یہ اونلائن کی دنیا بڑی خوبصورت دنیا ہے۔
یہاں آپ کسی کی مدد کر کے غائب ہو سکتے ہیں، نہ اسے آپ کا پتہ لگتا ہے، نہ آپ کو اس کا۔ نہ اسے احسانمندی کا بوجھ اٹھانا پڑتا ہے، نہ آپ کو اس کی عاجزی اور شکرگزاری سے شرمندگی سی محسوس ہوتی ہے۔
چپ کر کے کسی کے اکاؤنٹ میں کچھ پیسے بھیجو، اور غائب ہو جاؤ۔
کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی بچہ خوش ہو جائے گا، کوئی نہ کوئی عورت سکون کی نیند سو جائے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بچوں کو بڑا شوق ہوتا ہے روزے کا، اور پھر روزے کی تیاری کا۔
جس نے نہیں رکھا ہوتا، اسے کوئی پروٹوکول ہی نہیں دیا جاتا، اور جس نے رکھا ہوتا ہے، وہ اوپر اٹھ اٹھ کر بیٹھتا ہے، کہ بھئی میں نے تو روزہ رکھا ہے، اور یہ سارا اہتمام تو میرے ہی لئے ہے۔ بچوں کی خوشی بڑی دیدنی ہوتی ہے۔ وہی عام سی چیزیں ہوتی ہیں، سموسے، پکوڑے، دہی بڑے، فروٹ چاٹ، لیکن افطاری کے ٹائم پر سجا کر کھانا، اور روزے اور رمضان کی برکتیں لوٹنا، اصل مزہ تو ان ہی باتوں کا ہے۔ اور یہی برکتیں ہیں رمضان کی۔ سادہ سادہ سی۔
رمضان کا تو ایک ایک لمحہ خوبصورت ہوتا ہے، سارا دن ہی خوبصورت ہوتا ہے، خوشبوؤں سے بھرا ہوا، اور مہکتا ہوا، برکتوں سے جگمگاتا ہوا، کسی ایک لمحے کی بات کریں تو کیا کریں۔
بندہ دو ڈھائی بجے اٹھتا ہے، تو تہجد وہ پہلے جیسی تہجد محسوس ہی نہیں ہوتی۔ سحری کے وقت شروع ہونے کے گھگو بول رہے ہیں، اور بندہ کھڑکی کھول کر باہر جھانکتا ہے تو نور ہی نور برستا نظر آتا ہے۔
’کیسی رحمتیں ہیں رمضان کی‘ بندہ سوچتا ہے۔
بڑی بڑی سی چوڑی چوڑی سی سڑکوں پر سحری کے وقت خالی خالی سی کوئی موٹر سائیکل یا گاڑی کتنی اچھی لگ رہی ہوتی ہے۔ کوئی گھر والی کو بٹھا کر، شائد سسرال سے واپس آ رہا ہوتا ہے، یا جا رہا ہوتا ہے، یا سحری کرنے کے لئے میاں بیوی کوئی چیز لے کر آ رہے ہوتے ہیں بازار سے۔
بندہ سحری کے وقت دہی لینے نکلے تو ہر گھر کی جلتی ہوئی بتی، ہر گھر کے کچن میں کھنکتے ہوئے برتن، بہتے ہوئے نلکے، اور چھوٹے چھوٹے بچوں کے قلقلے، شرارتیں، قہقہے، پتہ دیتے ہیں، کہ رمضان کی برکتیں نازل ہو رہی ہیں۔
بندہ اپنی طرف سے اکیلا ہی دہی لینے نکلتا ہے، لیکن پتہ چلتا ہے، سارا محلہ ہی اٹھ کر دہی لینے پہنچا ہوا ہے۔ دہی کی دکان پر اتنا رش ہے، کہ باری آنا مشکل ہے۔
اور کتنا خوبصورت لگتا ہے خالی خالی سی گلیوں میں کوئی دہی لے کر دور جا رہا ہے، اور کوئی دور سے آ رہا ہے۔ کوئی پاس سے گزرتا ہوا سلام کر جاتا ہے، اور کوئی اپنے دہی کا ڈونگا بچاتا ہوا، سر سے اشارہ کر کے، گلی میں مڑ جاتا ہے۔
کوئی پاس سے گزر رہا ہے، اور اپنی دہی کی پیالی میں سے ملائی اتار کر کھا رہا ہے، دوسرے کو دیکھتا پا کر مسکرانے لگتا ہے۔
اللہ تعالیٰ آباد رکھے مسلمانوں کے گلی کوچوں کو، سحری کی رونقوں کو، اور ان بستیوں میں جلتی روشنیوں کو۔ اللہ تعالیٰ آباد رکھے مسلمانوں کو، ان کے دلوں میں جگمگاتے ایمانوں کو، اور رمضانوں کو۔
اللہ تعالیٰ سب کو رمضان کی برکتیں اور رونقیں سمیٹنے کی خوش قسمتیاں عطا فرمائے، یہ قوم بہت اچھی، اور بہت عظیم قوم ہے۔ کبھی غور کریں، اللہ تعالیٰ نے قیامت صرف اس لئے روکی ہوئی ہے، کہ ابھی دنیا میں مسلمان ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کے آخری دین، کی آخری امت ہیں۔ آخری امید۔ مسلمان کوئی معمولی قوم نہیں ہیں۔
میں ہمیشہ سے منتیں کرتا ہوں، ہاتھ جوڑتا ہوں، کہ مسلمانوں کی شان میں کوئی گستاخانہ کلمہ مت نکالو منہ سے۔
بہت کچھ بانٹتے ہیں مسلمان، بہت کچھ تقسیم کرتے ہیں رمضان میں، اکثریت کو تو کوئی لینے والا ہی نہیں ملتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حسن نے روزہ رکھنے کا اعلان کر رکھا تھا، اور زارا اور سارا نے چھیڑ چھیڑ کر برا حال کیا ہوا تھا اس کا۔ میں اس سے پوچھ رہا تھا، کہ اس نے پہلے کبھی پورا روزہ رکھنے کا تجربہ کیا ہوا ہے یا نہیں، اور وہ کہہ رہا تھا، کہ کیا ہوا ہے ایک دو بار، لیکن اس کی ماں کو کچھ یاد نہیں آ رہا تھا۔ وہ کہہ رہی تھی اس کا کوئی تجربہ نہیں ہے، اتنا لمبا روزہ کیسے گزارے گا۔
میں پوچھتا ہوں، یار تیرا بھوک کا سب سے لمبا تجربہ کتنا ہے، وہ کہتا ہے، ایک بار صبح چھ بجے سے، شام چار بجے تک، یونیورسٹی گیا تھا، اور سارا دن کچھ نہیں کھایا تھا۔ میں نے کہا یار وہ تو یونیورسٹی تھی، یہ تو گھر بیٹھنا ہے۔ تمہیں دس بجے بھوک لگ گئی تو کیا کرو گے۔
ہمارے گھر میں دین پر کوئی سختی نہیں ہے، پتہ نہیں اچھی بات ہے یا نہیں، لیکن ہمارے ماں باپ نے بھی نہیں کی تھی، اور آگے میں بھی نہیں کرتا۔
لیکن میں خوش ہوں، الحمد للہ، بچے جتنا کر لیتے ہیں، خوشی سے کرتے ہیں، اپنی مرضی سے کرتے ہیں، اور بہت اچھا کرتے ہیں۔
ہم لوگوں نے تو محبت ہی سیکھی ہے، دین سے، تکلیفوں سے، اور غربت سے۔
سارا کہتی ہے، بھائی تین بجے پتہ چلے گا، بھوک لگی تو،
میں کہتا ہوں، یار وہی تو مزہ ہوتا ہے روزے کا، وہی تو اصل وقت ہے انجوائمنٹ کا۔ میں بس ایسے ہی لقمے دیتا رہتا ہوں۔
میری بیوی نے پراٹھے بنائے ہوئے تھے، اور میں ابھی ابھی دہی لے کر آیا تھا۔
حسن کا کہنا تھا، کہ دہی کھٹا ہے، اور اب زارا اور سارا کو ٹوٹکے سوجھ رہے تھے، کھٹے دہی کو میٹھا کرنے کے، یا اس کی کھٹاس مارنے کے۔
میں نے تو رات کی بچی ہوئی میتھی آلو ڈال لی تھی دہی میں۔ بچے میری اس ریسیپی سے متفق نہیں تھے۔
بہرحال، کسی نہ کسی طرح سب نے اپنا اپنا پراٹھا مکمل کیا، اور افطاری کا پلان بنانے لگے۔ میری بیوی نے لسی بنا دی تھی، اور میں لسی پی کر مطمئن ہو چکا تھا۔ حسن ابھی بھی کوئی انونشن کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ زارا اور سارا کی آفر یہی تھی، کہ روزے کا خیال نکال دو، حضرت نعیم الدین مراد آبادی کی تفسیر سے اتنی جلدی متاثر ہونا ٹھیک نہیں ہے، اور یہ کہ وہ ذہنی طور پر تو ابھی بچہ ہی ہے، اسے روزے معاف ہیں، لیکن حسن نہیں مان رہا تھا۔
میں نے کہا کل فیس بک بھری ہو گی، تین تین سال کے بچوں کے پہلے روزے کی پوسٹس سے، اور تم لوگ۔۔۔۔۔ سارا کا کہنا تھا کہ ان کی ماؤں کو شوق ہوتا ہے زیادہ، وہ کچن ورک سے بچنا چاہتی ہیں۔ ہماری ماما گریٹ ہیں۔
زارا کا خیال تھا، کہ وہ حسن کو دیکھ کر ہمت پکڑے گی، اور کل پرسوں کوئی فیصلہ کرے گی۔
مجھے یاد آ رہا تھا میرے ماں باپ بھی ایسے ہی کرتے تھے۔
میں نے بچپن میں کوئی تیسری چوتھی میں روزہ رکھ لیا تو میری امی پیچھے پیچھے پھریں روٹی لے کر۔ کوئی بات نہیں بچوں کا اتنا ہی روزہ ہوتا ہے، چڑیا کا بھی اتنا ہی ہوتا ہے، چیونٹی کا بھی اتنا ہی ہوتا ہے، تیرا بھی پورا ہو گیا ہے، بس اب کھانا کھا لے۔
لیکن روزے کا شوق گھٹی میں پڑا ہوا تھا، روزے کی محبت میری رگوں میں تھی، میں کیسے باز آتا۔
جب تھوڑا سا بڑا ہوا، دسویں گیارہویں، تب سے باز آنا چھوڑ دیا۔ تب سے اللہ تعالیٰ توفیق دے رہا ہے، شوق دے رہا ہے، محبت دے رہا ہے۔
بڑے بڑے عجیب و غریب دن آئے ہیں، لیکن روزے نہیں لئے اللہ تعالیٰ نے۔ بڑی محبت ہے اس کی۔
مجھے لگ رہا تھا، میرے بچوں نے بھی ایک آدھ سال بعد شروع ہو جانا ہے اپنے آپ، ان کے شوق سے اندازہ ہو رہا تھا مجھے۔ اور حسن کی نیچر تو میرے جیسی ہی ہے، دین اور عبادتوں کو انجوائے کرنے کی۔ اس کے شوق سے مجھے یہی اندازہ ہو رہا تھا، کہ اسے تجسس ہے، اسے سسپنس ہے، روزہ پورا کرنے کا، روزہ انجوائے کرنے کا۔
ہم تقریباً ساڑھے تین تک مکمل طور پر سحری سے لطف اندوز ہو کر بیٹھ چکے تھے۔ اور اب بس مذاق کر رہے تھے ایک دوسرے کو، کہ کون صبح کیسے ناشتہ کرے گا، کتنے بجے کرے گا۔
ابھی حسن کی ماں نے افطاری بنانی شروع کر دی ہے، اور حسن صاحب سپیشل گیسٹ بن کر بیٹھے ہیں۔ بہنیں آتی جاتی پوچھ لیتی ہیں، کہ بھائی کیا حال ہے۔
روزہ توڑنے کی معلومات شئیر کر رہی ہیں، کہ کون سی حالت میں کیا حکم ہے۔
میں نے بھی ایک بار پوچھ لیا ہے۔ وہ ہنس رہا تھا، پاپا آپ خود ہی تو کہا کرتے ہیں، کہ پیروں فقیروں کی نسل ہو کر بھوک سے گھبراتے ہو۔
پتہ نہیں بہت عرصہ پہلے ایک بار بھوک لگی تھی، تو اپنی ماں سے بحث کر رہا تھا۔ میں نے کہا، یار بھوک اور فاقے تو ہمارے خون میں شامل ہیں، تو بھوک پر لڑ رہے ہو ماں سے۔ اس نے غالباً وہی بات واپس کی تھی مجھے۔
میں ہنس پڑا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو کبھی کسی چیز کی کمی محسوس نہ کرائے، جو رمضان میں اپنے ارد گرد کے لوگوں کو بغیر پوچھے، اور بغیر بتائے خوشیاں بانٹتے ہیں، آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment