Image 1 Image 2 Image 3 Image 4
Pyara Islam

پلیز ویڈیو شئیر کرنے کا نہ کہیں

 (پلیز، ویڈیو شئیر کرنے کا نہ کہیں)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پانچ چھ دن پہلے اعظم صاحب نے ایک ویڈیو شئیر کی تھی واٹسپ پر، میں نے آج دیکھی اور لکھنے بیٹھ گیا۔ 

اللہ تعالیٰ رزق بھی دیتا ہے، اور ہدائت بھی دیتا ہے، لیکن رزق بانٹنے والے خال خال ہیں، اور ہدائت بانٹنے والے جگہ جگہ۔ اور کیسی بات ہے کہ زیادہ تر ہدائت بانٹنے والے متکبر نظر آئیں گے، اور رزق بانٹنے والے عاجز۔

مجھے رزق بانٹنے والے بہت اچھے لگتے ہیں۔ مجھے جہاں کہیں سے بھی ان کے بارے میں کوئی خبر ملتی ہے، میں بڑی خوشی سے سنتا ہوں، بڑی خوشی سے شئیر کرتا ہوں۔ اللہ ہم سب کے نصیب میں کرے، کہ ہم محتاجوں کے کام آ کر، اور ضرورتمندوں کو دے کر دیکھیں، دے کر خوش ہوں۔ سب برابر ہو جائیں، کوئی ضرورتمند نہ رہے۔ 

مکر، فریب، چالاکی، حسد، کنجوسی، وغیرہ ہی تو قبضہ کیے ہوئے ہیں ساری دوسری عقلی اور قلبی خصوصیات پر۔ اگر انسان بانٹنا سیکھ لے، تو یہ ذہنی اور قلبی رویے بھی اپنے آپ ختم ہو جائیں۔ 

لیجئے پڑھئے، سنئے، دیکھئے:

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”یہ کہانی ہے حاجی نعمت علی بارہ کی، جو خود تو پانچ مرلے کے چھوٹے سے مکان میں رہتے ہیں، لیکن مین ملتان روڈ پر تین کنال کی کمرشل پراپرٹی پینتیس سال سے مزدوروں کو دے رکھی ہے، اور وہ بھی فی سبیل اللہ۔ شام پانچ بجے  محنت مزدوری کرنے کے بعد، جب یہ مزدور اپنی اس پناہ گاہ میں پہنچتے ہیں، تو حاجی نعمت علی بارہ کھانا تیار کر کے ان کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔

جب لنگر کھلتا ہے تو محلے کے بچے بھی اپنے اپنے برتن اٹھا کر چلے آتے ہیں۔

(ایک رہائشی مزدور کا انٹرویو)

”کافی عرصے سے رہتے ہیں، جو بھی کسی کو جگہ نہیں ملتی رہنے کی، مزدور آدمی، دن کو مزدوری کرتا ہے، رات کو سونے کی جگہ نہیں ہوتی،، وہ ادھر ہی ٹھہر جاتا ہے“۔

”اگر یہ جگہ نہ ہوتی تو آپ کہاں جاتے“۔

”اللہ وارث ہے، یہ تو اللہ تعالیٰ کی، اور حاجی صاحب کی۔۔۔۔۔ حاجی صاحب فرشتہ ہیں، میرے لئے۔۔۔۔۔ خاص طور۔۔۔۔۔“ (آنسو آ جاتے ہیں)

(حاجی نعمت علی بارہ سے انٹرویو)

”اچھا انکل سب سے پہلے تو یہ بتائیں کہ آپ خود پانچ مرلے کے گھر میں رہتے ہیں، تو آپ نے مزدوروں کو تین کنال کی پراپرٹی دے رکھی ہے، ایسا کیوں ہے؟“

”(پنجابی) ایسا اس لئے ہے، کہ اس کا بھی حساب ہونا ہے، زمین کا حساب ہونا ہے، کہ اگر پانچ مرلے پر تین منزلہ گھر بنایا، پانچ مرلے میں، مثال ہے، تو اس کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سے پانچ مرلے کا ہی حساب لے گا نا، پانچ سو کا تو نہیں لے گا، کیوں کہ اگر آپ کا گزارا پانچ مرلے میں ہوتا ہے، اور آپ دس، بیس، چالیس، سو مرلے احاطہ کریں گے، تو ان کا حساب دینا پڑے گا، اللہ تعالیٰ کو، کہ تمہارا ان میں گزارا ہوتا تھا، تو تم نے لوگوں کا حق (کیوں) مارا ہے،۔۔۔۔۔ 

”سن بیاسی میں شروع کیا ہے، سن بیاسی میں ہماری زمین بکی،  اتفاق ٹاؤن، احمد ہاؤسنگ سکیم میں، تو ہمارے پاس پیسے آ گئے بہت زیادہ، اور ہمارے والد صاحب کو بیس سے اوپر گنتی نہیں آتی تھی، کہ اکیس بائیس بھی ہوتے ہیں،۔۔۔۔۔ 

”ہم اس وقت بچے ہوتے تھے، تیس چالیس سال پہلے، انہوں نے پوچھا یہ زمین کس کی ہے، ہم نے کہا اللہ تعالیٰ کی، انہوں نے کہا تو پھر اللہ تعالیٰ کا حصہ نکال دو اس میں سے، ہم نے پوچھا، ابا جی کتنا حصہ نکالیں، انہوں نے کہا اگر  اللہ تعالیٰ کو مالک سمجھتے ہو تو آدھے پیسے اللہ تعالیٰ کے نام کے نکال لو، باقی آدھے پیسوں کا جو مرضی کر لو۔ ہم نے پھر لکھائی پڑھائی میں، اپنے گھر میں، سن بیاسی میں، آدھی رقم اللہ تعالیٰ کے نام کر دی، جس میں سے یہ تین کنال زمین لے لی مسافر خانے کے لئے، اور چار مسجدیں، جن پر حاجی صاحب کا نام ہے، دو ہنجروال، ایک کھاٹک، ایک زمین پر، چار مسجدیں، اور ایک یہ مسافر خانہ، اپنی زمین بیچ کر، آدھے اللہ تعالیٰ کے نام کر کے، یہ سب بنے ہیں۔ مسجدیں تو انہوں نے سنبھال لیں، اور یہاں ہماری ڈیوٹی ہے“۔

”تو یہ پراپرٹی کتنے کی ہے؟“

”یہ پراپرٹی جو ہے، یہاں اس وقت پینتیس چالیس لاکھ روپے مرلہ ہے، اور ساٹھ مرلے ہیں، کروڑوں کی بنتی ہے، مثال ہے“۔

”تو یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ اس کو اپنے استعمال میں لے آئیں، اور مزدوروں کو کسی سستی جگہ پر ٹھہرا دیں؟“

”نہیں اللہ پیارا ہے نا جو، وہ سستی جگہ کو پسند نہیں کرتا، مثال ہے۔ اللہ کے لئے اگر کرنا ہے تو صحیح کریں، مثال ہے، کہ یہی پراپرٹی اللہ کو بھلی لگتی ہے، دوسری سستی جو ہے وہ اللہ کے لئے نہیں رکھنی چاہئے، نہیں“۔

”سنا ہے آپ نے کوئی صفائی والا نہیں رکھا ہوا، تو صفائی کون کرتا ہے؟“۔

”صفائی میں خود کرتا ہوں، کیوں کہ، آگے ایک حرف لکھا ہوا ہے، انہوں نے لی ہو گی تصویر، کہ منجانب اللہ کے نوکر، میں جو اللہ کا نوکر ہوں، تو میں اللہ کے کتے کا بھی نوکر، گدھے کا بھی نوکر، بندے کا بھی نوکر، کیوں کہ اللہ کے نوکر جو ہیں ہم، 

اور اگر میرے بچے بھی، دوسرے بھی کہتے ہیں، آٹھ، مثال میری، اوپر واش روم ہیں، میں اپنے ہاتھوں سے روزانہ انہیں صاف کرتا ہوں، مثال ہے۔ جو وہاں مجھے سکون ملتا ہے، وہ کسی اور جگہ نہیں ملتا۔ جب مزدور چلے جاتے ہیں، تو خود صفائی ان واش رومز کی میں کرتا ہوں، گلیوں کی، کمروں کی۔ ان میں سے کسی کو اجازت نہیں کہ، مثال میری، صفائی کرے۔ کیوں کہ میں نوکر ہوں اللہ کا، اور اللہ کی مخلوق کا، اگر میں آگے ایک دو آدمی صفائی والے رکھ لوں، تو پھر میں نوکر نہیں رہوں گا، پھر تو میں مالکوں میں آ جاؤں گا، پھر میں نوکر تو نہیں رہوں گا۔ تو یہی وجہ ہے، اللہ کے فضل سے، تندرستی اللہ نے دے رکھی ہے، تو یہ چیز ہے، کہ ہم نے اپنی زندگی میں بہت کچھ دیکھا ہے، بڑے بڑے شہنشاہ، پہلوان،۔۔۔۔۔۔ کہ:

چڑھتے سورج ڈھلتے دیکھے

بجھتے دیے بھی جلتے دیکھے

جن کا نہیں تھا آسرا کوئی 

وہ بھی بچے پلتے دیکھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

علم پڑھا پر ادب نہ سیکھا، کیا لینا اس علم کو پڑھ کر

جاگ بغیر نہ دودھ جمے، چاہے لال ہو کتنا کڑھ کر،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

علم بھی پڑھ کر شریف نہ ہوں، جو ہوں ہی اصل کمینے 

پیتل کبھی بھی سونا نہ بنے، چاہے جڑے ہوں لاکھ نگینے  

شوم کبھی بھی سخی نہ ہو، چاہے پاس ہوں لاکھ خزینے  

عمل بغیر نہ جنت ملے، چاہے جا کر مریں مدینے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پڑھ پڑھ عالم فاضل بن گئے، کبھی اپنے آپ کو پڑھے نہیں، 

بھاگے جاتے ہیں مندر مسجد، کبھی دل اپنے میں گئے نہیں، 

یونہی شیطان سے لڑیں روزانہ، کبھی نفس اپنے سے لڑے نہیں، 

بلھے شاہ آسمان میں اڑتی پکڑتے ہو، جو دل میں بیٹھا ہے اسے پکڑے نہیں،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رب رب کرتے بوڑھے ہو گئے، ملا پنڈت سارے 

رب کا کھوج سراغ نہ ملا، اور سجدے کر کر ہارے  

رب تو تیرے دل میں رہتا ہے، کرے قرآن اشارے  

بلھے شاہ رب ملتا ہے اس کو، جو نفس اپنے کو مارے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں دیکھ رہا تھا یہ بندہ اللہ تعالیٰ کا دوست ہے، اس کا ولی ہے، یہ اس کے ساتھ رہ رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دور رہنے والا بھلا کیسے سوچ سکتا ہے، کہ اگر میں پانچ مرلے کی ضرورت ہوتے ہوئے، دس بیس کنال میں رہوں گا، تو یہ نا حق ہو گا، اور میرا حساب ہو گا۔ کوئی اللہ کا دوست ہی یہ سب سوچ سکتا ہے، کوئی اللہ کے ساتھ رہنے والا ہی یہ سب احتیاط کر سکتا ہے اللہ کے حساب کی۔

اور پھر بات آ جاتی ہے ماں باپ اور تربیت کی، لقمہ حلال کی۔ جن دماغی خصوصیات اور رویوں کو استعمال کر کے روٹی کمائی ہو گی، وہی خصوصیات اور  رویے اولاد میں پیدا ہو جائیں گے۔ جن کے ماں باپ اتنے متقی اور خدا خوفی رکھنے والے ہوں گے، ان کی اولاد بھی تو ایسی ہی ہو گی، حاجی نعمت علی بارہ جیسی۔ کتنا خوبصورت مکالمہ ہوا ہے باپ اور بچوں کے درمیان۔ قرون وسطیٰ کے اولیاء اللہ کی یاد تازہ ہو گئی۔ کیسا خلوص جگمگا رہا ہے ان کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کے لئے۔ کتنا قریب رہ رہے ہیں یہ اللہ تعالیٰ کے۔ جو اللہ نے دیا ہوا ہے، وہ بھی جیسے دیکھ رہے ہوں اللہ تعالیٰ کو دیتے ہوئے، اور جو خود دے رہے ہیں اللہ تعالیٰ کو، اس کے دیے ہوئے میں سے، وہ بھی جیسے خود دیکھ رہے ہوں اسے قبول کرتے ہوئے۔ ایسے جیسے رات دن اللہ تعالیٰ کے ساتھ رہ رہے ہوں، جیسے ہر ہر لمحہ اسے دیکھ رہے ہوں، کہ وہ انہیں دیکھ رہا ہے، اور ان کی نیتوں کو پڑھ رہا ہے ان کے دلوں میں۔ 

اللہ کے دیے ہوئے میں سے نکال کر دے رہے ہیں، اور بہترین حصہ نکال کر دے رہے ہیں، جیسے دیکھ رہے ہوں اللہ تعالیٰ کو اپنے سامنے، جیسے شرم آ رہی ہو انہیں اس کے لئے کوئی کمتر چیز پسند کرتے ہوئے، جیسے وہ سامنے ہو ان کے۔ یہی تو تقویٰ ہے، یہی تو اللہ تعالیٰ کی دوستی ہے، یہی تو اللہ تعالیٰ کی محبت ہے، یہی تو اسے سمیع و بصیر ماننا ہے۔ 

اور پھر کیسا خوبصورت تصور کیا ہوا ہے اللہ تعالیٰ کی بندگی کا، کہ اگر میں اللہ کا نوکر ہوں، اللہ کا بندہ ہوں، عبداللہ، عبد الرحمٰن، تو پھر اللہ کی مخلوق کا بھی نوکر ہوں، پھر میں کسی سے خدمت نہیں کروا سکتا، پھر میں خدمت کر ہی سکتا ہوں بس۔

اور کیسے سادہ سادہ سے شعر بنیاد بنے ہوئے ہیں اس خوبصورت انسان کے عمل کی۔ کوئی بہت پڑھنے لکھنے کے ضرورت نہیں ہوتی نیک انسان بننے کے لئے۔ بس جذبات مسلمان ہونے چاہئیں۔ ما شاء اللہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

اللہ تعالیٰ ہم سب کو رزق بانٹنے والوں میں شامل ہونے کی سعادت عطا فرمائے، آمین۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔




 


No comments: