سیونتھ سی میں میری ایک ریپلیسمنٹ:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”ابھی میں آپ کی کلاس میں آیا، آپ میں سے کچھ نے نان سیریس رویہ اختیار کیا، کچھ نے آوازیں لگائیں، کچھ نے ادھر ادھر بھاگ کر تنگ کیا۔ میں نے ہلکی اور نرم آواز میں کہا ”بچو، بیٹھ جائیں پلیز، شور نہ کریں، اور توجہ دیں“، کسی نے میری بات نہ سنی۔ میں نے بار بار کہا، لیکن آپ ویسے ہی ہنستے اور شور مچاتے رہے۔
”پھر میں چیخا، میں نے شاؤٹ کیا، میں غصے سے بولا۔ آپ ڈر گئے، اور خاموش ہو گئے۔ ادھر ادھر بھاگتے بچے، اپنی سیٹوں پر بیٹھ گئے۔ اور ہر طرف خاموشی چھا گئی۔ بچو، ایسا ہی ہوا؟“
میں شائد اتنے غصے سے بولا تھا، کہ بچوں کو ”یس“ کہنے کی بھی جرأت نہیں ہو رہی تھی۔ میرے ایک دو بار پوچھنے پر ایک دو بچوں نے ہلکا سا ”یس، سر“ کہا، اور کمرہ دوبارہ اسی خاموشی میں ڈوب گیا۔
باہر پلے ایریا میں کھیلتے ہوئے بچوں کا ہلکا ہلکا شور تھا، یا دوسری کلاسوں سے آ رہی ہلکی ہلکی آواز۔ میرے کمرے میں مکمل خاموشی تھی۔
”بچو، بیسیکلی آپ نے خوف کی زبان چنی ہے اپنے لئے۔ آپ نے پیار کی زبان رجیکٹ کر دی ہے۔ آپ نے مجھے بتایا ہے کہ اگر میں آپ کو پیار سے، عزت سے بلاؤں گا تو آپ میری بات نہیں سنیں گے۔ اگر چیخ کر، ڈرا کر بلاؤں گا تو آپ میری بات سنیں گے۔ بچو، اب میں جتنا مرضی پڑھا لوں، آپ صرف خوف سیکھیں گے، آپ صرف ڈرنا سیکھیں گے۔ اگر آپ پیار اور عزت سے خاموش ہو جاتے، تو آپ پیار اور عزت سیکھتے، محبت کرنا سیکھتے۔
”بات یہیں پر ختم نہیں ہو جاتی۔ یہاں سے سیکھا ہوا خوف، آپ معاشرے میں، گھر میں، مسجد میں بھی لے جاتے ہیں۔ آپ دکانداروں، مارکیٹوں، دفتروں میں دیکھتے ہیں، کہ لوگ ایک دوسرے کو ڈرانے کے انداز میں بات کرتے ہیں۔ گھر میں پاپا ماما نے بھی ایک دوسرے کو، اور آپ لوگوں کو ڈرانے کی زبان سیکھی ہوتی ہے۔ جب آپ مسجد میں جاتے ہیں، تو وہاں بھی آپ کو اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے کی بجائے، اس سے ڈرنا ہی سکھایا جاتا ہے۔ اس لئے آپ اکثر نہیں جاتے“۔
بچے خاموش تھے۔
”بچو، آپ سکول یہ سوچ کر نہیں آتے کہ آپ پڑھنے آ رہے ہیں، آپ چھٹی کا انتظار کرنے آتے ہو۔ آپ چھ گھنٹے چھٹی کا انتظار کرتے ہو، اور گھر چلے جاتے ہو۔ ظاہر ہے خوف اور ڈر والی جگہ پر خوشی سے تو کوئی نہیں آتا۔ آپ مسجد میں بھی بس جلدی جلدی نکلنے کے لئے آتے ہو۔ بس جلدی جلدی نماز پڑھیں اور نکل جائیں۔
”اگر آپ اب بھی میری بات نہیں سمجھے، تو میں مزید واضح الفاظ میں کہنا چاہتا ہوں، کہ جو کوئی بھی آپ کو ڈرا کر کوئی کام کہے، اسے کہیں آرام سے بولے۔ اور جو کوئی آرام سے کہے، عزت سے کہے، اس کی بات ضرور سنیں، اسے اس طرح سے جواب دیں، کہ وہ عزت سے ہی بات کرے۔
عزت، احترام، پیار، محبت کی زبان سیکھیں۔ خوف کی زبان سیکھنے سے بچ جائیں۔
”مجھے بھی اپنے آپ کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ چاہے کچھ بھی ہو جائے، مجھے محبت سے ہی بولنا چاہئے۔ چاہے آپ پڑھیں، یا نہ پڑھیں، مجھے آپ کو محبت اور عزت سے ہی بلانا چاہئے۔ لیکن بچو، ابھی ہم ان سائنسز کو سمجھنے کی طرف آ رہے ہیں۔ شائد ہمیں کچھ سال لگ جائیں، کہ ہم بچوں سے، اور آپس میں ایک دوسرے سے، اور باہر مارکیٹوں میں، اور سڑکوں پر، ایک دوسرے سے عزت کی زبان میں بات کرنا شروع کر دیں۔ ہمیں کچھ سال لگ جائیں گے۔
لیکن مجھے پتہ ہے، جس دن میری کلاس کے بچوں نے یہ سیکھ لیا، میں لاؤڈ سپیکر لے کر اعلان کروں گا، کہ پاکستان دنیا کا عظیم ملک بن گیا ہے۔ پاکستانی قوم عظیم قوم بن گئی ہے۔ نہ کوئی ہمیں ڈرا سکتا ہے، نہ دھمکا سکتا ہے۔ نہ ہماری مرضی کے خلاف کچھ کروا سکتا ہے“۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ ہمارے لوگوں کو محبت اور عزت کی زبان سیکھنا نصیب فرمائے، آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: حاوی شاہ
No comments:
Post a Comment