Image 1 Image 2 Image 3 Image 4
Pyara Islam

کل رات کچھ عجیب سا استغراق طاری تھا

 کل رات کچھ عجیب سا استغراق طاری تھا۔ جو چیز بھی سامنے آ رہی تھی، علم و فضل کا خزانہ محسوس ہو رہی تھی، جو خیال بھی ذہن میں آ رہا تھا، کوئی نہ کوئی ڈسکوری بنتا جا رہا تھا۔ عام طور پر میں ایسے موقعوں پر کچھ لکھتا نہیں ہوں۔ چھوٹے چھوٹے سے خیال اور احساسات ہوتے ہیں، کوئی مکمل سوچ محسوس ہی نہیں ہوتی۔ ہر چیز بس آناً فاناً گزر رہی ہوتی ہے سامنے سے۔

لیکن کل رات میں نے کچھ سوچیں لکھنے کی کوشش کی، جو بظاہر تو اکیلی اکیلی ہیں، لیکن سب مل کر کوئی مضمون بن رہی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر آپ اسلام کے ماننے والے ہیں، تو یاد رکھیں اسلام کچھ مخصوص سوچوں اور جذبوں کا نام ہے، اور عام الفاظ میں ان سوچوں اور جذبوں کو ’مثبت‘ کہا اور سمجھا جاتا ہے۔
اگر آپ سمجھتے ہیں، کہ آپ کو اپنی منفی سوچیں اور جذبے، مثبت کرنے پر اختیار نہیں ہے، تو آپ کسی اور ہی راستے کے راہرو ہیں۔
چاہے آپ شریعت پر چلنا چاہتے ہوں یا طریقت پر، ایک چیز ذہن میں رکھیں، آپ کو بہت جدوجہد کرنا پڑے گی۔ شریعت عقل اور ظاہر کو مسلمان کرنے کا نام ہے، اور طریقت جذبات اور باطن کو۔ سچ تو یہ ہے کہ دونوں ہی ضروری ہیں۔
اسلام اپنے آپ کو مستقل اور مسلسل بہتر بنانے کی کوشش کا نام ہے۔
لوگوں سے مہربانی کریں، اور اگر آپ سے کوئی مہربانی کر رہا ہے، تو اسے بھی کھلے دل سے قبول کریں۔ اس کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے سے گریز کریں۔
دوسروں سے مہربانی کی توقع تو رکھیں، لیکن ان کی مہربانی کا انتظار نہ کریں۔
لوگ اکثر کہتے ہیں انہیں کوئی پرواہ نہیں کہ دوسرے کیا کہتے ہیں، کیا سمجھتے ہیں،
بلکہ یہ کہ لوگوں کی توصیف و توبیخ، تعریف و تنقید سے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا،
پھر انہی لوگوں کو جب دوسروں کی سردمہری سے واسطہ پڑتا ہے، تو یہ روتے ہیں، پھر ان کی جب کوئی پرواہ نہیں کرتا، تو یہ شکائتیں کرتے ہیں۔
اگر آپ کو کوئی پرواہ نہیں، کہ لوگ کیا کہیں گے، تو آپ کو اس بات کی بھی کوئی پرواہ نہیں ہو گی کہ لوگ کیا کریں گے، کیا محسوس کریں گے، کیا توقع کریں گے، اور سچ تو یہ ہے کہ آپ ایک ایسا معاشرہ پیدا کر رہے ہیں، جو بے حس ہو گا۔
اگر آپ جو مرضی بولنا چاہتے ہیں، تو آپ سکھا رہے ہیں کہ لوگ بھی جو مرضی بولیں۔ اگر ایسا ہی ہے، تو لوگوں کی دشنام طرازیوں اور تہمتوں کے لئے تیار رہیں۔
اگر آپ نے ساری زندگی اپنی مرضی کی ہے، تو روتے کس بات پر ہیں، اپنی مرضی کرنے کا ہی تو یہ انجام ہوتا ہے۔ اللہ کی مرضی کرتے تو خوش رہتے۔
اگر آپ اکیلا رہنا پسند کرتے ہیں، تو لوگ آپ کو تنہا چھوڑ جائیں گے۔
اگر آپ وہی کرنا چاہتے ہیں جو آپ کا دل چاہتا ہے، تو آپ کا کیا دھرا سب ضائع جائے گا۔
اگر آپ اپنے کام سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں، تو آپ کو اپنے کام کی تعریف سننے کا موقع نہیں ملے گا۔
اپنی مرضی، اپنی سوچوں، اپنے جذبات پر، صرف اپنا اختیار جمانے کا خیال دل سے نکال دو، اکیلے رہ جاؤ گے۔ لوگوں پر انحصار کرنا، اور دوسروں کا محتاج ہونا سیکھو، تمہارے بہت سے دوست اور مددگار پیدا ہوں گے، تمہارے بہت سے رشتے پیدا ہو جائیں گے۔
ہر غمگین اور تکلیف دہ چیز غلط بھی نہیں ہوتی، کچھ غمگین اور تکلیف دہ چیزوں کو محض توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔
اپنے لوگوں کو اپنے تعلقات اور رشتوں پر توجہ دینا سکھاؤ۔ آپ بغیر تعلقات اور بغیر رشتوں والے افراد کے بل بوتے پر کسی معاشرے کے قائم ہونے کا خواب نہیں دیکھ سکتے۔
اگر آپ کو اپنے خون کے رشتوں کا پاس نہیں رہا، تو آپ سے روحانیت اڑ جائے گی، آپ کا اللہ تعالیٰ سے تعلق ٹوٹ جائے گا۔
ماں باپ سے اچھا تعلق ہی اللہ تعالیٰ سے اچھے تعلق کی ضمانت ہے۔
اگر آپ کو اپنے ماں باپ سے زیادہ اپنے دوست پسند ہیں، تو آپ عنقریب اپنے دوستوں کو اپنے چھوٹے چھوٹے فائدوں پر قربان کرنا شروع کر دو گے۔
اگر آپ نے پیسے کی بنیاد پر لوگوں کو اہمیت اور عزت دینا شروع کی ہے، تو کوڑیوں کے بھاؤ بکنے پر تیار ہو جاؤ۔
اگر آپ نے خون کے رشتوں کو پیسے کے عوض بیچ دیا ہے، تو ہو سکتا ہے آپ کو بھی بہت سستے داموں خرید لیا جائے۔
اگر آپ نے خون کے رشتوں کی پرواہ کرنا چھوڑ دی ہے، تو عنقریب آپ بھی کوڑے کے ڈھیر پر پھینکے جانے والے ہیں، ایک بیکار اور ردی چیز کی شکل میں۔
اگر آپ اللہ تعالٰی کو نہیں دیکھ رہے تو آپ کچھ بھی نہیں دیکھ رہے،
اگر آپ اللہ تعالیٰ کی طرف نہیں بڑھ رہے، تو آپ کہیں بھی نہیں جا رہے،
اگر آپ اللہ تعالیٰ کے نہیں بن رہے، تو آپ کسی کے بھی نہیں ہو رہے،
اگر آپ کا اللہ تعالیٰ سے کوئی تعلق نہیں ہے، تو آپ کا کسی سے بھی کوئی تعلق نہیں ہے،
اگر آپ نے اللہ تعالیٰ کو محسوس نہیں کیا، تو آپ نے کچھ بھی محسوس نہیں کیا،
آخر آپ کس قسم کے خدا پر یقین رکھتے ہیں،
اگر آپ خدا سے خوش نہیں ہوتے،
اگر آپ خدا سے مطمئن نہیں ہوتے،
اگر آپ خدا کو سمجھ نہیں پاتے،
اگر آپ خدا کی بات نہیں سنتے،
اگر آپ خدا کو پسند نہیں کرتے،
آخر آپ کا خدا ہے کون؟
اگر آپ توبہ بھی کر لیں، تو آپ کو اپنے گناہوں کی یاد ستاتی رہتی ہے،
اگر آپ کی توبہ نے آپ کے گناہوں کو نہیں بھلایا، تو آپ نے توبہ کی ہی نہیں ہے۔
غلطی اور گناہ کا فرق سمجھنے کی کوشش کرو۔
غلطیوں کی یاد سے تو ہو سکتا ہے مزید غلطیاں کرنے سے باز رہو، لیکن گناہوں کی یاد سے ہو سکتا ہے مزید گناہوں میں گھر جاؤ۔
گناہ ایک ایسا تجربہ ہے، جس سے آپ سیکھتے ہیں کہ کچھ نہیں ہوتا، کوئی فرق نہیں پڑتا، سب ٹھیک ہے، سب ایسے ہی ہے۔
اگر آپ اپنے گناہوں سے توبہ نہیں کر سکتے، انہیں چھوڑ نہیں سکتے، تو ان گناہوں کو یاد کریں، جو آپ نے نہیں کیے ابھی تک، اور اللہ تعالیٰ سے وعدہ کریں کہ آپ کبھی کریں گے بھی نہیں انہیں۔
اگر آپ کو اپنے گناہوں پر افسوس ہے، تو ان گناہوں کو یاد کر کے خوش ہوں جو آپ نے نہیں کیے ہیں ابھی تک، اور وعدہ کریں کہ آپ انہیں کریں گے بھی نہیں، کم از کم مزید کچھ افسردہ یادوں سے بچ جائیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ ہماری سوچوں اور جذبوں کو صراط مستقیم پر رہنے کی خوش قسمتی عطا فرمائے، آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments: