انسانی طبیعت کچھ بنی ہی اس طرح ہے، کہ وہ غم اور تکلیف سے بچتا ہے، اور خوشی اور سکون کو ڈھونڈتا ہے۔
نماز، روزہ اور دیگر اعمال صالحہ میں اگر تکلیف اور غم اور نقصان وغیرہ کے عنصر شامل ہو جائیں، خوف اور مایوسی آ گھیریں، تو ان کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ کا تعلق بننا محال ہو جاتا ہے۔ زیادہ تر لوگ نماز روزے سے دور ہو کر، مذہب کو رسم و رواج بنانے کی کوشش اسی لئے کرتے ہیں، کہ ان میں خوشی اور سکون محسوس ہوتا ہے۔
اصل چیز یہی ہے، کہ انسان اپنے دل و دماغ میں کیسی تبدیلی لائے، کہ اسے نماز روزے میں، یا اعمال صالحہ، یا دیگر عبادات میں سکون اور خوشی میسر آنے لگیں۔
مسلمان ایک مثبت سوچ رکھنے والے، پر امید اور خوش مزاج انسان کا نام ہے۔ اس کا دل صاف ہوتا ہے، اور وہ دوسروں کے بارے میں کسی گلے شکوے، کینے بغض، یا حسد نفرت کا شکار نہیں ہوتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنے غور و فکر کو عبادات سے وابستہ خوشیاں اور آرام و سکون تلاش کرنے میں لگائیں۔ ایسی تمام سوچیں، اور جذبات اور احساسات، اور تصورات اچھے ہیں، جو آپ کو عبادات میں سکون اور خوشی محسوس کرواتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ ہمارے دل و دماغ کو عبادات کی محبت سے مالا مال فرمائے، آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: حاوی شاہ
No comments:
Post a Comment