میں اکثر کہا کرتا ہوں، ہم ایک اچھی قوم ہیں۔ میں تو اس بات پر بھی پہنچ چکا ہوں، کہ ہمیں اس بحث سے ہی نکل جانا چاہئے، کہ ہم ہیں یا نہیں ہیں، ہر صورت میں ہمیں لکھنا، کہنا اور سمجھنا یہی چاہئے کہ ہم ایک اچھی قوم ہیں۔ ہم اچھے لوگ ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں بینک پہنچا تو پانچ بجنے میں آدھا گھنٹہ باقی تھا۔ میں نے اپنی بیٹی کی فیس جمع کروانی تھی اور میرا خیال تھا، کل بارش نہ ہو جائے، اور جمعۃ المبارک کا کر کے، کوئی دیر سویر نہ ہو جائے۔ بہتر ہے ابھی کروا لوں۔
کسی وجہ سے بینک کا عملہ کسی بڑے لین دین میں مصروف تھا، اور عام لوگوں کا کافی رش لگ چکا تھا۔ اٹھارہ بیس کے قریب لوگ جمع تھے۔ کچھ کو بیٹھنے کی جگہ بھی نہیں ملی تھی۔ میں بھی ایک کونے میں کھڑا ہو گیا۔
میں تقریبا آدھا گھنٹہ کھڑا رہا اور مجھے یقین تھا کہ اگلے ایک گھنٹے تک میری باری نہیں آنے والی۔
پھر پانچ بج گئے، اور سیکیورٹی گارڈز نے دروازہ بند کر دیا۔ دونوں تینوں سیکیورٹی گارڈز لوگوں پر نظر رکھے اندر کھڑے ہو گئے۔
میرے لئے زندگی میں انتظار کرنا، کب کا آسان ہو چکا ہے۔ کسی جگہ پر گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ کھڑے ہونے میں بھی مجھے کوئی مذائقہ محسوس نہیں ہوا کبھی۔ لائنوں میں لگنا، تھڑوں پر بیٹھے اپنی باری کا انتظار کرنا اب مشکل نہیں محسوس ہوتا۔
میں اپنی دانست میں آرام سے کھڑا تھا۔ ایک ڈیڑھ گھنٹے بعد باری آ جائے گی، بس ٹھیک ہے۔ آج کا کام آج ہو جائے گا۔ یہی بہت ہے۔
پتہ نہیں کیوں، ایک نوجوان سا سیکیورٹی گارڈ میرے پاس آیا اور کہتا ہے، بابا جی آپ آ جائیں کاؤنٹر پر۔ سیکیورٹی گارڈ جس کی باری تھی، اس کی منت کے انداز میں بولا، بزرگ ہیں، کافی دیر سے کھڑے ہیں۔ وہ بھی باعزت لہجے میں کہتا ہے، بابا جی آپ چلے جائیں کاؤنٹر پر۔ میں بعد میں چلا جاؤں گا۔
میں نے تھوڑی سی پس و پیش کی، لیکن پھر انکار نہ کر سکا۔ میں اس طرح کے احسان اس لئے بھی لے لیتا ہوں، کہ میرے انکار سے وہ احسان کرنا ہی نہ چھوڑ دے۔ یا دوسروں کا احساس کرنا، ان کی فکر کرنا ہی نہ چھوڑ دے۔
مجھے یہ بھی اندازہ ہے، کہ لوگ اس طرح کی مدد دوسرے کا احساس کر کے بھی کرتے ہیں، اور اپنے کسی عزیز کو یاد کر کے بھی کرتے ہیں۔ میں نوجوانی میں اکثر کھڑا ہو جاتا تھا کسی بزرگ کو دیکھ کر۔ اسے سیٹ دے دیتا تھا۔ میرے ذہن میں ہوتا تھا، کہ میرے ابو بھی بسوں ویگنوں میں سفر کرتے ہیں، کوئی انہیں بھی سیٹ دے دے گا۔ اور ابو نے کبھی گھر آ کر کہنا، کہ یار آج تو بہت اچھا ہوا۔ بھیڑ بھی بہت تھی ویگن میں، اور گرمی بھی بہت تھی۔ بھلا ہو کسی نیک ماں باپ کی اولاد کا، ایک لڑکا تیری عمر کا اٹھا اور کہتا ہے، بابا جی آپ بیٹھ جائیں۔ اللہ اس کا بھلا کرے۔
میں دل ہی دل میں مسکراتا، اور خوش ہوتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں فیس جمع کروا کر بینک سے باہر آ گیا۔ آتی دفعہ میں نے اس سیکیورٹی گارڈ کو ہلکا سا شکریہ بھی کہا۔ لیکن میں نے اندر ہی اندر ایک فیصلہ کیا۔ میں نے سوچا، یہ احسان مجھ پر قرض رہے گا۔ اگر کبھی میری باری کسی اور کو دے دی جائے، یا کوئی اور لے لے، یا مجھ سے ریکوئسٹ کرے، کہ میں اسے پہلے جانے دوں، تو میں مائنڈ نہیں کروں گا۔ جھگڑا نہیں کروں گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہرحال، یہ کوئی اتنی بڑی بات نہیں ہے۔ آپ سب کے ساتھ بھی کبھی نہ کبھی ایسا ہو چکا ہو گا۔ آپ سب نے بھی کسی پر تھوڑا سا احسان کیا ہو گا، اور کسی دوسرے نے بھی کبھی نہ کبھی ایسا احسان کیا ہو گا آپ پر۔ بڑا کام یہ ہے جو میں اب کر رہا ہوں۔ میں اسے لکھ کر شئیر کر رہا ہوں آپ سب سے۔
مجھے پتہ ہے اسے پڑھ کر اچھا ہی لگے گا کچھ نہ کچھ۔ اور یہی بہت ہے۔
اگر آپ سب بھی ایک ایک تجربہ ایسا شئیر کر دیں، تو فیسبک بھر جائے ایسے تجربات سے۔ ہم سب کتنا خوش ہوں۔ ہم اپنے آپ کو اچھے لوگ سمجھیں۔ اور ہمیں موقع ملے تو ہم بھی دوسروں کے ساتھ ایسا ہی کریں۔ ہماری سوچوں کے زاویے اور رویے بدل جائیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کی بجائے میں اگر ڈیڑھ گھنٹہ کھڑا رہتا، اور مجھے کوئی باری نہ دیتا، کوئی سیٹ نہ دیتا، تو میں خاموشی سے چلا آتا، اور آ کر فیسبک پر لوگوں کی بے حسی پر سیخ پا نہ ہوتا۔ برے رویے پھیلانے کی کیا ضرورت ہے۔ اسے پڑھ کر لوگ یہی سمجھتے کہ ایسا ہی کرنا چاہئے۔ اور جانے والوں کو بھی یہی لگتا، کہ ان کے ساتھ ایسا ہی ہو گا۔ غلط فہمی، بدگمانی وغیرہ کا بیج بویا جاتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اچھائی دیکھنے، اچھائی محسوس کرنے، اور اچھائی پھیلانے کی خوش قسمتی عطا فرمائے، آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: حاوی شاہ
No comments:
Post a Comment