یہ درود شریف ایسے ہی مقبول بارگاہ نہیں ہو جاتے، کوئی بے مثل خوبصورتی ہوتی ہے ان میں، کوئی چاشنی، کوئی محبت، کوئی خلوص، کوئی اچھوتا اور انوکھا آہنگ۔ اس درود پاک کی خوبصورتی ملاحظہ فرمائیں، کیسی پاکیزہ اور منزہ صفات سے یاد کیا جا رہا ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات اقدس کو، کیسی خوش الحانی سے بھرا ہوا ہے یہ درود شریف، درود اکبر۔
اللھم صل علی محمد سید المشتاقین
دل پھڑک اٹھا ہے، اس درود شریف پر۔ ہم سب مشتاقین ہیں، اور وہ ہمارے آقا و مولا ہیں، ہم سب سے اوپر، ہم سب کے شانوں اور سروں پر۔
اللہ تعالیٰ نے بنی پاک صلی اللہ علیہ و سلم پر پڑھے جانے والے درود پاک کو بھی صلوٰۃ کہہ کر شرف بخشا ہے۔ ذرا اس حصے کی خوبصورتی ملاحظہ فرمائیں جو سید المتوسطین والی صفت سے شروع ہو رہا ہے۔ اور پھر جو سید المجتہدین سے شروع ہو رہا ہے، اور پھر جو سید المقبولین اور سید المحبوبین سے شروع ہو رہا ہے۔ سارا حصہ ہی وجدانی ہے، ایک سے بڑھ ایک خوبصورت صفت، خوبصورت لفظ، خوبصورت ادائیگی، خوبصورت قوافی، سبحان اللہ۔
میں یہ درود پاک لکھ رہا تھا تو میرے دل میں آیا کہ اللھم صل علی محمد سید تو ہر بار آ رہا ہے، اسے کاپی کر کے ایک ہی بار پیسٹ کر دیتا ہوں، جتنی بار بھی آ رہا ہے، ہر بار لکھنے اور اعراب لگانے کی ضرورت نہیں رہے گی، لیکن پھر کوئی بولا اگر اتنی ہی بچت کرنی ہے، وقت اور محنت کی، تو رہنے ہی دو۔ مجھے بڑی شرم سی آئی، ندامت سی محسوس ہوئی، کہ یہ بھی بھلا کیسی سوچ تھی میری۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر درود شریف لکھنا ہے، اور ٹائم کی بچت سوچ کر لکھنا ہے۔ اس سے زیادہ خوبصورت وقت اور کون سا ہو گا بھلا، جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر درود شریف لکھنے میں گزر جائے۔ تھوڑا لکھ لوں گا، لیکن بار بار لکھوں گا، بار بار اعراب لگاؤں گا۔
نہیں جواب درود شریف کی لذتوں کا کوئی۔ ہر عبادت اور ہر ذکر کا ذائقہ نرالا ہے، لیکن درود شریف کی بات ہی کچھ اور ہے۔
ہر درود شریف کا لطف اپنی مثال آپ ہے۔
پتہ نہیں مجھے کیوں لگتا ہے، کہ جب ہم اس طرح کا کوئی ذکر کر رہے ہوتے ہیں، جو اور بھی ہزاروں لاکھوں لوگ کر رہے ہوتے ہیں، یا کر چکے ہوتے ہیں، تو ہم اپنی جگہ پر بیٹھے بیٹھے ان سب لوگوں سے بھی مل رہے ہوتے ہیں، ان سب میں بھی شامل ہو رہے ہوتے ہیں۔ یہ درود شریف لکھتے ہوئے مجھے ایسا ہی احساس ہو رہا تھا۔ پرانی سی کتاب، پتہ نہیں کون سے بزرگ کے ہاتھ کی لکھی ہوئی، پتہ نہیں کس دور کی لکھی ہوئی، اور کیسی کیسی محبت سے پڑھی ہوئی، اب میرے سامنے تھی، اور میں کاپی کر رہا تھا اس میں سے، اس الیکٹرونک فارم میں۔ پتہ نہیں کتنی ہی بار مجھے محسوس ہوا میں کسی پرانے سے دور میں پہنچ گیا ہوں، کوئی کچا سا چبوترہ ہے، کوئی چھوٹی اینٹوں کی محراب ہے، کوئی پتھروں کا فرش ہے، کوئی چھوٹا سا سائبان ہے، اور چلچلاتی دھوپ ہے، اور ہم بیٹھے ہوئے کوئی درس و تدریس کا کام کر رہے ہیں۔ ٹھنڈے پتھروں کے اس چبوترے پر پہنچتے پہنچتے لو اور گرم ہوا، تھوڑی سی معتدل ہو جاتی ہے، اور ہمارے پسینوں سے بھیگے کرتوں اور عماموں کو سہلاتی ہوئی بڑی بھلی بھلی محسوس ہوتی ہے۔ دور و نزدیک پتھریلے راستے ہیں، اور راستوں کے دونوں طرف بڑے بڑے پتھروں کے نیچے کہیں گھاس اور خود رو جڑی بوٹیاں اگی ہوئی ہیں۔ بڑا اچھا لگتا ہے رنگ برنگے پتھروں کے نیچے اگی ہوئی تھوڑی بہت گھاس دیکھ کر۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ ہمارے دل و دماغ کو درود شریف کی محبت سے سیراب فرمائے، آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment