Image 1 Image 2 Image 3 Image 4
Pyara Islam

اس میں تو اب کوئی شک نہیں رہا

 اس میں تو اب کوئی شک نہیں رہا، کہ ڈاکٹر صاحب کا میری زندگی بدلنے میں کردار بہت اہم رہا ہے۔ اگر میری آج کل کی مصروفیات کی وجہ سے مجھے خاتمہ بالایمان نصیب ہو گیا، اگر مجھے موجودہ اعمال کی وجہ سے قیامت والے دن سرخروئی نصیب ہو گئی، تو اس میں تقریباً سارا ہی حصہ ڈاکٹر صاحب کا ہو گا۔ 

میں ڈاکٹر صاحب سے ملنے جاتا، تو میرا اٹھنے کو دل نہ کرتا۔ ان کی باتیں، ان کا انداز، ان کا پرسنیلٹی انفلوئنس، سب کچھ اتنا خوبصورت اور پر لطف تھا، کہ میرا ہلنے کو دل ہی نہ کرتا۔ مجھے ان کی چھوئی ہوئی چیزوں سے خوشبو سی آتی محسوس ہوتی، اور میرا دل کرتا میں ان سے عقیدت کا اظہار کروں۔ مجھے ڈاکٹر صاحب سے وابستہ ہر چیز خوبصورت محسوس ہوتی۔ 

یہ کوئی آج سے تیس بتیس سال پہلے کی بات ہے، سن انیس سو انانوے نوے کی۔ میں والدہ کو لے کر ان کے کلینک پر جاتا، اور وہ کوئی موضوع شروع کر لیتے، پھر والدہ کی تھکاوٹ کا احساس کر کے، مجھے انہیں گھر چھوڑ آنے کا کہتے، اور میں والدہ کو گھر چھوڑ کر واپس ان کے کلینک پر چلا جاتا۔ بس پھر وہ ظہر تک کا ٹائم مجھے مختلف باتیں سنانے میں لگا دیتے۔ 

میں خاموشی سے سنتا رہتا۔ میرے اندر بولنے کی ہمت نہیں تھی۔ ایک تو میں شرمیلی طبیعت کا تھا، اور دوسرا ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کا اثر ایسا بھرپور تھا، کہ میں کچھ بول ہی نہ پاتا۔ ویسے وہ کچھ پوچھتے بھی نہیں تھے۔ 

مجھے ان کے کے کلینک کے حوالے سے جو دن سب سے زیادہ یاد ہے، وہ کوئی مئی جون کی دوپہر کا دن ہے، اور میں ان کے کلینک سے باہر نکلا ہوں، اور مجھے اندازہ ہی نہیں ہے باہر اتنی دھوپ ہے، اور میں دیواروں کے ساتھ ساتھ چلتا ہوا واپس آ رہا ہوں۔ عین دوپر کا وقت ہونے کی وجہ سے دیواروں کے سائے بھی بہت چھوٹے ہیں، اور مجھے سر میں دھوپ محسوس ہو رہی ہے۔ 

ڈاکٹر صاحب بہت سی نصیحتیں کرتے تھے، لیکن ایک نصیحت جو وہ بار بار کرتے تھے، وہ سورہ بقرہ کی آئت ایک سو چونتیس کے حوالے سے تھی۔ 

تلک امۃ قد خلت،۔۔۔۔۔۔۔

وہ کہتے ’شاہ جی، وہ لوگ چلے گئے، وہ ایک امت تھی، چلی گئی، ان سے ان کے اعمال کا پوچھا جانا ہے، مجھ سے میرے اعمال کا۔ میں ان کے اعمال کا جواب دہ نہیں ہوں‘۔

اور سچ تو یہ ہے کہ یہ سادہ سی بات سمجھنے میں مجھے تیس سال لگ گئے۔ لیکن بہرحال سمجھ آ گئی۔ کہ جو کچھ بھی کتابوں میں لکھا ہے، اسے صحیح یا غلط کہے بغیر بند کر دو۔ قرآن پاک، اور نماز، روزے، حج، زکوٰۃ کو پکڑو، اللہ تعالیٰ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان پختہ رکھو، اور چپ کر کے زندگی بسر کرو۔ 

پہلے دین کے احکامات بجا لاؤ، اور اس کے بعد جتنا ہو سکے دوسروں کی مدد کرو۔

جو باتیں بھی متنازعہ محسوس ہوں، انہیں بغیر کسی کومنٹ کے نظر انداز کر دو۔ 

خواہ مخواہ کے بحث مباحثے سے بچو، اور کوئی وقت ملے، تو کسی بزرگ کی کوئی کتاب پڑھ لو، یا کسی بزرگ سے مل آؤ۔ 

ہر کام میں مثبت پہلو مد نظر رکھو، مثبت سوچ، مثبت جذبات، مثبت رویے، وغیرہ، اور اپنے کردار کو بہتر بنانے کی کوشش کرو۔ 

ان کی ساری باتوں کو ایک جملے میں بیان کرنا ہو تو کچھ اس طرح ہے، کہ اگر مجھے حضور پاک صلی اللہ علیہ و سلم کی امت کی خدمت اور اصلاح کرنی ہو، تو میں کیسے کروں گا، غلط اور صحیح بتا کر، یا اچھا اور برا بتا کر۔ ظاہر ہے اچھا اور برا بتا کر۔ 

ڈاکٹر صاحب کی باتوں کا خلاصہ کچھ اس طرح سے تھا، کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی امت سے محبت کرو، اور جو ان حالات میں اچھا ہے، اس کی تلقین کرو۔ 

سچ جھوٹ، غلط صحیح کی بات نہ کرو۔ اچھے اور برے کی بات کرو بس۔ 

بلکہ اچھے کی ہی بات کرو، برا خود ہی سمجھ آ جائے گا۔ 

بس یہ وہ ایک نصیحت ہے، جو اپنے اختصار اور تفصیل میں آپ کے سامنے ہے، اور شکر الحمد للہ، کہ اس کے ثمرات توقع سے بھی بہترین نکلے ہیں۔ 

اگر میں دیکھوں کہ مجھے سب سے اچھی نصیحت کون سی کی گئی، اور کس نے کی، اور میں نے اس سے کیا سیکھا، اور اس نے میری زندگی میں کیا تبدیلی پیدا کی، اور میں کون سی نصیحت کو آگے پہنچانا چاہتا ہوں، تو وہ یہی نصیحت ہے جو ڈاکٹر صاحب نے مجھے کی، اور میں آگے پہنچانا چاہتا ہوں۔ 

ڈاکٹر صاحب اپنا کلینک چھوڑ چکے ہیں، اور میں اس گلی سے گزروں، یا اس کا تصور کروں، تو مجھے ان کی خوشبو سی محسوس ہوتی ہے وہیں کہیں۔ ویسا ہی کوئی گرمیوں کا دن ہو، اور میں ان کی گلی سے گزر رہا ہوں، تو مجھے لگتا ہے، وہ وہیں اپنے کلینک میں بیٹھے ہیں، اور وہیں میں ان کے کلینک کا سپرنگوں والا، پرانی طرز کا دروازہ کھول کر داخل ہو رہا ہوں، اور وہیں انہیں سفید ململ کی قمیص اور لٹھے کی شلوار پہنے، سر پر سفید ٹوپی رکھے، اپنے ٹیبل پر قرآن پاک پڑھتے، یا ’دین مصفطی‘ کی ورق گردانی کرتے دیکھ رہا ہوں۔ 

ان کی ٹیبل پر موجود کتابوں میں تبدیلی آتی رہتی تھی، لیکن قرآن پاک، مولینا نعیم الدین مراد آبادی کی تفسیر والا، مولینا احمد رضا خاں صاحب کے ترجمے والا، دین مصطفی، ان کے پیر و مرشد کے صاحبزادے حضرت محمود رضوی کی لکھی ہوئی، طب نبوی، کسی اکرام یا اکرم نامی عالم کی لکھی ہوئی، چھوٹی سی قاموس، اور کچھ قاعدے وغیرہ وہیں ملتے تھے۔ 

مجھے کلینک میں داخل ہوتے ہی ایسے محسوس ہوتا جیسے میں کسی اور ہی دنیا میں آ گیا ہوں۔ کلینک کی بھینی بھینی سی خوشبو، اعلیٰ پیمانے کی صفائی، روشندانوں سے آتی خوبصورت روشنی، اے سی یا پنکھے کی سہلاتی سہلاتی سی ہوا، اور ڈاکٹر صاحب کی پیار میں گندھی شخصیت۔ 

میں نے تیس پینتیس سال ڈاکٹر صاحب کو ایک ہی موڈ، ایک ہی لہجے، ایک ہی مسکراہٹ میں بات کرتے دیکھا ہے۔۔۔۔۔۔  اللہ تعالیٰ انہیں صحت و تندرسی اور عمر خضر عطا فرمائے، اور ان کا سایہ ہم پر سلامت رکھے، آمین۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے نیک بندوں کی صحبت سےفیضیاب ہونے کی خوش قسمتی عطا فرمائے ، اآمین ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


No comments: