احتیاط اور پرہیز کی بھی ایک حد ہے،
انتہا پسندی بہت سی خوبصورت چیزوں کو بدصورت اور نقصان دہ بنا دیتی ہے،
اعتدال بہت سی نامناسب چیزوں کو خوبصورت اور فائدہ مند بنا دیتا ہے۔
شک کی بہت سی قسمیں ہیں۔ شک کی ایک قسم یہ ہے، کہ اگر میں نے ابھی نہ روکا، اگر میں نے ابھی قدم نہ اٹھایا، اگر میں نے ابھی کوئی پیش بندی نہ کی، تو معاملات میرے ہاتھ سے نکل جائیں گے، اور بعد میں میں ہاتھ ملتا رہ جاؤں گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں کل صبح آرام سے چھت پر بیٹھا تھا۔ سحری اور فجر کے بعد ہلکا ہلکا اجالا پھیلا، تو میں کچھ سیپارے لے کر چھت پر چڑھ آیا۔ میرا خیال تھا دیر تک تلاوت کروں گا۔ ’ہمسائیوں کی دیواریں اونچی ہونے سے میرے گھر کی بے پردگی تو ختم ہو ہی چکی ہے، کیوں نہ اس کا کوئی مذہبی فائدہ بھی اٹھاؤں، اور دیر تک قرآن پاک پڑھوں۔ اب کون سا کسی نے چھت پر چڑھنا ہے، اور کون سا دھوپ آنی ہے‘ میں نے سوچا۔
خیر ابھی آدھا پونا سیپارہ ہی پڑھا ہو گا، کہ میری بیوی آ گئی، اور واشنگ مشین لگا لی۔ میں بیٹھا پڑھتا رہا، میں نے سوچا مجھے کیا کہنا ہے اس نے۔ کپڑے دھو کر چلی جائے گی نیچے۔
لیکن ایسا نہ ہوا۔ کچھ دیر بعد وہ پاس آ کر بیٹھ گئی، اور ہم ادھر ادھر کے مکانوں کی باتیں کرنے لگے۔ کون سا مکان کتنے سال پہلے کتنا چھوٹا، اور کتنا ٹوٹا ہوا ہوتا تھا، اور اب کتنا اونچا اور کتنا نیا ہو چکا تھا۔
”پائپ سے پانی بڑا رک رک کر نکل رہا ہے، اٹھ کر دیکھیں تو ذرا“ اچانک اس نے چھت پر لگے پائپ کی طرف دھیان دلایا۔
میری چھت پر درمیان میں ممٹی ہے، سیڑھیوں کے اوپر والی، اور آدھی چھت ایک طرف ہے اور آدھی دوسری طرف۔ ایک چھت سے دوسری طرف، بارش وغیرہ کا پانی نکالنے کے لئے، کوئی بارہ تیرہ فٹ کا پائپ پڑا ہوا ہے۔
ایک چھت کے پانی کو، دوسری چھت، اور پھر پرنالے تک جانے کے لئے، اسی پائپ سے ہو کر گزرنا پڑتا ہے۔
اس پائپ میں کافی مٹی جمع ہو چکی تھی، اور اب پانی رک رک کر گزر رہا تھا۔
”یہ ساتھ والوں نے مکان بنایا ہے، تو اس کی مٹی اکٹھی ہو گئی ہے ساری ہمارے پائپ میں“ میری بیوی نے توجیہ دی۔
مجھے اس کی توجیہ سے کوئی اختلاف نہیں تھا۔
کیونکہ پائپ میں رکا ہوا پانی، کسی نہ کسی طرح لنٹر اور چھت کو متاثر کرنا شروع ہو گیا تھا، اور نیچے والے کمرے میں سل سی پیدا ہو گئی تھی، رنگ بھی اتر گیا تھا سارا چھت اور دیواروں کا، تو میں نے سوچا، اس پائپ کی صفائی کسی اچھے طریقے سے کی جائے، تو بہتر ہو گا، ورنہ کوئی فائدہ نہیں۔
ایک دو سال پہلے میں نے جن بانسوں اور پائپوں کی مدد سے صفائی کی تھی، وہ سب کہیں ضائع ہو چکے تھے، اور اب مجھے تیرہ فٹ کا ایک سبز سینٹری پائپ لانا پڑا تھا، جو جب سے آیا تھا اسی طرح پڑا تھا، کہ کسی دن وقت ملتا ہے تو صفائی کرتے ہیں۔
میری بیوی کے حساب سے وہ وقت مل گیا تھا۔ مجھے بھی لگا کہ مناسب یہی ہے، ابھی صفائی کر لوں، کہیں بارش آ گئی، اور پانی پوری طرح نکلنا بند ہو گیا، تو بہت مشکل ہو جائے گی۔
مجھے اپنا قرآن پاک کی تلاوت والا پروگرام بھول گیا، اور میں سب کچھ ایک طرف رکھ کر، پائپ کھولنے لگ پڑا۔ میں نے ایک پرانی چادر پھاڑی، اس کا ایک بجو یا بنو بنایا اور پائپ میں دے کر، سینٹری والے تیرہ فٹ لمبے پائپ سے دھکیلتے ہوئے، اسے دوسری چھت کے سرے سے نکالنے لگا۔
میں ایک چھت سے دھکیل رہا تھا اور دوسری چھت سے میری بیوی آوازیں دے رہی تھی، کہ ابھی بجو باہر آیا ہے یا نہیں آیا۔
بہرحال بجو تو باہر نہ آیا، لیکن اتنا گارا اور مٹی باہر آ گیا کہ ہم میاں بیوی حیران رہ گئے۔ فوراً اس گارے اور مٹی کو ایک شاپر میں ڈالا، پھر سینٹری پائپ کو دھکیلا، اور کچھ مزید گارے اور مٹی کے ساتھ بجو بھی باہر آ گیا۔
ہم بڑے خوش ہوئے۔ پائپ کی تقریباً صفائی ہو چکی تھی۔
لیکن میری بیوی کا خیال تھا کہ گار چونکہ ابھی نکل رہی ہے، اس لئے بہتر ہے کہ بجو والا پروسس ایک بار پھر دہرایا جائے۔ ہم نے پھر دہرایا، پھر گار نکلی، اور میرا خیال تھا اب کافی ہے، بس کریں۔
گار کی مقدار دیکھ کر خیال آیا کہ ایک بار اور دہرا دیں، تاکہ اگلی بارشوں میں کوئی مسئلہ نہ ہو۔ ہم نے پھر بجو کو سینٹری پائپ کے آگے لگایا، اور چھت والے پائپ میں گھسا دیا۔ لیکن اس بار بجو باہر نہ نکلا۔ بس اب ہمارے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ اگر بجو باہر نہ نکلا تو گار نکالنے کا فائدہ ہی نہ ہوا کوئی۔ بارش ہوئی، تو پانی اکٹھا ہو جائے گا، اور سیڑھیوں سے نیچے تیسری منزل تک بہتا جائے گا۔
چھت کے بارش والے پانی کا ممٹی سے نیچے سیڑھیوں پر بہنا، اور پھر وہاں سے تیسری منزل کے فرش پر گرنے کا تصور ہی دل دہلا دینے والا تھا ہم دونوں میاں بیوی کے لئے۔
بس اب ہمارا برا وقت شروع ہو چکا تھا۔ ہم نے کوئی غلطی کر لی تھی، اور اب اس کی سزا کے لئے چنے جا چکے تھے۔ ہمیں کوئی بہت بڑا سبق ملنے والا تھا۔
میری بیوی نے سارا کی پرانی شرٹ نکالی اور میں نے اس کے بجو کو سینٹری پائپ کے آگے باندھ کر، چھت والے پائپ میں گھسا دیا۔ آگے درمیان میں کہیں، وہ دوسرا بجو بھی غائب ہو گیا، سینٹری پائپ خالم خالی باہر آ گیا۔
اب کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔ ایمرجنسی ڈیکلئر ہو چکی تھی۔ دو بجو پائپ میں غائب ہو چکے تھے، اور اب غفلت برتنا کسی صورت میں بھی خطرے سے خالی نہیں تھا۔
ہم دونوں میاں بیوی ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔ اس سے پہلے کہ ہم ایک دوسرے کا قصور ڈھونڈتے، اور ایک دوسرے کو طعن و تشنیع کرتے، میں اٹھا، اور تیسرے بجو کو پائپ میں ٹھونسنے کا ارادہ بنا لیا۔
میری بیوی نے حسن کی پرانی پینٹ نکالی، اور میں نے اس کا بجو، سینٹری پائپ کے آگے لگا کر، چھت کے بارش واپے پائپ میں ٹھونس دیا۔
ہمارا خیال تھا، کہ پہلے دونوں بجو چھوٹے تھے، اس لئے پائپ اکیلا باہر آ جاتا تھا، یہ بجو اتنا بڑا ہے، کہ پائپ کسی جانب سے اکیلا باہر نہیں نکل سکے گا، اور آہستہ آہستہ اسے اور دوسرے دونوں بجوؤں کو آگے لگا کر، ساری گار، اور ساری مٹی دھکیلتا ہوا باہر لے آئے گا۔
لیکن ایسا نہ ہوا۔
بیچ پائپ میں کہیں بجو پھنس گیا۔ سینٹری والے پائپ کو بہت دھکیلا، بہت ٹھونکا، لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔ میں نے اسے نکال کر، چھری سے اس کی قلم بنائی، ایک سرے پر نوک سی، کنڈی سی، کہ ہتھوڑی سے ٹھونک کر، جب باہر کھینچوں گا، تو اس سے بجو بھی اٹک کر باہر آ جائے گا، لیکن نہیں۔
سینٹری پائپ ایسا پھنسا کہ کھینچ کر باہر نکالنا مشکل ہو گیا۔
ہم نے اسے مزید ٹھونکنا شروع کر دیا، کہ شائد بجوؤں میں پھنس چکا ہے، اپنی نوک اور کنڈی کی وجہ سے، اور اب بجوؤں کو لے کر ہی نکلے گا دوسری طرف سے۔
لیکن پتہ نہیں کیا بات تھی، کہ ایک طرف سے تیرہ فٹ کا پائپ پورا ٹھونس چکے تھے، لیکن دوسری طرف سے نہ تو بجو باہر نکلے تھے، اور نہ پائپ۔
حسن کا خیال تھا، کہ سینٹری پائپ کسی اور رخ میں ٹھونک گیا ہے۔
سارا کا خیال تھا کہ اگر پاپا نے ہاتھ ڈال ڈال کر چیک کرنا نہ چھوڑا، کہ پائپ دوسری طرف سے کیوں نہیں نکل رہا، تو پاپا کا ہاتھ یا بازو بھی پائپ میں پھنس جائے گا۔ زارا کا خیال تھا، کہ اندر کوئی جن یا پراسرار چیز ہے، جس نے سارے بجو اور پائپ پکڑ لئے ہیں۔
میری بیوی کا کہنا تھا، کہ یہ کام پلمبر یا گلی کے گٹر کھولنے والوں کا ہو چکا ہے۔
لیکن میں اندر ہی اندر پریشان تھا، کہ اب ہو گا کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب صوتحال یہ ہے کہ میں کل سارا دن اس کام میں لگا چکا ہوں، پائپ ٹھونکتے اور کھینچتے ہوئے، میری جان نکل چکی ہے۔ تھکاوٹ سے رات بھر نیند نہیں آئی ٹھیک سے۔ صبح سے پھر اسی کام میں لگا ہوا ہوں، کہ کسی طرح چھت کو توڑے بغیر، پائپ اور بجو باہر آ جائیں، لیکن کوئی حل نظر نہیں آ رہا۔
ایک بار ہارڈوئیر کی دکان سے کسی کیمیکل کا بھی معلوم کر آیا ہوں، لیکن ہفتہ ہونے کی وجہ سے مین دکانیں بند ہیں، کوئی امید نظر نہیں آتی۔
یو ٹیوب ویڈیوز بھی دیکھ چکا ہوں، کہ بند پائپس کو کھولنا ہو تو کس طرح کھولتے ہیں۔ لیکن کچھ سمجھ نہیں آئی۔
”نمک کا تیزاب۔۔۔۔۔“ ایک دکاندار نے کہا تھا۔ پتہ نہیں کیا ہوتا ہے نمک کا تیزاب۔
دو گھنٹے پہلے جب بارش ہو رہی تھی، اور چھت پر پانی بھرتا جا رہا تھا، اور پھر ممٹی سے بہہ کر سیڑھیوں سے ہوتا ہوا نیچے تیسری منزل کے فرش پر گرنے والا تھا، تو مجھے یاد آیا، اسی گھڑی سے بچنے کے لئے میں نے یہ سب شروع کیا تھا، اور ویسے تو شائد پانی ممٹی سے بہہ کر تیسری منزل کے فرش پر نہ گرتا، لیکن میں نے اسے اپنے ہاتھ سے، اپنی کوشش سے، ایسا کرنے پر ضرور تیار کر لیا تھا۔ میں اپنی عقل اور اپنی منصوبہ بندی سے ایسی نوبت ضرور لے آیا تھا، کہ جو شک تھا، جو وہم تھا، جو خوف تھا، وہ پورا ہوتا نظر آ رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت سے بچے اس لئے برباد ہو گئے، کہ ماں باپ کو لگتا تھا اگر انہوں نے انہیں چھوڑ دیا اور ٹھیک کرنے کی کوشش نہ کی، تو یہ برباد ہو جائیں گے۔
ماں باپ نے انہیں ٹھیک کرنے کی کوشش کی اور وہ برباد ہو گئے۔
بہت سے لائف پارٹنر اس لئے بھاگ گئے، کہ ایک کو لگتا تھا، کہ اگر دوسرے کو نہ روکا تو وہ بھاگ جائے گا۔ ایک نے دوسرے کو روکنا ٹوکنا شروع کیا، اور وہ بھاگ گیا۔
بہت سی محبتیں، بہت سے تعلقات، بہت سے رشتے، اس لئے خراب ہو گئے، کہ ایک کو لگتا تھا، اگر اس نے احتیاط نہ کی، تو دوسرا بدظن ہو جائے گا۔ اور اس نے احتیاط کی اور وہ بدظن ہو گیا۔
حالات اور دوسروں کو ٹھیک کرنے کی بجائے، اپنے آپ کو، اپنی سوچ کو، اپنے رویے کو ٹھیک کرنا، اعتدال اور میانہ روی سے چلنا، ایسی خوبصورت عقلیں ہیں کہ ان کی نظیر نہیں ملتی خود انسانوں میں۔
روحانیت کے بہت بڑے بڑے دروازے ہیں یہ۔
میں نے جتنی گار نکال لی تھی پہلی دو بار میں، اتنی پر ہی مطمئن ہو جاتا، نہ آگے بڑھتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی عقلوں کو جانچنے، اور مناسب فیصلے کرنے کی خوش قسمتی عطا فرمائے، آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment