کل شام میں اپنے گھر کی دہلیز پر کھڑا دروازہ کھول کر اندر داخل ہونے والا تھا، کہ کنچے کھیلتے دو بچے لڑنے لگے۔ جیسے بچے لڑتے ہیں۔ ایک کا موقف کچھ اور ایک کا کچھ اور۔ کنچوں کا معاملہ تھا۔ میری کوئی دلچسپی نہیں تھی، مجھے کچھ پتہ بھی نہیں تھا، کیوں جھگڑ رہے ہیں۔ گھر میں داخل ہوتے ہوتے بس ایک جملہ کان میں پڑا اور میں سوچنے لگا، اور تب سے سوچ رہا ہوں۔
ایک بچہ کہنے لگا ”دیکھ قاری صاحب کے گھر کے سامنے کھڑا ہے، جھوٹ نہ بول“۔
میں نے جب سے مدرسہ شروع کیا ہے، گلی کے بچوں نے مجھے قاری صاحب کہنا شروع کر دیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گلی کے بچوں سے بہت بڑے بڑے بزرگوں نے بھی بہت کچھ سیکھا ہے۔ بڑے واقعات مل جاتے ہیں آپ کو گلی کے بچوں کے۔
ایک بزرگ گزر رہے تھے تو کسی بچے نے کہا، بھائی ٹھہر جا۔ بابا جی کے کپڑوں کو گیند لگ جائے گی۔ ساری رات عبادت کرتے ہیں۔ بزرگ رات کا کچھ حصہ عبادت کرتے تھے۔ بچوں کی بات سن کر ساری رات عبادت کرنے لگے، کہ بچوں کا گمان غلط نہ ہو جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں سوچوں قاری صاحب کے گھر کی کتنی حرمت ہے، قاری صاحب کی کتنی عزت ہے ان بچوں میں۔ آخر کسی نے تو ان کو اس عزت کا بتایا ہو گا۔ ان کے ماں باپ کتنے سعادت مند ہیں، جنہوں نے ان بچوں کو دین کی عزت سکھائی۔ قاری صاحب کی عزت سکھائی۔
میں سوچتا ہوں قصور میرا ہے۔ یہ لوگ تو جو دے سکتے تھے انہوں نے دے دیا۔ اب ان کے معیار پر پورا نہ اتروں تو قصور میرا ہے۔ کیسے جھوٹ کی قباحتوں سے دور ہو جاؤں، کہ واقعی اس بچے کے جملے کا اہل بن سکوں۔
جس قاری صاحب کے گھر کے سامنے کھڑے ہو کر جھوٹ بولنے سے روک رہا ہے ایک بچہ، وہ قاری صاحب کتنے سچے ہونے چاہئیں۔ یہاں تک پہنچ کر جھرجھری آ جاتی ہے۔ کوئی عذر نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے بچوں کے گمان پر پورا اترنے کی خوش قسمتی عطا فرمائے، آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: حاوی شاہ
No comments:
Post a Comment