’اللہ تعالیٰ کو ہماری نمازوں اور تلاوتوں کی ضرورت نہیں ہے،
وہ تو چاہتا ہے، ہم اس کے بندوں کو خوش رکھیں، انہیں تکلیف نہ دیں، ان کا دل نہ توڑیں‘،
اور یہ دلیل، یہ خیال، یہ احساس بڑا مہلک ہے،
حقیقت یہ ہے کہ جب بندہ نمازوں اور تلاوتوں سے غفلت برت کر، ان کی اہمیت کو پس پشت ڈال کر، نام نہاد حقوق العباد ادا کرنے نکلتا ہے، تو نفس کا غلام بن جاتا ہے۔ اب اسے محسوس ہوتا ہے، کہ اللہ تعالیٰ کی خاطر یہ سب کچھ ہو سکتا تھا، لیکن اللہ تعالیٰ کو بھول کر کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ اب تو اس کا نفس سب سے پہلے ہے۔ اس کا نفس اپنے سے زیادہ اہمیت ہی نہیں دیتا کسی کو۔ وہ کیسے کسی کو خوش رکھے، وہ کیسے کسی کو تکلیف نہ دے، وہ کیسے کسی کا دل نہ توڑے۔ اسے تو بس اپنا آپ نظر آتا ہے۔ اور وہ چاہتا ہے، کہ یہ سب کام دوسرے لوگ پہلے اس کے لئے کریں۔ قربانی، مخلصی، بے غرضی تو اسے معلوم ہی نہیں۔
وہ تو لوگوں کو وہی لوٹائے گا، جو لوگ اس کے ساتھ کریں گے۔
اور لوگوں نے تو خلوص دل سے اسے خوش ہی نہیں کیا کبھی،
نہ اس کے لئے کوئی احسان کیا ہے،
وہ بھلا لوگوں کے لئے یہ سب کیوں کرے۔
لوگ تو اسے دبانے اور مارنے کے درپے ہیں، اسے تو لوگوں سے بچنا ہے۔
لوگوں کو ڈرانا ہے، اس سے انتقام لینا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم میں سے بہت سے لوگ نماز روزے کے پابند تھے، لیکن حقوق العباد کے چکر میں بھٹک گئے۔ بہت سے حقوق العباد کی من مانیوں سے بھری سیرگاہ کے عادی ہو گئے، اور اب نماز روزے کی طرف آتے ہوئے گبھراتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں جو تھوڑا بہت فساد نظر آ رہا ہے، وہ حقوق العباد کو ترجیح دینے والوں کا ہے، اور کچھ ان لوگوں کا جو اس کونسپٹ کے پیچھے چھپے بیٹھے ہیں۔
اور جو اس کونسپٹ کے پیچھے چھپے بیٹھے ہیں، ان میں کچھ اور کونسپٹس نے بھی جنم لے لیا ہے۔
مصیبت کی بات یہ ہے کہ کونسپٹس کے بھی خاندان اور ذاتیں ہوتی ہیں۔ حقوق العباد سے متعلق اس کونسپٹ کی موجود اولاد میں، ایک کونسپٹ کو بہت پاپولیرٹی نصیب ہوئی ہے، اور ہر کس و ناکس اسے کوٹ کرتا نظر آتا ہے، کہ جناب مغرب میں مسلمان نظر آئے نہ آئے، اسلام ہر جگہ نظر آتا ہے۔
میں کہتا ہوں، جتنا اس جملے نے توحید، رسالت، ایمان، اسلام، کے تصورات کو نقصان پہنچایا ہے، اور اندر ہی اندر ان کی عظمت اور افادیت کو کھوکھلا کیا ہے، شائد ہی کسی اور جملے نے کیا ہو۔
’بس وہ لوگ کلمہ پڑھ لیں، تو ان سے بڑا مسلمان نہیں ہے کوئی‘
’وہ کلمہ گو نہیں ہیں، لیکن کلمہ گو سے بڑے مسلمان ہیں‘،
’ایمان دیکھنا ہو تو یہاں دیکھ لو، اسلام اور مسلمان تو یورپ میں ملیں گے‘،
یہ اور اس طرح کے کئی دوسرے جملے، اسی کونسپٹ کے ویرئنٹس ہیں، مترادفات کہہ لیں، نعوذ باللہ۔
کہاں بچتی ہے کسی قوم میں کوئی خصوصیت، جب اس کا ایمان اور مذہب یورپ کو دے دو، قومیت اور پہچان ہندوؤں کو، اور سیاست یہودی سازشوں کو۔
لا اللہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی عظمت کو پہچانیں،
دنیا کا کوئی نظریہ، کوئی اصول، کوئی موٹیویشن اس سے بڑی نہیں ہو سکتی۔
کسی مسلمان کو کمتر، اور کسی نان مسلم کو بہتر کہنے کا مطلب کلمے کی اہمیت سے انکار کرنے کے مترادف ہے۔
یورپ میں جو بھی چیز بہتر نظر آ رہی ہے، وہ اس کی سیاست ہے، اس کی روح نہیں ہے، اور ہمارے ہاں جو بھی کمتر نظر آ رہی ہے، وہ ہماری سیاست ہے، ہماری روح نہیں ہے۔
اگر کسی نے اسلام کے خلاف کوئی سازش کی ہے، تو ایسے چند جملے اور کونسپٹ پھیلا کر سازش کی ہے، اور تو کوئی بات نہیں۔
اسلام آج بھی اپنی پوری آب و تاب سے زندہ ہے، اور مسلمان آج بھی اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ امت ہیں، اس میں کوئی شک ہی نہیں ہے۔
تمام حقوق اللہ تعالیٰ کے ہیں، اور بندوں کے صرف فرائض ہیں۔
کسی جگہ پر اگر کوئی تخصیص ہے بھی، یا سمجھانے کے لئے تخصیص کر بھی دی گئی ہے، تو اسے خالق اور مخلوق کے دائرے سے باہر نہیں دیکھنا چاہئے۔
تمام حقوق خالق کے ہیں۔ ایک مخلوق کا دوسری مخلوق پر بھلا کیا حق ہو سکتا ہے، سوائے فرائض کے فرق کے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ہر حال میں اپنی اور صرف اپنی بندگی کی خوش قسمتی، اور ایمان اور اسلام کی برتری کے احساسات کی خوش بختی عطا فرمائے، آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment