہلی سوچ یہی تھی، کہ میں لیٹوں گا، اور آرام کروں گا۔ اور میں لیٹ بھی گیا، اور کیسا مزہ آتا ہے، ایسے ٹوٹے ٹوٹے جسم کے ساتھ لیٹنا اور آرام کرنا۔ 

پتہ نہیں کہاں سے میرے ذہن میں کسی ریگستان کا امیج آ گیا، کوئی قرون وسطیٰ کا زمانہ، کوئی قافلہ، کوئی نخلستان، کوئی مغرب کی نماز کا وقت، اور قافلہ سالار کا پڑاؤ۔ 

’یہ نماز تو کسی نخلستان کی نماز جیسی تروتازہ نماز تھی‘ میں نے سوچا ’ناولوں کہانیوں میں ایسا ہی ذکر کیا ہوتا ہے‘۔

بات یہ تھی، کہ میں ابھی مغرب کی نماز ادا کر کے لیٹا تھا، اور میرا جسم ٹوٹ رہا تھا۔ ایسے ٹوٹے ٹوٹے جسم کے ساتھ لیٹنا اور دو کروٹیں لینا، کیسا مزیدار ہوتا ہے، کوئی گزرا ہو تو محسوس کر سکتا ہے۔ 

بہرحال، اصل مزہ مغرب کی نماز کا تھا۔ 

میں کہتا ہوں جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ ابھی تک گدگدی گدگدی سی محسوس ہو رہی ہے دل میں، طبیعت کھلی کھلی سی لگ رہی ہے، لڈو پھوٹ رہے ہوں جیسے دل میں، سسرال والے دیکھنے آئے ہوں جیسے پہلے پہل، کسی بہت بڑی گیدرنگ میں مہمانوں نے تعریفوں کے پل باندھ دیے ہوں۔ 

بڑی خوبصورت فیلنگز محسوس ہو رہی ہیں۔ 

بات یہ تھی، کہ ہم پچھلے چار گھنٹے سے چل پھر رہے تھے، اور میں پوری طرح تھک چکا تھا۔ ہم کوئی دو بجے کے قریب گھر سے نکلے تھے، میں اور حسن، اردو بازار کے لئے، زارا کی کتابیں لینی تھیں، اور حسن نے اپنی دیرینہ خواہش کی تکمیل کے لئے، حضرت نعیم الدین مراد آبادی کی تفسیر لینی تھی۔ لیکن دہلی، اکبری، موچی، شاہ عالمی، لوہاری، اردو بازار، کون سی جگہ ایسی تھی جہاں ٹریفک جام نہیں تھی۔ 

میں تو موٹر سائیکل کو پاؤں سے گھسیٹتا ہوا ہی لے کر گیا تھا سارا راستہ۔ 

دھوپ، رش، ٹینشن، اعصاب جواب دے جاتے ہیں بندے کے۔ 

اردو بازار پہنچے تو چار بج رہے تھے۔ 

میرے کان اذان پر لگ گئے۔ 

’اتنے بجے اذان ہو جاتی ہے ویسے اہل حدیث کی‘ میں نے سوچا۔ 

اور مجھے محسوس ہوا جیسے واقعی کہیں اذان ہو رہی ہو۔ مدھم سی، آہستہ سی، عصر کے سایوں جیسی۔ 

’بھائی مجھے لگتا ہے اذان ہو رہی ہے کہیں‘ میں نے اپنا خیال ظاہر کیا۔ 

’پاپا ایسے ہی لگ رہا ہے، اذان نہیں ہو رہی کوئی بھی‘۔

ہم ابھی علمی سے پرنس پر گئے ہوں گے، اور کتابوں کے مہنگے دام سن کر پرانی کتابوں کی دکانیں چھاننے کا سوچ رہے ہوں گے، کہ اذان ہونے لگی۔ پتہ نہیں کہاں ہو رہی تھی کس طرف ہو رہی تھی، لیکن بڑی واضح اذان تھی، بڑی خوبصورت۔ ایسا لگ رہا تھا اردو بازار ہی کی کوئی مسجد تھی۔ 

’یار بھائی پہلے نماز پڑھ لیں یار‘ میں وہیں کہیں درمیان میں رک گیا۔ 

ہم نے موٹر سائیکل علمی والوں کے سامنے کھڑی کر دی تھی، اور ہم اسے نکالنا نہیں چاہتے تھے۔ میں اردو بازار کی دوسری طرف چل پڑا۔ میرا خیال تھا اذان ادھر سے ہی آ رہی تھی۔ لیکن ماسٹر قرآن کمپنی کے قریب غالباً ٹریفک بہت جام تھی، اور مجھے نہیں لگتا تھا، ہم تھانے کے قریب والی مسجد میں پہنچ سکیں گے۔ مجھے یاد آیا یہاں کہیں اوپر پلازہ میں بھی ایک مسجد ہے۔ 

”یار بھائی، یہاں کہیں اندر ایک پلازہ کی چھت پر ایک مسجد ہے، ادھر چلتے ہیں“۔

”ٹھیک ہے“ حسن پہلے ہی ٹریفک سے گھبرایا ہوا تھا۔ 

ہم تین چار منزلیں چڑھ کر اوپر آئے تو مسجد کا دروازہ بند تھا۔ مجھے ایک دم دھچکا سا لگا۔ لیکن میں نے ہاتھ لگا کر دیکھا تو پتہ چلا بس کنڈی بند ہے، تالا نہیں لگا ہوا۔ 

بہت ہی مزہ آیا اس عصر کی نماز کا۔ صحن میں بنے وضو خانے کی ٹوٹیاں بالکل خشک تھیں، اور پہلے پہلے نکلنے والے پانی کے چھینٹے جیسے سلسبیل کے چھینٹے ہوں۔ 

میرا دل تو کر رہا تھا مسجد کے صحن میں نماز پڑھنے کو، لیکن مجھے مصلیٰ کوئی نہ نظر آیا۔ کیسے خوبصورت سائے تھے صحن کے۔ خیر اندر کا ماحول بھی بہت اچھا تھا۔ شیشے کے دروازوں سے آنے والی روشنی نے بہت اچھا احساس تخلیق کیا ہوا تھا۔ 

یہ مسجد اہل سنت والجماعت کی لگتی تھی۔ کیونکہ ابھی تک کوئی دوسرا نمازی نہیں آیا تھا، ہمارے علاوہ۔ 

بہرحال، اپنی نوعیت کی بہت خوبصورت عصر تھی۔ میرا تو دل ہی نہیں کر رہا تھا صحن سے نکلنے کو۔

ہم دوبارہ نیچے اترے، زارا کی کتابیں لیں، حسن کی تفسیر معلوم کی، اور پھر پاک قرآن کمپنی سے مل بھی گئی، میں نے فوراً ہاں کر دی۔ 

مجھے یاد آ رہا تھا، کوئی آج سے تیس بتیس سال پہلے میں نے بھی ایک قرآن شریف ہدیہ لیا تھا فیروز سنز سے، اور اب تک وہی تلاوت کر رہا ہوں۔ پتہ نہیں حسن نے بھی اگلی ساری زندگی اسی تفسیر پر گزر بسر کرنی ہو۔ اس کا دل آیا ہوا ہے، تو لے لے۔ 

بہرحال، واپسی پر ہماری ہمت نہیں ہو رہی تھی، کہ دوبارہ شاہ عالمی، دہلی کا رخ کریں۔ ہم مال پر آئے، اور چئیرنگ کراس سے گڑھی شاہو کا رخ کیا۔ لیکن مجال ہے جو سکون نصیب ہوا ہو۔ اسی طرح کی ٹریفک جام، اسی طرح کا رش۔ گڑھی شاہو پر تو انتہا ہی ہو گئی۔ پتہ نہیں کیا مسئلہ تھا۔ 

ہم گھر پہنچے تو جسم ٹوٹ کر دہرا ہو چکا تھا۔ جوڑ جوڑ اکڑا ہوا تھا۔ 

ہماری شکلیں بگڑی ہوئی تھیں باپ بیٹے کی۔ زارا، سارا اور میری بیوی کہیں، تم لوگوں کو ہو کیا گیا ہے، باہر سے ہو کر آئے ہو۔ 

بہرحال، میں نے کوئی ایک جگ پانی کا پیا تو مجھے ہوش آیا۔ حسن تو فرش پر لیٹ گیا۔ 

”پاپا میں نے تو غلطی کی جا کر“ وہ ہنسا۔ 

”بیٹا میں نے تمہاری ماما سے کتنا پوچھا، اور میرا مقصد تھا کہ یہ انکار کر دے، لیکن اس نے بھی انکار نہ کیا۔ مجھے پتہ تھا ایسا ہی ہو گا۔ ایسا ہی ہوتا ہے اکثر۔ ان سڑکوں پر لاہور کی گندی ترین ٹریفک ملتی ہے انسان کو۔ اور پھر دھوپ بھی کتنی تھی آج“۔ 

بہرحال تھوڑی دیر بعد مغرب ہو گئی، اور میں وضو کر کے جائے نماز پر کھڑا ہو  گیا۔ مزہ تو خیر وضو سے ہی شروع ہو گیا۔ بندہ جتنا تھکا ہوتا ہے وضو اتنا ہی مزیدار لگتا ہے۔

اور یہ مغرب تو میری زندگی کی دیر تک یاد رہنے والی نمازوں میں سے ایک نماز تھی۔ 

کمرے کا صاف ستھرا ماحول اور مغرب کی روشنی، شفق۔ 

وضو کے پانی کی تروتازگی، اور رہ رہ کر پڑھی جاتی الحمد۔ 

پہلے رکوع پر تو خوشی کی کیفیت ہی اور تھی۔ 

’یار تھکاوٹ کی نماز اتنی مزیدار ہوتی ہے‘ میرے اندر کوئی خوشی سے پھولا نہیں سما رہا تھا۔ بس مسکرائے جا رہا تھا۔ 

پہلے سجدے کے بعد تشہد میں آیا، تو وہ ایک دو لمحوں کا توقف جیسے دنیا کا خوبصورت ترین آرام ہو۔ گھٹنوں، ٹخنوں اور پاؤں کی تڑی مڑی ہڈیاں جب سیدھی ہوئیں، یا ٹیڑھی ہوئیں، تو جیسے خوشی سے میری ہنسی نکلی جا رہی ہو۔ بس کوئی گدگدی کی سی کیفیت تھی۔ بہت ہی خوبصورت احساس۔ 

زندگی کے چند خوبصورت ترین احساسات میں سے ایک احساس۔ 

میری ایک ایک سانس  پر جیسے اپنے آپ نکل رہا ہو منہ سے، یا اللہ کیسی خوشی ہے، کیسی محبت ہے۔ 

مجھے ایسے محسوس ہو رہا تھا، جیسے میری کسی بہت بڑی کامیابی پر کوئی میرے بہت ہی عزیز اور محبت کرنے والے مجھ سے لپٹ رہے ہوں، گلے مل رہے ہوں، پھولوں کے ہار ڈال رہے ہوں، لڈو ٹھونس رہے ہوں میرے منہ میں۔ 

وہ پہلی رکعت کی کیفیت ناقابل بیان ہے۔ 

بہت ہی مزیدار کیفیت تھی۔ 

دوسری رکعت میں بھی کم و بیش ویسا ہی تھا۔ بس یہ تھا، کہ مجھے علم ہو چکا تھا، کہ ایسا محسوس ہو گا، اور اتنا محسوس ہو گا۔ 

باقی ساری مغرب ہی کمال تھی۔ میں کہتا ہوں، ایک ایک قیام، الحمد، تلاوت، ایک ایک رکوع، سبحان ربی العظیم، سبحان ربی العظیم، سبحان ربی العظیم، سمع اللہ لمن حمدہ، ربنا لک الحمد، اللہ اکبر، سبحان ربی الاعلیٰ، سبحان ربی الاعلیٰ، سبحان ربی الاعلیٰ۔ ایک ایک لفظ محبت اور خوشی سے ادا ہو رہا تھا۔ ایک ایک لفظ کسی کو سنا کر ادا ہو رہا تھا۔ اور اصل مزہ تو سبحان کہنے کا تھا، ربی کہنے کا تھا، العظیم، الاعلیٰ کہنے کا تھا۔ 

کبھی ان لفظوں پر غور کریں، کبھی خود سے دھیان چلے جائے ان کی طرف، 

سمع اللہ لمن حمدہ، کتنے خوبصورت الفاظ ہیں یہ۔ 

میں کہتا ہوں جس کلام کے ایک ایک لفظ میں محبت ہے، وہ خالق، وہ معبود کتنا محبت کرنے والا ہے۔ 

جس نے اس تھکاوٹ کو محبت میں بدل دیا تھا، وہ معبود کتنا خوبصورت ہے۔ 

کبھی موقع ملا تو ”سمع“ کا لفظ ایکسپلین کروں گا۔ کتنا خوبصورت اور محبت سے بھرا ہوا لگتا ہے مجھے یہ لفظ۔ 

کمال ہی ہو گیا اس نماز میں۔ 

التحیات للہ، والصلوات، والطیبات،

السلام علیک ایہا النبی و رحمۃ اللہ، و برکاتہ،

السلام علینا و علی عباد اللہ الصالحین۔ 

کبھی ان لفظوں کی طرف اپنے آپ دھیان چلا گیا تو محسوس ہو گا، کیسے محبت سے بھرے ہوئے الفاظ ہیں یہ۔ کیسی خوشبو ہے ان میں۔ کیسی چاشنی ہے، کیسی خوبصورتی ہے۔ 

مجھے التحیات کا لفظ بہت اچھا لگتا ہے۔ اور میں نے اسے پروناؤنس کرنے کا ایک طریقہ بھی نکالا ہوا ہے۔ بچپن کے تلفظ سے مختلف، جو ہمیں سکول میں سکھایا گیا تھا۔ یا پر شد کے بغیر۔ میں تا اور یا پر شد بولتا ہوں، بڑی زور دے کر۔

بہت خوبصورت لفظ ہے یہ ”التحیات للہ“۔ قرآن شریف میں آیا ہے یہ لفظ، جنتیوں کا کلام بن کر۔ جنتی دنیا میں بھی وہی کام کر رہے ہیں، جو جنت میں کرنے ہیں۔ کیسی خوبصورت بات ہے۔ 

میں کہتا ہوں ساری رکعتیں ایک سے بڑھ کر ایک محسوس ہو رہی تھیں۔ کوئی کسی حساب سے، کوئی کسی حوالے سے۔ ہر لفظ، ہر جیسچر، کسی سے گفتگو میں تھا۔ 

میں مسلسل اپنے آپ سے گفتگو میں تھا۔ 

میں جتنی آرام سے پڑھ سکتا تھا میں نے پڑھا۔ لیکن بہرحال میرے ذہن میں تھکاوٹ کا احساس تھا کہیں کہیں، اور میں نماز ادا کرنے کے بعد کچھ دیر لیٹنا چاہتا تھا۔ 

میں تسبیحات اور دعاؤں کے بعد، چارپائی پر لیٹا، تو کوئی گدگدا گدگدا کر کہنے لگا، کہ نہیں جناب، لیٹنا نہیں ہے ابھی۔ اتنے اچھے احساس کو اکیلے اکیلے انجوائے کر کے لیٹ گئے ہو، اسے لکھو، اور دوسروں سے شئیر کرو۔ اٹھو۔ 

اور میں کسی لاڈلے بچے کی طرح اٹھ کر نیچے آ گیا، کمپیوٹر پر۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایسی خوبصورت نمازوں کے تحفے عطا فرمائے، اور بار بار عطا فرمائے۔ آمین۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


No comments: