بچپن کے تصورات میں، دو بڑے کامن تصورات تھے، ایک گھر سے بھاگ جانے کا تصور، اور ایک کہیں گم ہو جانے کا تصور۔ دونوں کسی نہ کسی صورت میں آج بھی میرے ساتھ ہیں۔ میں کہیں نہیں بھاگا، کہیں نہیں نکلا، بلکہ سفر بھی بہت کم کیے ہیں، گھر سے باہر کسی رشتہ دار یا بھائی بہن کے رات بھی شائد ہی گزاری ہو، اپنے گھر میں سونے کو ترجیح دی ہے ہمیشہ، لیکن بچپن سے آج تک، گھر سے بھاگ جانے کا تصور کسی سیریل اسکیپسٹ جیسا تصور ہے میرا۔ اس نے مجھے فائدہ بھی بہت دیا ہے۔
بہرحال دوسرا تصور کہیں گم ہو جانے کا تصور تھا۔ میری خالہ کے بیٹے کو بہت راستے آتے تھے۔ وہ میرے ساتھ ہوتا، تو شرارت سے غائب ہو جاتا، کہ مجھے راستہ نہیں آتا ہو گا، اور میں گھبرا جاؤں گا۔ میں اس کے ساتھ ہوتا تو اتنی دور ہی نہ جاتا، جہاں سے مجھے واپسی کا راستہ نہ آتا ہو۔ جونہی کہیں وہ کسی ایسی گلی میں مڑنے لگتا، میں فورا انکار کر دیتا۔ جوں جوں وہ گھر سے دور نکلتا جاتا، میں راستے یاد کرنے لگتا، اسے واپس مڑنے کا کہنے لگتا۔ گھر سے دور نکلنے، اور گم ہو جانے کا خوف میرا بہت بڑا تجربہ ہے بچپن کا۔
بڑے ہو کر میں نے ایک کتاب چھاپی تو اس کا ٹائٹل یہی تھا، ’بہت دور آ گیا ہوں‘۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پچھلے دنوں میں نے کچھ آنلائن کام کرنے کا سوچا، اور آہستہ آہستہ بہت دور نکل گیا۔ ویب سائٹس بنائی، ڈیزائننگ، کوڈنگ سیکھنے لگ پڑا، اور پندرہ پندرہ اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے ساری ساری رات، کمپیوٹر میں منہ دیے، ان ویب سائٹس کی ڈویلپنگ میں مصروف رہا۔ نمازیں پڑھی تو سہی، لیکن اتنی توجہ نہ دے سکا۔ خوبصورتی اور لطف بھی محسوس نہ کر سکا۔ بس ہر وقت ویب سائٹس ڈویلپ کرنے کا بھوت سوار رہا۔ شروع شروع میں لگتا تھا کچھ دنوں کی بات ہے۔ جیسے بچپن میں دو چار گلیوں تک کوئی فکر نہیں ہوتی تھی گھر کی، لگتا تھا جب چاہے واپس چلا جاؤں گا۔ لیکن ایک وقت آتا تھا، جب ڈر جاتا تھا، کہ نہیں یہاں سے آگے گیا تو بھول جاؤں گا، گم ہو جاؤں گا۔
ایک دو دن سے یہی فکر آ رہی تھی، جب بھی نماز میں کھڑا ہوتا، خیال آتا، بہت دور نکل گئے ہو، بھول جاؤ گے، بھٹک جاؤ گے۔ مجھے اپنی نمازوں اور تلاوتوں کا دور یاد آتا، چار چار پانچ پانچ پارے پڑھ لیتا تھا، اور پھر بھی دل نہیں بھرتا تھا، ایک ایک ڈیڑھ ڈیڑھ گھنٹے کی نماز ہوتی تھی، اور پھر بھی دل نہیں بھرتا تھا، اور اب تو کچھ رہا ہی نہیں اس جیسا۔ دس پندرہ منٹ کی نماز میں بھی توجہ نہیں ہوتی۔ اور تلاوتیں بھی چھٹنے لگی ہیں۔ میں پچھلے دو چار دن سے کافی ڈرا ہوا تھا۔ مجھے لگ رہا تھا میں گم ہو رہا ہوں۔ میں نے ہمیشہ اللہ تعالیٰ کو ساتھ محسوس کیا ہے۔ لیکن مجھے لگ رہا تھا، میں اسے یاد کر رہا ہوں، کہ جیسے وہ کبھی ساتھ ہوتا تھا، اور اب نہیں ہے۔ نعوذ باللہ۔ مجھے یہ سب محسوس کر کے کپکپی آنے لگتی تھی۔ اور یہ احساس کبھی بھی آ جاتا تھا، نماز میں بھی، اور نماز سے باہر بھی۔ اکثر نماز میں ہی آتا تھا۔ اور مجھے لگتا، وہ چار پانچ مہینے پہلے والی نمازیں کوئی اور نمازیں تھیں۔ وہ تلاوتیں کوئی اور تلاوتیں تھی۔
کل رات میں نے سب کچھ وہیں روک دیا۔ کسی ویب سائٹ پر توجہ نہیں دی۔ کسی پر کوئی کام نہیں کیا۔ میں نے سوچا میں چار پانچ مہینے پہلے والی روٹین میں چلا جاؤں گا۔ جو ہو گیا سو ہو گیا۔ میں اب آگے یہ سب نہیں کروں گا۔ بس کسی طرح نمازوں اور تلاوتوں پر توجہ دوں گا۔ پھر وہی خوبصورتی اور خوشی محسوس کرنے کی کوشش کروں گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں آج صبح سے فارغ بیٹھا ہوں۔ مجھے ظہر کا انتظار ہے۔ میں کوئی اور کام نہیں کرنا چاہتا۔ میں اسی طرح محسوس کرنا چاہتا ہوں، جیسے چار پانچ مہینے پہلے کیا کرتا تھا۔ سکول ہے اور گھر ہے، اور نمازیں اور تلاوتیں ہیں۔ باقی جو کچھ بھی پیش آ رہا ہے، اللہ کی رضا سمجھ کر قبول کر لو۔
مجھے بڑا اچھا لگ رہا ہے، اللہ تعالیٰ کے قرب کا وہ میٹھا میٹھا اور پیارا پیارا سا تصور، وہ احساس۔ لوٹ آنے کا احساس بہت خوبصورت ہے۔ واپس آنے کا احساس بہت خوبصورت ہے۔ ایک عجیب سی خوشی اور اطمئنان محسوس ہو رہا ہے۔ دور نکل جانے کے احساس اور گم ہو جانے کے خوف سے جیسے چھڑا لیا ہو کسی نے۔
مجھے ایسے محسوس ہو رہا ہے جیسے میں کسی لمبے اور تھکا دینے والے سفر سے گھر آیا ہوں۔ گھر کی آزادی کا احساس بہت خوبصورت محسوس ہو رہا ہے۔ مجھے محسوس ہو رہا ہے جیسے اللہ تعالیٰ سے دوری پر پابندیاں ہی پابندیاں ہیں۔ سانس لینے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی قربت میں آزادی ہی آزادی ہے۔ میں بار بار باتیں شروع کر لیتا ہوں۔ میں بار بار تفصیلات دینے لگتا ہوں۔ ایسا تھا، ایسا ہوا۔ اور مجھے لگتا ہے جیسے اللہ تعالیٰ محبت سے سن رہا ہو۔ اور کہہ رہا ہو، تمہیں پتہ تھا، تمہیں کہا تھا، بتایا تو تھا۔ چلو کوئی بات نہیں۔ اچھا کیا واپس آ گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زندگی کی جو آزادی، جو خوشی، جو خوبصورتی، اپنے آپ کو، اپنے سب کچھ کو، اللہ تعالیٰ کے حوالے کر دینے میں ہے، جو اس کے ساتھ کو محسوس کرنے میں ہے، وہ اختیار اور کوشش میں کہاں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کو اپنے قرب اور اپنی محبت سے منور و معطر فرمائے، آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: حاوی شاہ
No comments:
Post a Comment