کسی نے مجھ سے پوچھا ہے کہ میں اپنی فیلنگز بتا دیتا ہوں، مجھے نمازوں اور تلاوتوں اور دیگر عبادتوں میں جو کچھ بھی خوشی اور خوبصورتی محسوس ہوتی ہے، میں بتا دیتا ہوں، مجھے ڈر نہیں لگتا، کہ یہ سب کچھ چھن نہ جائے، جو کچھ بھی ملا ہے خوشی اور خوبصورتی سے، وہ چھن نہ جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئسچن بہت بڑا ہے، اور بہت جینئن بھی ہے۔ ہم سب اسی میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اچھی بات کو منہ سے نکلالتے ہوئے ڈرتے ہیں، کہ چھن نہ جائے، نظر نہ لگ جائے، حسد نہ کرنے لگے کوئی۔ ہم سب کسی نہ کسی ایسی احتیاط میں گھرے ہوئے ہیں۔ مذہبی احساسات کے بارے میں تو یہ احتیاط سو گنا بڑھ جاتی ہے۔ یہ جو ہمارے اندر برائی دیکھنے ، اور اسے پھیلانے کی رغبت بڑھی ہوئی ہے ، اس کی وجہ یہی ہے ، کہ ہم نے اچھائی دیکھنے اور اسے پھیلانے کو ، چھن جانے ، نظر لگنے ، حسد بڑھنے جیسے خدشات کی نظر کر رکھا ہے ۔ ہم اچھی بات نکالنا ہی بھول گئے ہیں منہ سے ۔ ہمارا ایک دوسرے کو متاثر کرنے کا طریقہ بھی بس غم اور تکلیفیں بتا کر متاثر کرنے تک محدود ہو چکا ہے ۔ ہم اپنے آپ کو مظلوم اور دنیا کے دھوکوں سے مرے ہوئے ظاہر کرنے میں بڑھ چڑھ کر ثابت ہونے کی کوشش کرتے ہیں ۔ عجیب بات ہے کہ ہم ورد وظیفے بھی بس اسی سوچ سے کرتے ہیں ، کہ دوسرے ہمارے دشمن ہیں ، اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے شر سے پناہ میں رکھے ، اور انہیں نیست و نابود کر دے ۔ سب ایک دوسرے کے خلاف یہی کر رہے ہوتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چھن جانے یا چھین لینے کی بات ہے یا نہیں ہے، میں ایک بات کرتا ہوں۔ اور بھی بہت کچھ ہے اس حالت کے پیچھے۔ ہر کسی کا اپنا تجربہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن میں ایک بات کرتا ہوں۔
میں کچھ سال پہلے ایک کمپنی میں کام کرتا تھا۔ باس کی کوشش تھی، کہ ہر ورکر سے پرسنل تعلق رکھے، پرسنل سیکرٹ رکھے۔ پرسنل سے مراد پرسن ٹو پرسن۔ ہر شخص ایک دوسرے سے محتاط تھا، کہ کہیں میرا سیکرٹ دوسرے کو معلوم نہ ہو جائے۔ ایک شخص ایک دوسرے کی ٹوہ میں تھا۔ ہر شخص سمجھتا تھا، کہ وہ باس کے زیادہ قریب ہے۔ اور باس نے یہ راز اور کسی کو نہیں بتا رکھا۔ باس ہر ایک سے دوسرے کی چغلی بھی کرتا تھا، دل ہی دل میں ایک دوسرے کے خلاف بھی کرواتا تھا۔
باس ہر ایک پر نظر رکھتا تھا، کون کس سے کیا بات کر رہا ہے، کیسے مل رہا ہے۔ وہ کسی دو بندوں کا بڑھتا ہوا تعلق برداشت نہیں کرتا تھا۔ فورا ٹوہ لگاتا، جاسوسی کرواتا، پوچھتا، کیا بات ہو رہی تھی، وغیرہ وغیرہ
باس کے کمرے سے نکلنے والا ہر شخص اپنے آپ کو سرخرو اور دوسروں کو حقیر سمجھتا تھا۔ دوسروں کو دشمن سمجھتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ اس تفصیل کو بڑھا لیں، اسے کچھ زیادہ کر لیں۔ بڑی عجیب سچوایشن تھی۔ میرے لئے زندگی میں یہ پہلا موقع تھا، کہ مجھے ایڈمنسٹریشن کے قریب ہونے کا موقع ملا تھا۔ نہ ملتا تو اچھا تھا۔ میں سوچتا ہم نیچے والے لوگ کتنے بیوقوف اور بدھو ہوتے ہیں۔ ہمیں پتہ ہی نہیں ہوتا، ہمارے اوپر والے ہمارے بارے میں کیا اور کس طرح سوچ رہے ہیں۔ ہمارے بارے میں کیا کیا فیصلے کر رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خیر اس باس کی وجہ سے مجھے پچھلے باسوں کی بھی حرکات سمجھ آنا شروع ہو گئیں۔ اور آنے والے تو سب باس میری فنگر ٹپس پر رہنے لگے۔ پتہ نہیں کیوں مجھے پولیٹیکل مائنڈ کی سمجھ آ گئی۔ دنیا ایڈمنسٹریشن کے اور بھی بہت سے طریقے اپنا چکی ہے۔ لیکن ہمارے ملکوں میں ابھی یہی طریقہ چلا آ رہا ہے، یہی اور ایسا ہی۔ ڈوائڈ اینڈ رول، بندر بانٹ۔ انسانوں سے کھیلنے، ان کے جذبات اور سوچوں کو استعمال کرنے کے علم کو ایڈمنسٹریشن کا نام دیا گیا ہے۔ مینجمنٹ کا نام دیا گیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک دن بیٹھے بیٹھے مجھے ایک خیال آیا۔ کیا اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو، اور اس دنیا کو، اسی طرح چلا رہا ہے، جس طرح باس اس کمپنی کو چلا رہا ہے۔ ایک دوسرے سے لڑوا کر، ایک دوسرے سے دور کر کے، ایک دوسرے سے محتاط کروا کر۔ کیا اللہ تعالیٰ نے بھی ہر انسان سے علیحدہ تعلق بنا رکھا ہے، ہر گروہ، ہر قوم سے، اور اسے یقین دلا رکھا ہے، کہ بس کمپنی چل رہی ہے، تو تیری وجہ سے۔ باقی تو سب۔۔۔۔۔ کیا اللہ تعالیٰ انسانوں کو کسی پولیٹیکل طریقے سے ڈیل کر رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بس یہ کوئسچن مجھے کھینچتا چلا گیا۔ نہیں، ایسا نہیں ہے۔ میرا دل کہے۔ فرعون کی خدائی کا دعویٰ اس طرح بھی تھا، کہ اس نے دوسروں کو اس قابل ہی نہیں چھوڑا تھا، کہ وہ فرعون کے علاوہ کچھ سوچ سکیں۔ اللہ تعالیٰ کے بارے میں کچھ سوچ سکیں۔
ہمارے باس، ایڈمنسٹڑیشن، پولیٹکل سسٹم، پولیٹیکل باڈیز کچھ ایسی ہی ہیں۔ ان کے پاس بیٹھنے والے، ان کے قریب ہونے والے، بس اللہ ہی حافظ ہے۔ خوشامد، چغلی، جھوٹ، بہتان، کھینچا تانی، مکر و فریب، شائد ہی کوئی منفی اور مکروہ ذہنی حالت ایسی ہو، جو ان کے قریب بیٹھنے والوں کو استعمال نہ کرنی پڑتی ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہرحال، میں اس نتیجے پر پہنچا کہ اللہ تعالیٰ پولیٹیکل لیڈر نہیں ہے۔ اس نے انسانوں اور گروہوں اور قوموں کو سیاسی ورکروں، یا ملازموں، یا ماتحتوں کی طرح نہیں رکھا ہوا۔ یہ ہمارے بادشاہ تھے، جنہوں نے ایسی انڈرسٹینڈنگ دی ہوئی ہے مذہب کی۔ بادشاہوں کے زیر سایہ ہمارے اندر ذہنیت ہی ایسی پیدا ہو چکی ہے، جو بادشاہوں کے قریب رہنے والوں کی ہوتی ہے۔ ہم اسے ہی بندگی سمجھتے ہیں۔
بادشاہ یا تو خود خدا بن جاتے تھے، یا خدا کو بادشاہ بنا لیتے تھے۔ وہ لوگوں کو خدا کے بارے میں اسی طرح کی ذہنیت دیتے تھے، جو ان کے قریب رہنے والے لوگوں کی ہوا کرتی تھی۔ آپ دیکھیں گے، کہ جو جو خوبیاں، کسی بادشاہ کے قریب رہنے والے میں ہوتی ہیں، کسی مذہبی یا نیک انسان کا تعلق اللہ تعالیٰ سے تقریبا ویسا ہی ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے بڑی گھن سی محسوس ہوئی۔ میں نے سوچا، نہیں، میں اللہ تعالیٰ کو اللہ تعالیٰ مانتا ہوں بس۔ اسے کوئی بادشاہ نہیں سمجھتا۔ وہ میرا خالق ہے، مالک ہے، رازق ہے۔ اور بھی سب کچھ ہے۔ میں اس کا بندہ ہوں۔ میں نے بندگی کی وہ شکل ڈھونڈنے کی کوشش کی، جو کسی بادشاہ کے مصاحب جیسی نہ ہو، جو کسی وزیر کے چمچے جیسی نہ ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے قرآن و حدیث میں بندگی کے وہ انداز نظر آنے لگے۔ جو رسولوں، نبیوں، صدیقوں، اور شہیدوں اور صالحوں کے انداز تھے۔ بس میں نے دین کو پولیٹیکل انفلوئنس سے نکل کر، پولیٹیکل انفلوئنس کی تشریحات سے علیحدہ ہو کر دیکھنے، سوچنے، سمجھنے کی کوشش کی،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور آج تک کر رہا ہوں۔ مجھے آج بھی سمجھ نہیں آ سکی کے بندگی کے احساسات شئیر کرنے میں خرابی کیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے قرب اور اپنی بندگی کی بہتر سمجھ بوجھ عطا فرمائے، آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: حاوی شاہ
No comments:
Post a Comment