Image 1 Image 2 Image 3 Image 4
Pyara Islam

اب تو میں نے پرس رکھنا ہی چھوڑ دیا ہے

 اب تو میں نے پرس رکھنا ہی چھوڑ دیا ہے، لیکن آج سے پچیس تیس سال پہلے، سٹوڈنٹ لائف میں، اور پھر کچھ عرصہ شادی شدہ لائف میں، پرس رکھنا ایک معمول تھا میرا، اور اس میں ایسی کوئی اچنبھے کی بات بھی نہیں تھی، معمول ہوتا بھی ہے بہت سے لوگوں کا۔ لیکن پچھلے پندرہ اٹھارہ سال سے پرس رکھنا چھوڑ دیا ہے۔ 

بس یوں کہیں کہ جب سے اللہ تعالیٰ کی تھوڑی بہت سمجھ آئی، پرس رکھنا چھوڑ دیا۔ 

میرے خیال میں یہ سب کچھ لاشعوری طور پر ہوا ہے، اور علامتی طور پر ہوا ہے۔ 

مجھے اس کی سمجھ اب آنا شروع ہوئی ہے۔ 

پرس ہوتا تھا تو کوئی نہ کوئی فون نمبر، کوئی نہ کوئی کارڈ، کوئی پمفلٹ، کوئی آتے جاتے لکھا ہوا شعر، کوئی ایگزبیشن ڈیٹ، کوئی بک فئیر، کوئی نہ کوئی چیز اس پرس میں جمع ہوتی ہی رہتی تھی۔ کوئی پھٹا ہوا دو روپے کا نوٹ، کوئی خاص نمبر والا بس کا ٹکٹ، کسی کا سمجھایا ہوا ایڈریس، کسی کے دفتر کا پتہ۔ پتہ نہیں کیا کچھ۔

اور پھر ایک وقت آتا جب پرس بھر جاتا، بند ہونا مشکل ہو جاتا، جیب میں آنے سے انکار کرنے لگتا، اور ایک مشکل سی پیدا ہو جاتی اس زندگی میں۔ ایک روپیہ نکالنا ہوتا، تو سارا پرس تلاش کرنا پڑتا۔ بہت سی چیزیں جھولی میں گرانی پڑتی، ساتھ بیٹھی سواریوں، اور کنڈکٹروں کی کھا جانے والی نظروں کا سامنا کرنا پڑتا، بہت کچھ برداشت کرنا پڑتا۔ 

بہت سے مرغ دال بیچنے والوں کی دال خریدنے سے رہ جاتی، بہت سے فقیر خیرات سے محروم رہ جاتے، اور بہت سے چوراہوں پر چندے کے ڈبے سے منہ موڑنا پڑتا، کہ کون پرس نکالے، اور کون اس میں سے مطلوبہ، ایک، دو، پانچ، یا دس روپے کے نوٹ ڈھونڈے۔ 

پرس جیب میں ہونے کے باوجود پیسے ادھر ادھر کی جیبوں میں رکھنے لگتا، اور زندگی گزرتی جاتی۔ پھر کسی جگہ پر ایک آدھ روپیہ گرتا، یا کسی کو زیادہ چلا جاتا، تو توبہ کرتا، اور گھر آ کر پرس کی صفائی شروع کرتا۔ 

پرچیوں پر لکھے ہوئے دو دو سال پرانے فون نمبر پھینکتا، جاب کی تلاش اور سفارشوں کے سلسلے میں سنبھال کر رکھے ہوئے لوگوں کے کونٹیکٹس، اور ریفرنسز دفع کرتا، ٹیوشنوں اور اکیڈمیوں کے اشتہاروں کے پیچھے لکھے ہوئے اپنے ذاتی شعر اپنے ٹرنک میں دفن کرتا،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پرس کو ہلکا پھلکا کرتا، اور زندگی سکون میں آ جاتی۔ 

اگرچہ کچھ عرصے بعد پھر وہی حال ہو جاتا، لیکن وہ عرصہ بڑا اچھا گزرتا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انسان کے دماغ بھی کا بھی یہی حال ہے، اس بات کا اندازہ مجھے بہت بعد میں ہوا۔

نماز کے بعد، تسبیح اور دعا کا بھی یہی حال ہے۔ بہت سی تسبیحیں، بہت سی دعائیں جمع ہوتی جاتی ہیں، بہت سے ورد روٹین بن جاتے ہیں، یہاں تک کہ نماز سے خوف آنے لگتا ہے۔ وہ سارے ورد وظیفے، تسبیحیں، دعائیں بوجھ بننے لگتی ہیں۔ 

انہیں بھی پرس کی طرح صاف کرنا پڑتا ہے، 

ایک دعا رکھ کر، ایک تسبیح رکھ کر باقی سب چھوڑنی پڑتی ہیں، ورنہ وہ نماز کا لطف چھین لیتی ہیں۔ 

سچ تو یہ ہے، کہ اللہ تعالیٰ کی توحید، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت، اور قرآن شریف کی تلاوت کے ساتھ بھی ایسے بہت سے خیالات، نظریات، جذبات، احساسات جمع ہو جاتے ہیں، جو انہیں مشکل بنا دیتے ہیں، اور ان کی تروتازگی متاثر کرتے ہیں۔ 

میرے پرس چھوڑنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے، کہ میں وہ کام اپنے دل و دماغ سے لینے لگا ہوں۔ میں اپنے دل و دماغ کو بھی کچھ عرصے بعد کھنگالتا ہوں، انہیں پرس کی طرح صاف کرتا ہوں۔ ان میں سے ایسے تمام تصورات، خیالات، احساسات، رویے وغیرہ نکال باہر پھینکتا ہوں، جن کے بغیر بھی میں مسلمان رہ سکتا ہوں۔

خواہ مخواہ کی وابستگیاں، فضول تعلقات، بے جا امیدیں، بیکار منصوبے، کتابیں، سوچیں، وظیفے اور پتہ نہیں کیا کچھ۔

مجھے لگتا ہے کہ اگر ہر انسان اپنے پرس کی طرح اپنے دل و دماغ کی بھی صفائی کرے، اور ہر اس تصور، احساس، رویے وغیرہ کو نکال باہر کرے، جس کے بغیر وہ مسلمان رہ سکتا ہے، تو اسے مذہب میں خوبصورتی اور محبت نظر آنے لگتی ہے، نمازیں اور تلاوتیں مزہ دینے لگتی ہیں، اور لوگ اچھے لگنے لگتے ہیں۔ 

اگر آپ کے ساتھ بھی ویسا ہی ہے، جیسا میرے ساتھ ہے، تو وہی کیجئے جو آپ سب اپنے پرسوں کے ساتھ کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہمیں انہی چیزوں سے وابستہ رہنے کی خوش قسمتی عطا فرمائے، جو مسلمان رہنے کے لئے ضروری ہیں، باقی سب سے نجات دے دے۔ آمین۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


No comments: