آج کا جمعہ اتنا ہی خوبصورت تھا، جتنا میں تصور کر سکتا ہوں۔ میرے کپڑے، طبیعت، ماحول، موسم، مسجد کی فضا، کوئی کسر باقی نہیں تھی۔
میں جامع مسجد کے صدر دروازے سے داخل ہونے کی بجائے، عقبی دروازے سے داخل ہونے لگا ہوں، وجہ صرف یہ ہے، کہ جس ریک میں میں جوتے رکھتا ہوں، وہ مسجد کے عقبی دروازے کے زیادہ قریب ہے۔ بندے کو مسجد کے صحن سے جوتے اٹھا کر نہیں گزرنا پڑتا۔
بہرحال عقبی دروازہ ایک چھوٹے سے پارک میں کھلتا ہے، اور آج کل کے موسم کی خوش باش ہوائیں، مسجد کے نمازیوں کو مور پنکھ جھلاتی محسوس ہوتی ہیں۔ بڑی بڑی کھڑکیوں سے لہلہاتے درختوں کی شائیں شائیں، اور دھوپ میں چمکتے دھندلاتے سائے، تو ویسے ہی ایک نظر پڑنے پر دوسری ضرور کھینچ لیتے ہیں۔
میں اس بار ایک ایسی جگہ بیٹھ گیا، جہاں پچھلی بار میں نے ایک آٹھ دس سالہ بچے کو بیٹھے، انتہائی انہماک سے نماز ادا کرتے دیکھا تھا۔ گھر میں کسی بہت ہی کامل بزرگ کو نماز ادا کرتے دیکھا ہو گا اس بچے نے۔ اس کے چہرے کے تاثرات، اس کے انداز، اس کی جسمانی حرکات، ایسی محسوس ہو رہی تھی جیسے کوئی قرون وسطیٰ کا معمر درویش مصروف عبادت ہو اپنی خانقاہ میں۔
آج وہ جگہ خالی دیکھ کر میں بیٹھ گیا۔
سارا جمعہ مجھے وہ بچہ یاد آتا رہا، اور میں سوچتا رہا، کہ کیا میں بھی اسی بچے کی طرح پیارا اور برگزیدہ لگ رہا ہوں گا نماز پڑھتے ہوئے۔
بہرحال، مجھے اپنے لٹھے کا پسندیدہ سوٹ مل گیا تھا، بڑی صفائی سے تہہ لگا ہوا، اور استری کے بغیر۔ مجھے تو کھولتے اور پہنتے ہی اندازہ ہو گیا تھا، کہ آج میری موج ہو گئی۔ کڑ کڑ کرتا لٹھا، اور خشک خشک سے دن۔ گلی اور سڑک پر دھوپ اس طرح چمک رہی تھی جیسے آنکھیں چندھیا دے گی۔ اور میرے جیسا آدمی جسے ساری عمر دھوپ میں دیکھنا نہیں آیا۔
بہرحال اتنی اچھی فیلنگز اور موڈ میں میں جب مسجد میں اس جگہ بیٹھ گیا، اور مجھے بڑے ہال کے خوشبوؤں میں لپٹے ہوئے جھونکے بھی لگ گئے دو چار، تو میرے لئے اب کسی اور چیز کی کمی نہ رہی۔ ہر چیز خوبصورت تھی، ہر لمحہ خوشبودار تھا۔
قاری صاحب کی قرأت، نمازیوں کا انہماک، صفوں کی کثرت، بچوں کی چہک مہک اور خاموشی، اور گاہے بگاہے کھڑکھڑاتے دروازوں اور کھڑکیوں کا ما شاء اللہ۔ بعض دفعہ تو کوئی جھونکا اتنا تیز ہوتا، اور اتنا تیزی سے گزر جاتا، کہ سب کی قمیصیں الٹی سیدھی ہو جاتیں۔
نماز کے بعد میں بیٹھا نمازیوں کے پاؤں اور شلواروں کے کپڑے نوٹ کرتا رہا۔ عید ہی لگ رہی تھی مجھے تو۔ اور پھر باقی کی نماز کے دوران، مجھے نماز کے اندر آیا ایک خیال بار بار آتا رہا، اور دعا اور تسبیح تک پہنچتے پہنچتے اتنا راسخ ہو گیا، کہ میرے لئے اس پر عمل کیے بغیر رہنا نا ممکن ہو گیا۔
ہوا کچھ اس طرح سے تھا، کہ چھوٹی گلی سے گزر کر عقبی دروازے تک پہنچتے پہنچتے، مجھے ایک دو بار محسوس ہوا تھا، کہ گلی کچھ پراگندہ پراگندہ سی ہے۔ شائد سڑک کا کوڑا بھی اڑ کر اس گلی میں پناہ لے چکا تھا، یا کوئی اور بات تھی، مجھے محسوس ہوا کہ اتنا کوڑا ہونا نہیں چاہئے تھا مسجد کے ساتھ والی گلی میں۔ بڑے بڑے شاپر، موم جامے کے ٹکرے، پھٹے پرانے کاغذ، چپس، لیز، بنٹیز، پاپڑوں، نمکوؤں، سلانٹیوں کے ریپر، پتہ نہیں کچھ زیادہ ہی تعداد میں جمع ہو گئے تھے آ کر۔
مجھے نماز میں خیال آیا، کہ مسجد کی اس گلی میں صفائی کا کوئی خاص خیال نہیں آیا کسی کو۔ پہلے کبھی مسجد کا ایک دروازہ اس گلی میں کھلتا تھا، جب سے وہ بند ہوا ہے، مسجد کی دیوار کے ساتھ ساتھ گرد و غبار اور ککھ کان کا جمع ہونا اور چمٹنا معمولی سی بات بن گئی ہے۔
میں نے سوچا اگر مجھے اپنی گلی کا خاکروب ملے تو اسے کہوں، اس مسجد والی گلی کی صفائی کر دیا کر صبح صبح، اور اس کے علیحدہ سے پیسے لے لیا کر مجھ سے۔ خیال اچھا تھا، اور میرا خیال تھا میں اس پر عمل بھی کر لوں گا، لیکن ایک اور خیال اس سے بھی معنی خیز تھا۔
”ابھی یہ مسجد کا جھاڑو پکڑو، اور باہر نکل کر گلی کی صفائی کرو“ مجھے عجیب سا تو لگا، لیکن میں نے اس خیال کو سن لیا۔
خیر میں نے جھاڑو پکڑ کر گلی کی صفائی تو کر دی، اور گلی پہلے سے ہلکی پھلکی بھی لگنے لگی، لیکن خاکروب والے جھاڑو کو اٹھا کر، میرے مسجد سے نکلنے، اور چپ کر کے گلی صاف کرنے تک جو مرحلہ آیا، وہ ایک علیحدہ پوسٹ کا متقاضی ہے۔ اگر ہو سکا تو پھر کبھی لکھوں گا۔
جھاڑو دیتے ہوئے میں بس ایک ہی چیز سوچ رہا تھا، کہ مسجد کی ہمسائیگی میرا خواب ہے، یہ گلی میری گلی ہو تو میں اسے خوشبوؤں سے مہکا کر رکھوں، لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وما قدروا اللہ حق قدرہ۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ ہمیں مسجد کی ہمسائیگی کا حق ادا کرنے کی خوش قسمتی عطا فرمائے، آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment