وہ کہہ رہا تھا، اس کے ارد گرد کے لوگ بھی ایسے ہی ہیں۔ ان میں کوئی خوشبو نہیں محسوس ہوتی، ان کی آنکھیں دھندلی، اور ان کے چہرے بے رنگ ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے کہا یہ سب کچھ اس وقت ہوتا ہے، جب ہم اپنے پروفیشن کو انسانیت کی خدمت سمجھ کر قبول نہیں کرتے، ہم اسے اپنے ارد گرد بسنے والے انسانوں کی مدد کا ذریعہ اور وسیلہ نہیں سمجھتے۔ میں کہہ رہا تھا، ہمارے پروفیشن ہمارے ارد گرد کے انسانوں کی ضرورت سے پیدا ہوتے ہیں، اور جب ہم ان انسانوں کی ضرورتوں کا خیال کرنے کی بجائے، کسی خود غرضی کا مظاہرہ کرتے ہیں تو ہمارے پروفیشن سے خوشبو اور روشنی ختم ہو جاتی ہے، سکون اور اطمئنان اٹھ جاتا ہے۔
اگر ہم کام پر جاتے ہوئے یہ نہیں سوچتے، کہ میں اپنے ارد گرد کے لوگوں کی ضرورتیں پوری کرنے جا رہا ہوں، تو ہم ہمارے پروفیشن سے لذت اور مٹھاس نکل جاتی ہے۔ کوئی سویپر بھی اگر یہ سوچ کر جا رہا ہے، کہ وہ صفائی کرے گا، اور گندگی ختم کرے گا، تاکہ لوگ اچھا محسوس کریں، اور انہیں زندگی میں سہولت محسوس ہو، بیماریوں سے تحفظ اور آنے جانے میں آسانی محسوس ہو، تو سمجھ لیں، اس نے اپنے پروفیشن کا حق ادا کر دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے کہا ویسٹ نے یہی تو کیا ہے، اس نے لوگوں کو اپنے کام میں لذت محسوس کرنا سکھایا ہے۔ انہوں نے لوگوں کو اپنے کام میں اکتاہٹ، بیزاری اور ایسی ہی دوسری چیزیں محسوس کرنے سے روکا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہماری پرابلم یہ ہے، کہ ہمارے لوگوں کو یہ بتایا گیا ہے، کہ یہ ملک اسلامی نہیں ہے، اس میں اسلام نافذ ہونا ابھی باقی ہے، اور یہ کہ ہم لوگوں کی زندگی اسلام کے اصولوں کے منافی ہے، اور یہ کہ ہم جو کچھ بھی کر رہے ہیں، غلط ہے۔
اب ایسی تعلیم کی وجہ سے بندہ نہ اپنے ملک سے وفادار رہتا ہے، نہ پروفیشن سے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے کہا پروفیشن کے بھی تین لیول ہیں۔ پہلے لیول پر انسان کی اپنی ضرورت۔ پھر دوسرے لیول پر اپنے پروفیشن کے فرائض، اور تیسرے لیول پر اپنے پروفیشن سے محبت۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے کہا ہمارا اللہ تعالیٰ سے تعلق بھی انہی تین لیول پر چلتا ہے۔ پہلے لیول پر ہماری ضرورتیں ہمیں اللہ تعالیٰ کے قریب لے جاتی ہیں۔ پھر فرض کا احساس، کہ بندگی فرض ہے۔ تیسرے لیول پر محبت آتی ہے۔
ہمیں کسی نہ کسی عمر میں اللہ تعالیٰ سے تعلق کو محبت کے تعلق میں بدلنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمیں ساری زندگی ضرورت اور فرض کے تعلق میں ہی بسر نہیں کر دینی چاہئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے پروفیشن کا بھی یہی حساب ہے۔ کسی نہ کسی لیول پر ہمیں اپنے پروفیشن سے محبت والے تعلق میں داخل ہو جانا چاہئے۔ انسانیت کی خدمت والے تعلق میں داخل ہو جانا چاہئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کو اپنی محبت عطا فرمائے، ہمارے دماغوں کو اپنے پروفیشن میں رسائی اور رسوخ عطا فرمائے، آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: حاوی شاہ
No comments:
Post a Comment